16 دسمبر 1971ء ۔۔ علی حسن

علی حسن
16 دسمبر 1971ء
دسمبر کی 16 تاریخ ہر سال یاد دلاتی ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا، کس تکلیف دہ اور افسوس ناک طریقہ سے دو لخط کیا گیا۔ بہت ہی تکلیف دہ تاریخ ہے۔ میجر جنرل راؤ فرمان علی خان1971 کے پر آشوب دور میں مشرقی پاکستان میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ مرحوم نے راقم کو دیئے گئے،انٹر ویو میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کے حالات پر کچھ اس طرح روشنی ڈالی تھی کہ 28 فروری1971کو جب اعلان ہوا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا جاتا ہے تو پہلی مارچ کو غدر مچ گیا ، دوپہر کو کرکٹ کا میچ ہورہا تھا انہوںنے سب کچھ جلادیا تھا ، رات کو ہم تینوں (یعقوب (صاحبزادہ) ، احسن اور میں ) بیٹھے ہوئے تھے، میں احسن کاسٹاف آفیسر تھاہماری مجیب الرحمن ، کمال ، تاج الدین وغیرہ سے بات چیت ہوئی ، جب مجیب الرحمن اکیلا رہ گیا تو اس نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی نئی تاریخ کا اعلان کردو میں صورتحال سنبھال لوں گا ، ہم نے احسن کے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک پیغام ٹیلیکس کے ذریعے مغربی پاکستان روانہ کیا وہ پیغام یہ تھا۔
I beg you to announce a fresh date tonight tomarow will be late ، انہوںنے نئی تاریخ نہیں دی اور اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا۔ یعقوب نے کہا کہ صدر کو یہاں آنا چاہیے ۔ ہوا یہ کہ ٹیلیکس آیا تھا کہ یعقوب صاحب ٹیک اوور کرلیں اور احسن صاحب کی چھٹی ، ٹیلکس کے جواب میں فون آیا اور بہرحال یعقوب صاحب نے ٹیک اُوور کرلیا اور انہوں نے دیکھا کہ واقعی احسن ٹھیک کہہ رہے تھے، احسن خوش تو نہیں تھے البتہ اس بات پر خوش تھے کہ پیچیدہ صورتحال سے جان چھوٹ رہی ہے،ایک طرف ان کا کہنا نہیں مانا جارہا ہے تو دوسری طرف وہ ذمہ دار بھی تھے۔ تیسرا راستہ ہی نہیں تھا اس لیے انہوں نے کہا ٹھیک ہے جیسا آپ چاہتے ہیں ایسی صورت میں وہ کر بھی کیا کراسکتے تھے ، اصل حکم اس کا چلتا ہے جس کے پاس اتھارٹی ہو خاص طورپر مارشل لاء میں، بات ہورہی تھی کہ یعقوب نے ٹیلی گرام روانہ کیا کہ صدر پاکستان کو ڈھاکہ آنا چاہیے ۔
مغربی پاکستان سے جواب آیا، آپ جو فیصلہ کرنا چاہئیں کرلیں ، یہ کیا بات ہوئی ہمارا رابطہ تو کبھی نہیں ٹوٹا تھا حالانکہ حقیقت میں کمیونی کیشن فیل ہوچکی تھی، صدر پاکستان وہاں نہیں جاسکتے تھے اور ہم یہاں نہیں آسکتے تھے۔ شام کو ہم احسن صاحب کو چھوڑ کر یعقوب صاحب کے گھر گئے وہاں میں ، جنرل خادم اور یعقوب صاحب اکٹھے تھے، ہم نے ایک ساتھ کھانا کھایا ، بیگمات بھی تھیں تینوں خواتین ایک طرف جاکر بیٹھ گئیں اور ہم تینوں ٹیبل پر بیٹھے بات کررہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی، جنرل پیرزادہ صاحب دوسری طرف لائن پر تھے ہم نے جو سنا وہ یہ تھا in that case accept my resigation ، ہم نے کہا سر ہمارے استعفوں کے بارے میں بھی کہہ دیں ، بات یہ تھی کہ مسئلے کو سیاسی طورپر حل نہیں کیا جارہا تھا، خیر انہوں نے کہا نہیں تم لوگوں کا استعفیٰ نہیں ورنہ وہ بغاوت تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ تم لوگوں کے استعفوں کے بارے میں انہیں مطلع نہیں کرسکتا کیونکہ اجتماعی استعفیٰ بغاوت تصور کیا جاتا ہے ، پھر کوٹ مارشل ہوتا ہے، پھر 15منٹ بعد فون آیا کہ فرمان کو یہاں (مغربی پاکستان) بھیج دو ، میں نے کہا میں مغربی پاکستان جاکر کیا کروں گا میں تو مجیب الرحمن سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، میں نے یہ بات یعقوب صاحب سے اس لیے کہی کہ وہ ابھی تک کمانڈر تھے ، میں نے ان سے کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں مجیب الرحمن سے ملاقات کرلوں، یعقوب صاحب سب کچھ تھے ، گورنر، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور جی او سی ، وہ کورکمانڈر بھی تھے جس کی کوئی کور نہیں تھی ایک ڈویژن تھا لیکن ایک کور بنادی گئی تھی تاکہ آئندہ ضرورت ہوتو ایک ڈویژن اور آجائے۔رات گیارہ بجے تھے جب حکم ملا کہ مجھے طلب کیا گیا ہے وہاں سے ایک جہاز آتا تھا میں نے جی او سی سے کہا کہ جہاز کو روکیں کور کمانڈر سے اجازت لی کہ کیا میں مجیب الرحمن سے ملاقات کرسکتا ہوں، میں چھوٹی سی کار چلاکر وہاں پہنچا، چاروں طرف سے فائرنگ ہورہی تھی میں تنہا تھا میری مجیب الرحمن سے ملاقات ہوئی ۔بہت بری حالت تھی لیکن میں مجیب الرحمن کے گھر پہنچ گیا اکیلا ، میں نے کہا میرے پاس وقت نہیں ہے برائے مہربانی مجھے بتاؤ کہ کیا پاکستان کو بچایا جاسکتا ہے تو اس نے جواب دیا تھا کہ ہاں یہ 4مارچ کی بات ہے۔ شخ مجیب نے کہا تھا کہ ہاں پاکستان کو بچایا جاسکتا ہے لیکن حالات بہت خراب ہے، چار وں طرف قتل عام ہورہا ہے ان حالات میں پاکستان کو بچانا بہت مشکل ہے ۔ ابھی اس نے اتنی بات کی تھی کہ میں نے کمرے سے باہر دیوار کے ساتھ ایک سایہ دیکھا ، میں نے مجیب سے کہا کہ کوئی ہماری بات سن رہا ہے اس نے نفی میں جواب دیا ، تھوڑی دیر کے بعد پھر شکایت کی تو وہ اٹھ کر باہر گیا تو دیکھا کہ تاج الدین ہماری گفتگو سن رہا تھا وہ اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے آیا اور اس سے کہا تاج الدین بھائی فرمان صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان کو کس طرح بچایا جاسکتا ہے ، تاج الدین نے جواب دیا قومی اسمبلی کے ایوان کو
دو حصوں میں تقسیم کردیں، دو آئین بنائیں پھر مل کر بعد میں ایک آئین تشکیل دیا جائے یہ کنفیڈریشن کا آئیڈیا تھا۔ تاج الدین نے مزید کہا ہم اس چھت کے نیچے نہیں بیٹھ سکتے جس کے نیچے بھٹو بھی بیٹھا ہو وہ قاتل نمبر ایک ہے۔
میرا خیال ہے کہ فوجی اور یحییٰ خان ایک بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے ، بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار بنگالیوں کو دیا جانا تھا وہ آبادی میں زیادہ تھے ۔ قومی اسمبلی میں ان کی نشستیں زیادہ تھیں لیکن پاکستان میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا تھا جس نے میرے سامنے یہ بات کہی تھی کہ ہم ان کو اقتدار نہیں دیں گے ۔ اس پر میں نے کہا تھا کہ the are bastard to as we are bastard to than یہ خیال پیدا ہوگیا تھا ، بہت سارے لوگ اس خیال کے حامی تھے ۔ یحییٰ خان کے زمانے میں ایک جنرل اکبر تھے،میں نے ان سے کہا کہ مجھے مجیب الرحمن نے بتایا تھا کہ جب مجیب کی بھٹو سے جنوری میں ملاقات ہوئی تھی تو مجیب کو بھٹو نے بتایا تھا میرے ساتھ 11جنرل ہیں میں نے یحییٰ خان سے کہا تھا کہ اس کے ساتھ گیارہ جنرل ہیں۔ مجیب کہتا ہے مجھے پتا نہیں کیونکہ ہم تو مشرقی پاکستان میں تھے اور جرنیل تو مغربی پاکستان میں بیٹھے تھے۔ میں وہاں 1967 میں گیا تھا وہاں پر سب سے سینئر آدمی جنرل نیازی تھا، نمبر2جنرل جمشید تھے، نمبر3رحیم تھا، نمبر4نذر حسین تھا، نمبر5 جنرل محمد حسین انصاری تھے، میرا نمبر چھٹا تھا۔ میں نے مشرقی پاکستان میں رہ کر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں ایک شخصیت تھی مجیب کی، مجیب کی پارٹی میں گروہ بندی تھی اصل میں تین گروپ تھے ایک گروپ مشتاق خوندکر کی سربراہی میں تھا ، ایک گروپ تاج الدین کے زیر اثر تھا ، تیسرا گروپ آزاد تھا جو بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ تاج الدین کا گروپ ہندوستان کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتا تھا اور مکمل طورپر بنگلادیش کو آزاد ملک دیکھنا چاہتا تھا ، مشتاق خوند کر کا گروپ 6نکات کا حامی تو تھا ، بنگال کا حقوق چاہتا تھا لیکن وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاتھا تھا ، شیخ مجیب دونوں کے ساتھ تھا ۔ وہ سوچتا تھا کہ اگر تاج الدین والی بات کامیاب ہوتی ہے تو میں بابائے قوم بن جاؤں گا اور اگر مشتاق خوندکر والی بات کامیاب ہوتی ہے تو میں پاکستان کے صدر یا وزیراعظم بن جاؤں گا ۔ تاج الدین نے مجیب سے کہا تھا کہ یہ (مغربی پاکستان) والے تمہیں کبھی بھی وزیراعظم نہیں بنائیں گے ۔ اس نے کہا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ مغربی پاکستان آئینی طورپر اقتدار ہمارے سپرد نہیں کرے گا اور مجیب کو وزیراعظم نہیں بنائیں گے اس نے اس وقت بنگلادیش کا مطالبہ کردیا تھا جب مجیب وزیراعظم بننے میں ناکام ہوا ۔ اگر بھٹو ، مجیب میٹنگ میں اس مسئلہ کا حل تلاش کرلیا جاتا تو پولیس ایکشن کی قطعی ضرورت قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی جس سے زیادہ نفرتیں بڑھتی گئیں ۔ جہاں تک مجھے علم ہے پولیس ایکشن سے ان سیاست دانوں میں بعض نے جو اس وقت ڈھاکہ میں موجود تھے ، بعض سے یحییٰ خان نے مشورہ کیا تھا ۔ پولیس ایکشن کے حق میں مسٹر بھٹو ، جماعت اسلامی اور پرانے مسلم لیگی پیش پیش تھے ۔ بلکہ پولیس ایکشن کے اعلان کے بعد کئی سیاسی لیڈروں نے اپنے بیانات میں اس کو سراہا اور کہا کہ اس ایکشن سے پاکستان کو بچالیا گیا ہے ۔ یہ بیانات اخبارات کے ریکارڈ روم میں موجود ہیں ، بعض سوجھ بوجھ رکھنے والے سیاست دان اور میرے علاوہ کچھ اور فوجی جنرل بھی پولیس ایکشن خلاف تھے ۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ اس مسئلہ کو سیاسی حکمت عملی سے حل کیا جائے ۔ لیکن ان کی تجویز کو کوئی اہمیت نہ دی گئی ، البتہ جو یحییٰ خان کے نزدیکی حلقوں سے تعلق رکھتے تھے کو زیادہ اہمیت دی گئی ۔ جس سے پولیس ایکشن کا حکم صادر کردیا گیا ، اس کے بعد مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش )اور مغربی پاکستان میں مفاہمت ناممکن ہوگئی ۔ اور ہندوستان کو مشرقی پاکستان میں مداخلت کا جواز مل گیا ۔