Column

وزیر اعلیٰ پنجاب سے درخواست اور آج کا نوجوان

عبد الماجد ملک
دنیا کی آدھی آبادی نوجوانوں پہ مشتمل ہے اور پاکستان بھی اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ پاکستان میں یہ تناسب تقریباََ 67فیصد تک ہے اور کسی ملک میں اس کے خوبصورت مستقبل کے انحصار میں نوجوانوں کا اہم رول ہوتا ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی بدولت یعنی نوجوانوں کی وجہ سے پاکستان کا مستقبل شاندار بھی ہو گا اور تابناک بھی ۔ کیونکہ اس میں کردار نوجوانوں نے ادا کرنا ہو گا اور اسی لیے ڈاکٹر اقبالؒ نے کہا تھا کہ
مجھے فخر ان جوانوں پہ ہے۔۔۔۔۔
ستاروں پہ ڈالتی ہیں جو کمند
لیکن افسوس ہم ستاروں کی بجائے کہیں اور چلے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب گامزن ہیں، ڈاکٹر اقبالؒ کو بھی نوجوان طبقہ سے زیادہ امیدیں تھیں بلکہ وہ بزرگوں سے شاید مایوس تھے، ان کے کلام میں بھی گاہے بگاہے مخاطب نوجوان ہی ہے۔
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج سردارا
نوجوان نسل کی ترجیحات مثبت ہو جائے تو وہ ایسا بھرپور کردار ادا کر دیتے ہیں عقل دنگ رہ جاتی ہے اور دنیا حیران ہوجاتی ہے، تاریخ کے اوراق کھنگالیے تو نظر آئے گا۔
فرانس کا انقلاب ہو، چاہے روس کا انقلاب ہو، عرب میں، عجم میں جو بھی تحاریک چلی ہیں تو اس میں کلیدی کردار نوجوانوں نے ادا کیا ہے، یہ نوجوان جو صلاحیتوں سے بھرپور، بلند حوصلہ، بڑی امنگوں سے لیس، اونچی اڑان اور اچھے عزائم سے بھرپور ایسا کردار ادا کر سکتا ہے کہ دنیا حیران ہو جائے لیکن ہم جمود کا شکار ہو چکے، ہمارے حوصلے پست ہو چکے، ہماری پروازیں نیچے ہو چکیں ایسا کیونکر ہوا، وجہ تلاشیں گے تو معلوم ہو گا کہ ہماری ترجیحات بدل گئیں۔ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں
آج ہماری دوڑ میں ڈگری کا حصول شامل ہے اور افسوس کہ تعلیمی ادارے بھی سکلز کی بجائے آپ کے اخراجات کی رسیدیں ڈگریز کی شکل میں دے دیتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں سکلز سیکھنے چاہئیں کیونکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم تجربات سے دور ڈگری بغل میں دابے جاب کے انٹرویوز کے لیے نگر نگر گھوم رہے ہوتے ہیں، جوتے گھس جاتے ہیں، وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور اکثریت کو نوکری بھی نہیں ملتی، جس کی وجہ سے ہم مایوس بھی ہوتے ہیں اور کچھ تو ڈپریشن میں بھی چلے جاتے ہیں جو کہ المیہ ہے۔ ہم میں سے ہر بندہ چاہتا ہے کہ کامیاب ہو اور کامیابی کا معیار بھی عجب رکھا ہے کہ بڑی گاڑی ہو، اچھی رہائش اور نوکر چاکر ہوں تو اس کے لیے جاب کی بجائے بزنس کی طرف آنا چاہئے، کیونکہ پڑھا تھا کہ کمانے کے چار طریقے ہیں۔
سب سے بہترین طریقہ کھیتی باڑی کا ہے یعنی جسے ہم کسان کہتے ہیں۔
اس سے کم درجہ کمانے کا جو ہے وہ کاروبار کرنا ہے۔
اس سے نیچے کا درجہ نوکری کرنا ہے، یعنی ملازمت کرنا ہے۔
سب سے کم تر جو کمانے کا طریقہ ہے وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ہے یعنی بھیک مانگنا ہے۔
اب یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ہم نے کون سا طریقہ اختیار کرنا ہے؟ اعلیٰ طریقے کا انتخاب کر سکتے ہیں اور اس سے کم درجے پہ بھی فائز ہو سکتے ہیں۔
ہم میں سے اکثریت کی خواہش یہی ہے کہ باس بن جائیں، سی ای او کی ریوالونگ کرسی پہ بیٹھیں تو یہ آپ کر سکتے ہیں لیکن کوئی بھی کاروبار کرنے سے پہلے اس کا تجربہ ضرور حاصل کریں کیونکہ اس سے ناکامی کے چانسز انتہائی کم ہوتے ہیں، اکثریت اس وجہ سے فلاپ ہو جاتی ہے کہ انہیں متعلقہ فیلڈ میں کاروبار کا تجربہ نہیں ہوتا۔
آخر میں میرا مطالبہ نئی قائم ہونے والی حکومت سے ہے کہ سنا ہے کہ اس اہم ادارے یعنی ای لائبریری جو کہ قذافی سٹیڈیم کے ساتھ قائم ہے کو پاکستان کرکٹ بورڈ کو دے کر میوزیم میں تبدیل کیا جارہا ہے اور اس سے قبل بھی پی سی بی کے پاس ایک میوزیم موجود ہے، میری وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ سے درخواست ہے کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ کھیلوں کے میدان آباد رہیں، ہماری کامیابیوں کی داستان اگلی نسل تک پہنچتی رہے، لیکن ہماری ترجیحات تعلیمی انسٹیٹیوٹ ہونے چاہئے، برائے مہربانی فیصلے پہ نظر ثانی کرتے ہوئے ای لائبریری کو بحال رکھا جائے کیونکہ یہاں ہزاروں طالبعلم اپنی پیاس بجھاتے ہیں، یہاں پہ جدید ہال، خوبصورت ماحول، کتب، ڈیجیٹل ٹیب سے استفادہ کرتے ہیں اور اس لائبریری میں کئی طرح کے ادبی، صحافتی اور تعلیمی سیشن ہوتے ہیں جن سے ہزاروں لوگ مستفید ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button