کراچی کے حالیہ دردناک واقعات

کراچی کے حالیہ دردناک واقعات
مشتاق الرحمٰن زاہد
کراچی ملک کامعاشی حب ہے یا مسائل کی آماجگاہ. پاکستان کا سب سے بڑا شہر، معاشی حب اور کروڑوں افراد کی زندگیوں کا مرکز ہے۔ لیکن اس شہر میں روزمرہ پیش آنے والے حادثات، بڑھتے جرائم، اور شہری سہولیات کی زبوں حالی یہ ثابت کرتے ہیں کہ انتظامی ڈھانچہ مسلسل تنزلی اکی جانب بڑھ رہا ہے۔ تازہ ترین کل اور پرسوں دو واقعات نے دل افسردہ و غمگین کر دیا ہے.ایک واقعہ ننھے ابراہیم کا نیپا کے قریب کھلے گٹر میں گر کر ہلاک ہونا اور دوسرا اورنگی ٹائون میں مبینہ ڈاکو کو ہجوم کے ہاتھوں زندہ جلایا جانا، ان دو واقعات نے کراچی کے مسائل کوایک بار پھر تازہ زخم دے دئیے۔ گلشن اقبال کے علاقے میں تین سالہ ابراہیم اپنی والدہ کے ساتھ شاپنگ کے بعد باہر نکلا۔ وہ چند قدم ہی چلا تھا کہ ایک کھلے مین ہول میں گر گیا۔ گٹر پر نہ ڈھکن تھا نہ کوئی اور حفاظتی بندوبست۔ بچے کے گرتے ہی اس کی ماں چیخ چیخ کر پکار رہی تھی کہ مجھے میرا بچہ لیکر دو.ماں کے درد و کرب کی وہ آواز عرش تک بھی پہنچ گئی ہوگی مگر ارباب اقتدار کے کان اس سے بے خبر رہے، ریسکیو کا تو نام و نشان تک بھی نہیں تھا آخر کار بسیار تلاش کے بعد14 گھنٹے بعد بچی کی لاش ملی وہ بھی کچرا چننے والے بچے کے ہاتھوں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بچے کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونی چاہئے تھی.شہر میں ہزاروں مین ہولز بغیر ڈھکن کے کھلے پڑے ہیں۔ میونسپل کارپوریشن کے درمیان فنڈز، اختیارات اور ذمہ داریوں کی کشمکش ختم نہ ہوسکی جو روز ایسی ننھے بچوں کی زندگیاں ہم سے چھین رہی ہیں۔ ایک معصوم بچے کی جان ضائع ہوئی، جو ایک ایسا سانحہ ہے جسے صرف "غفلت” کہنا کافی نہیں۔ عوام میں شدید غم و غصہ اور عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ ریاستی اداروں پر اعتماد کمزور ہو رہاہے۔ واقعے کے بعد جب تین کروڑ آبادی کے شہر کے مئیر پہنچتے ہیں تو صحافی ان سے سوال کرتے ہیں کہ کہ مئیر صاحب اس کا ذمہ دار کون ہے کس ادارے اور انتظامیہ کی غفلت ہے، ہم کس سے انصاف طلب کریں، تو مئیر صاحب آگے سے جواب دیتے ہیں کہ آپ میرے ساتھ سیاست کریں یا صحافت کریں۔ کیا یہ صحافت کے زمرے میں نہیں آتا کہ صحافی مسائل و سانحہ کے بارے میں مئیر صاحب سے سوال کریں۔ مئیر کو انہیں اور غم زدہ شہریوں کو تسلی دینے اور اپنی غلطی تسلیم کر کے اس کا سدباب کرنا چاہئے تھا لیکن ان کے اس طرز عمل سے شہریوں میں انتہاء غم و غصہ پایا جاتاہے ۔
دوسرا واقعہ اورنگی ٹائون میں رونما ہوا جہاں ڈکیتی کے دوران مبینہ ڈاکو سے مزاحمت کے دوران ایک شہری قتل ہوا اس کے بعد عوام نے مشتعل ہو کر ملزم کو پکڑا، کھمبے سے باندھا اور پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ پولیس موقع پر موجود تھی، مگر ہجوم کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی یہ واقعہ ایک خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کر رہاہے اور وہ ہے عوام کا خود ساختہ انصاف جو قانون اور شریعت دونوں سے ماوراء ہے لیکن اس رجحان کو پروان چڑھانے والاخود ہمارا عدالتی نظام ہے اس قسم کے واقعات کو سالوں تک عدالتوں میں لٹکائے رکھتے ہیں جس کا نتیجہ پھر لاقانونیت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے، معاشرے میں قانون کی گرفت کمزور ہوجاتی ہے اور لوگ خود فیصلے کرنے لگتے ہیں جو ریاستی نظام کے لیے تباہ کن ہے۔
دونوں سانحات میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ایک میں بچے نے ناکارہ نظام کے باعث جان دیدی، جبکہ دوسرے واقعے میں ایک مجرم غیرقانونی انتقام کے ہاتھوں شکار ہوا۔
مین ہولز کا کھلا ہونا کوئی نئی چیز نہیں، یہ شہر قائد کا خاصہ ہے، جو اسے ملک کے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتا ہے ، جب عوام دیکھتے ہیں کہ بچے گٹر میں گر کر مر رہے ہیں، ڈاکو آزادانہ ڈکیتی کرکے معصوم نہتے شہریوں کو قتل کرکے آزاد گھومتے ہیں، پولیس دیر سے پہنچتی ہے، تو لوگوں میں خود ردعمل دینے کا رجحان بڑھ جاتاہے جواس شہر کے مفاد میں نہیں۔ بلدیاتی نظام کی فوری اصلاح کرکے اختیارات عملی طور پر نچلی سطح تک منتقل کئے جائیں.شہر بھر میں مین ہولز کے ڈھکن بلاتاخیر لگائے جائیں اور اس عمل کی کڑی نگرانی کی جائے باقاعدہ چیکنگ سسٹم بنایا جائے۔ حادثات کے بعد متعلقہ ذمہ داروں کیلئے سخت سزا مقرر ہو عدالتی و قانونی عمل میں تیزی لائی جائے ڈکیتی کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرکے ایک ماہ میں سزائوں کے فیصلے سنائے جائیں۔
ننھے ابراہیم کی موت اور اورنگی ٹائون میں ہجوم کے ہاتھوں ایک انسان کی ہلاکت دونوں واقعات کراچی کے زخموں پر تازہ نمک ہیں۔ یہ صرف دو کہانیاں نہیں، بلکہ3 کروڑ شہریوں کی روزمرہ زندگی کی حقیقت ہیں۔ اگر ہم نے ابھی اصلاحات نہ کیں تو آنے والے وقت میں ایسے سانحات معمول بن جائیں گے۔ کراچی صرف ایک شہر نہیں، پاکستان کی معیشت کا دل ہے۔ اس دل کو بچانے کے لیے قانون، نظام، اور انسانی زندگی کو مقدم رکھنا ہوگا۔





