سرحدوں کے محافظ، قوم کے فخر

سرحدوں کے محافظ، قوم کے فخر
تحریر : محمد جمیل احمد خان
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی نے اس وقت شدت اختیار کر لی جب پاکستان نے اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے افغانستان میں موجود دہشت گرد ٹھکانوں پر جوابی کارروائیاں کیں۔ یہ فیصلہ کسی جارحیت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک ناگزیر اقدام تھا، کیونکہ پاکستان نے بارہا کابل حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) جیسے دہشت گرد گروہوں سے پاک کرے۔ لیکن جب افغانستان کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی عملی اقدام نہ ہوا تو پاکستان کو اپنی خودمختاری کے دفاع میں کارروائی کرنا پڑی۔
ان کارروائیوں میں خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے کئی سرحدی علاقے شامل تھے۔ خیبر پختون خواہ کے انگور اڈہ، باجوڑ، کرم، دیر اور چترال کے اضلاع میں افغان فورسز اور دہشت گردوں کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس کا جواب پاک فوج نے نہایت موثر انداز میں دیا۔
انگور اڈہ میں جب افغان فورسز نے بلاوجہ فائرنگ کی، تو پاک فوج نے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا اور دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانے تباہ کیے۔ باجوڑ میں افغانستان کی زمین سے ہونیوالے حملوں کے نتیجے میں کئی پاکستانی جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کے خون نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ پاک فوج کے سپاہی وطنِ عزیز کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔
کرم کے ضلع میں سرحدی چوکیوں پر دہشت گردوں نے حملے کیے، جن میں افغان طالبان کے عسکری گروہوں نے بھی حصہ لیا، مگر پاک فوج نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔ دیر اور چترال کے پہاڑی علاقوں میں بھی افغان سرزمین سے حملے کیے گئے جن کے جواب میں پاکستان کے شیر دل جوانوں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کیا۔
بلوچستان کی صورتحال بھی کسی سے کم نہ تھی۔ بارامچہ، عوب اور چمن اسپن بولدک کے سرحدی علاقوں میں افغان فورسز نے بلااشتعال فائرنگ کی اور پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بنایا۔ مگر پاک فوج نے اپنے دفاع میں نہ صرف دہشت گردوں کے مراکز کو نشانہ بنایا بلکہ اسپن بولدک کے قریب چمن بارڈر پر شدید جھڑپوں کے دوران دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچایا۔ ژوب کے علاقے میں ایک بڑی کارروائی کے دوران دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانے تباہ کیے گئے۔پاکستان نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ ان کارروائیوں کا مقصد افغانستان کی خودمختاری کو چیلنج کرنا نہیں بلکہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنا ہے۔ بارہا سفارتی سطح پر پاکستان نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملے کر رہے ہیں، مگر افغان انتظامیہ نے خاموشی اختیار کی۔ یہی وہ رویہ تھا جس نے پاکستان کے صبر کو آزمایا، اور بالآخر جوابی فوجی ردعمل ناگزیر بن گیا۔
پاکستانی عوام میں یہ احساس گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ افغانستان نے احسان فراموشی کا مظاہرہ کیا ہے۔ چار دہائیوں تک پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، ان کی تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کیے۔ لیکن اس کے بدلے میں آج افغانستان کی حکومت پاکستان کے دشمنوں کو سہولت فراہم کر رہی ہے۔ اس حقیقت نے قوم کے دلوں میں دکھ اور غصے کے ساتھ ایک عزم بھی پیدا کیا کہ وطن کے دفاع میں کوئی کمزوری برداشت نہیں کی جائے گی۔پاک فوج کی کارروائیاں اس حقیقت کا اعلان تھیں کہ ریاستِ پاکستان اپنی خودمختاری اور سرحدی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ ہمارے جوانوں نے ان آپریشنز میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان کے لہو نے ایک بار پھر وطن کی مٹی کو سرخ کیا اور دشمن کو پیغام دیا کہ یہ سرزمین محفوظ ہے، اس کے محافظ جاگ رہے ہیں۔افغان حکومت کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ پاکستان نے شہری علاقوں کو نشانہ بنایا، مگر پاکستان کا مقف واضح تھا کہ کارروائیاں صرف ان مقامات پر کی گئیں جہاں سے دہشت گرد حملے ہو رہے تھے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اس نکتے پر مکمل اتفاق کیا کہ اگر افغانستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا رہا تو پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔پاک فوج کے جوانوں کی قربانیاں قوم کے لیے باعثِ فخر ہیں۔ یہ وہ سپاہی ہیں جو سرد ترین چوٹیوں پر اور تپتے ریگزاروں میں ایک ہی عزم کے ساتھ ڈٹے ہیں، کہ وطن کی حرمت پر آنچ نہ آنے پائے۔ پوری قوم اپنے ان مجاہدوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ مائیں اپنے بیٹوں پر ناز کرتی ہیں، بچے ان کے کارنامے سن کر فخر محسوس کرتے ہیں، اور وطن کا ہر شہری اپنے محافظوں کے لیے دعاگو ہے۔
ہماری فوج نہ صرف پاکستان کی سرحدوں کی محافظ ہے بلکہ امتِ مسلمہ کے مقدس مقامات، حرمین شریفین کی حفاظت کی ذمہ داری کو بھی اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہے۔ یہ وہ فوج ہے جس کے ایمان، تقویٰ اور پیشہ ورانہ مہارت کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ ان کے قدموں کی دھمک دشمن کے دلوں میں لرزہ طاری کر دیتی ہے۔
آج جب سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں، پوری قوم ایک آواز میں کہہ رہی ہے ’’ سلام ہے اُن شہیدوں پر جنہوں نے اپنا آج، ہمارے کل کے لیے قربان کر دیا‘‘۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر دکھا دیا کہ پاکستان کے محافظ کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔
افغانستان کے لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے، دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرے، اور امن و استحکام کی راہ اختیار کرے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ کشیدگی دونوں ملکوں کے عوام اور پورے خطے کے امن کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔پاک فوج نے ایک بار پھر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے دفاع، سلامتی اور حرمین کی حفاظت کے لیے اس کے سپاہی ہر دم تیار ہیں۔ ان کا ایمان، قربانی اور جذبہ ہی اس قوم کی اصل طاقت ہے اور یہی طاقت دشمن کے ناپاک عزائم کو ہر بار خاک میں ملا دیتی ہے۔





