Column

بے نظیر بھٹو: ایک عہد کا دردناک اختتام

بے نظیر بھٹو: ایک عہد کا دردناک اختتام
تحریر: انجینئر بخت سید یوسفزئی
قلمِ حق
27 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا وہ المناک دن ہے جو وقت گزرنے کے باوجود آج بھی قومی شعور پر ایک گہرے اور بھر نہ سکنے والے زخم کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ یہ دن صرف ایک فرد کی شہادت کا نہیں بلکہ ایک پورے عہد، ایک سیاسی سوچ اور ایک جمہوری امید کے اچانک اختتام کی علامت بن چکا ہے، جس نے ملک کو طویل عرصے تک سوگ، بے یقینی اور سوالات کی کیفیت میں مبتلا رکھا۔
مجھے یہ دن آج بھی پوری شدت کے ساتھ یاد ہے۔ میں اس وقت اپنے گائوں میں موجود تھا، کراچی سے آیا ہوا تھا کیونکہ یونیورسٹی کے سمسٹر بریک چل رہے تھے۔ دیہی ماحول میں عام دنوں کی طرح زندگی رواں دواں تھی، مگر کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ چند لمحوں میں ایسی خبر آنے والی ہے جو پورے دن ہی نہیں بلکہ آنے والے برسوں کی یادوں پر نقش ہو جائے گی۔
ٹی وی پر اچانک بریکنگ نیوز چلی اور فضا بدل گئی۔ ابتدا میں خبر ادھوری اور غیر واضح تھی، مگر دل کو جیسے پہلے ہی کوئی انجانا سا خوف محسوس ہو رہا تھا۔ چند لمحوں بعد جب یہ تصدیق ہوئی کہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا ہے تو ایسا لگا جیسے وقت تھم سا گیا ہو اور الفاظ، احساسات اور سوچ سب ایک ساتھ بکھر گئے ہوں۔
میرے والد صاحب، اللہ انہیں بخشے، یہ خبر سنتے ہی بے اختیار ٹی وی کی طرف دوڑ پڑے۔ ان کے چہرے پر گہری تشویش اور دکھ نمایاں تھا، اور انہوں نے بس اتنا کہا، ’’ بڑا افسوس ہوا‘‘۔ یہ جملہ مختصر ضرور تھا مگر اس میں ایک پوری نسل کی محرومی، مایوسی اور ٹوٹتی ہوئی امیدیں سمٹ آئی تھی۔
یہ کیفیت صرف ہمارے گھر تک محدود نہیں رہی۔ پورے گائوں میں لوگ ایک دوسرے سے خبر کی تصدیق کرتے نظر آئے، ریڈیو اور ٹی وی ہر جگہ کھل گئے، اور جیسے جیسے حقیقت واضح ہوتی گئی، ایک اجتماعی غم کی فضا قائم ہوتی چلی گئی۔ ہر چہرے پر حیرت اور ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ آخر یہ سانحہ کیوں پیش آیا۔
بے نظیر بھٹو محض ایک سیاست دان نہیں تھی بلکہ وہ ایک نظریہ، ایک جدوجہد اور ایک سیاسی وراثت کی نمائندہ تھی۔ انہوں نے سیاست ایسے وقت میں شروع کی جب حالات نہایت کٹھن تھے، اور انہوں نے کم عمری میں ہی اقتدار اور محرومی دونوں کے تلخ تجربات دیکھے، مگر اس کے باوجود سیاست کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے رکھا۔
انہوں نے قید و بند، جلاوطنی اور مسلسل دبائو کے باوجود ہار نہیں مانی۔ ان کی سیاسی زندگی قربانیوں سے بھری ہوئی تھی، اور وہ ہر مشکل مرحلے پر عوام کے درمیان رہنے کو ترجیح دیتی تھی، جس کی وجہ سے ان کا عوامی رشتہ ہمیشہ مضبوط رہا۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت کے لیے سیاست میں جگہ بنانا آسان نہیں، بے نظیر بھٹو نے نہ صرف قیادت کی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ وہ مسلم دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم تھی، اور اس حیثیت سے انہوں نے پاکستان کا نام دنیا بھر میں متعارف کرایا۔
2007ء میں ان کی وطن واپسی کو ایک نئے سیاسی دور کی امید سمجھا جا رہا تھا۔ کراچی میں ان کے استقبال کے لیے نکلنے والا انسانی سمندر اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ عوام آج بھی انہیں اپنی امیدوں کا مرکز سمجھتے ہیں اور ان سے ایک بہتر مستقبل کی توقع رکھتے ہیں۔
اس واپسی کے ساتھ سنگین خطرات بھی جڑے ہوئے تھے۔ سیکیورٹی خدشات، دھمکیاں اور حالات کی سنگینی سب کے سامنے تھی، مگر اس کے باوجود انہوں نے عوامی رابطہ مہم جاری رکھی اور سیاسی میدان سے پیچھے ہٹنے کے بجائے مزید متحرک ہو گئیں۔
راولپنڈی کا وہ جلسہ بھی اسی سیاسی جدوجہد کا حصہ تھا۔ خطاب کے بعد جب وہ گاڑی میں واپس جا رہی تھی تو لمحوں میں سب کچھ بدل گیا۔ فائرنگ، دھماکہ اور پھر وہ خبر جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔
واقعے کے فوراً بعد ملک بھر میں بے چینی پھیل گئی۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے، احتجاج شروع ہو گئے، اور غم و غصہ ایک ساتھ ابھر آیا۔ مختلف شہروں میں حالات کشیدہ ہو گئے اور قومی زندگی جیسے اچانک ٹھہر سی گئی ہو۔سیاسی طور پر یہ سانحہ ایک بڑے خلا کا باعث بنا۔ انتخابات ملتوی ہوئے، سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہو گیا، اور جمہوری عمل ایک بار پھر غیر یقینی کا شکار ہو گیا۔ ہر طرف یہی بحث ہونے لگی کہ ملک اب کس سمت جائے گا۔
یہ واقعہ اس تلخ حقیقت کی یاد دہانی بھی تھا کہ پاکستان میں جمہوری عمل کس قدر نازک ہے۔ ایک منتخب رہنما کا یوں قتل ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ تشدد اور انتہا پسندی کس طرح پورے نظام کو یرغمال بنا سکتی ہے۔
بے نظیر بھٹو خاص طور پر خواتین کے لیے حوصلے اور خود اعتمادی کی علامت تھیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ عورت قیادت کی اہل ہے اور مشکل ترین حالات میں بھی ملک کی رہنمائی کر سکتی ہے، بشرطیکہ اسے موقع دیا جائے۔
ان کی سیاسی سوچ میں عوامی رابطہ، آئینی بالادستی اور جمہوری تسلسل کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ وہ اختلاف کو دشمنی میں بدلنے کے بجائے سیاسی عمل کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتی تھیں، جو ایک بالغ جمہوریت کی علامت ہے۔
اس سانحے کی بعد انصاف کے تقاضے بارہا زیرِ بحث آئے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ بہت سے سوال جواب کے بغیر ہی رہ گئے۔ قوم آج بھی یہ جاننا چاہتی ہے کہ اس واقعے کی مکمل حقیقت کیا تھی اور ذمہ داروں کا تعین کیوں نہ ہو سکا۔میڈیا نے اس دن اور اس کے بعد عوامی جذبات کی بھرپور عکاسی کی۔ ہر چینل، ہر اخبار اس سانحے سے بھرا ہوا تھا، مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، یہ واقعہ بھی دیگر قومی سانحات کی طرح پس منظر میں چلا گیا، حالانکہ اس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کا پیغام برداشت، مفاہمت اور جمہوریت تھا۔ وہ سیاست کو ذاتی دشمنی کے بجائے عوامی خدمت کا ذریعہ سمجھتی تھیں، اور یہی سوچ کسی بھی معاشرے کو آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔
میرے لیے بے نظیر بھٹو کی شہادت ایک قومی سانحے کے ساتھ ساتھ ایک ذاتی یاد بھی ہے۔ والد صاحب کی آواز، ٹی وی اسکرین پر چلتی خبر اور گھر میں چھایا ہوا سناٹا آج بھی ذہن میں تازہ ہے اور دل کو اداس کر دیتا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں بار بار یہ سبق دیتا ہے کہ جمہوریت کی حفاظت صرف باتوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات، برداشت اور قانون کی بالادستی سے ممکن ہے، اور سیاسی قیادت کی سلامتی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہیے۔
بے نظیر بھٹو کا نام تاریخ میں ایک بہادر، باوقار اور قربانی دینے والی رہنما کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا، اور 27دسمبر ہمیں ہر سال یہ یاد دلاتا رہے گا کہ جمہوری جدوجہد کی قیمت اکثر بہت بھاری ہوتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button