بھارت کی پانی روکنے کی نئی سازش

بھارت کی پانی روکنے کی نئی سازش
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
بھارت کی جانب سے دریائی پانی کی روک تھام اور اس پر یکطرفہ قبضے کی پالیسی کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ ایک طویل المیعاد اور منظم حکمت عملی کا حصہ ہے جو دہائیوں سے مختلف شکلوں میں سامنے آتی رہی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں ’’ پہلگام حملے‘‘ کے تناظر میں بھارت نے جس طرح پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کو نئی شدت دی ہے، وہ نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ 24کروڑ پاکستانیوں کی زندگیوں پر ایک خاموش مگر مہلک حملہ ہے۔
1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ’’ سندھ طاس معاہدہ ‘‘ طے پایا جس کے تحت تین مشرقی دریا ’ راوی، بیاس، ستلج ‘، بھارت کو جبکہ تین مغربی دریا ’ سندھ، جہلم، چناب ‘ پاکستان کو دئیے گئے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو مغربی دریاں پر محدود نوعیت کے ہائیڈرو پاور منصوبوں کی اجازت تو دی گئی لیکن وہ ان دریاں کے پانی کا بہائو نہیں روک سکتا۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ بھارت نے متعدد مواقع پر اس معاہدے کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ بگلیہار ڈیم، کشن گنگا ڈیم، رتلے ڈیم جیسے منصوبے اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ ان منصوبوں پر پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی فورمز پر آواز بھی اٹھائی گئی لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی طاقتوں کی خاموشی نے پاکستان کو ہمیشہ ایک دفاعی پوزیشن میں رکھا۔
جون 2025ء کے آغاز میں بھارت نے دریائے چناب کا 54200کیوسک پانی اس وقت روک لیا جب پاکستان میں فصل خریف کی تیاریوں کا اہم ترین مرحلہ جاری تھا۔ اس سے ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کا بہائو 98200سے گھٹ کر محض 44800کیوسک رہ گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ہفتہ قبل کشن گنگا ڈیم سے دریائے نیلم کا40 فیصد پانی بھی روکا گیا۔
یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک دانستہ اور منظم اقدام ہے جس کا مقصد پاکستان کو زرعی، ماحولیاتی اور معاشی سطح پر کمزور کرنا ہے۔ بھارت نے اب دریائے چناب کو راوی اور بیاس کے نظام سے جوڑنے جیسے خطرناک منصوبے پر کام تیز کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں پاکستان کو دریاں کے خشک ہونے یا اچانک سیلابی پانی کے حملوں جیسے شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
یہ تمام اقدامات بھارت کے اُس طویل مدتی منصوبے کا حصہ ہیں جو وہ پاکستان کے خلاف ہر محاذ پر ’’ ہائبرڈ وار‘‘ کے تحت آزما رہا ہے۔ آبی جارحیت اس جنگ کا سب سے خاموش مگر مہلک ہتھیار ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے دشمن بغیر گولی چلائے ایک پورے ملک کی زرعی معیشت، خوراکی سلامتی، انسانی زندگیوں اور ماحولیاتی توازن کو مفلوج کر سکتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ غیر ملکی دوروں اور کانفرنسوں میں یہ معاملہ ضرور اٹھایا، لیکن موجودہ صورتحال ایک فعال اور موثر سفارتی مہم کی متقاضی ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی بینک، اور انٹرنیشنل واٹر کوآپریشن اداروں کو متحرک کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔
پاکستان کے لئے قابل عمل اقدامات میں سے نئے ڈیمز کی تعمیر سرفہرست ہے۔ سندھ، جہلم اور چناب کے دریائوں پر زیادہ سے زیادہ ذخیرہ اندوزی کی گنجائش پیدا کی جائے تاکہ وقتاً فوقتاً چھوڑے جانے والے سیلابی پانی کو سنبھالا جا سکے۔ دیامر بھاشا، داسو، مہمند جیسے منصوبوں کو تیز رفتاری سے مکمل کرنا ہوگا۔ بالائی علاقوں چترال، کالاش، سوات اور گلگت بلتستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیمز بنائے جائیں۔ شمالی علاقہ جات اور چترال میں درجنوں مقامات ایسے ہیں جہاں چھوٹے ڈیم تعمیر کرکے مقامی زراعت، پینے کے پانی اور توانائی کے بحران کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی چیلنجز کا مقابلہ کیا جائے۔ بدلتے ہوئے موسمیاتی حالات کے پیش نظر پاکستان کو اب ہر قطرہ پانی کی قدر کرنی ہوگی۔ سمندر برد ہونے والا پانی مستقبل کا سب سے بڑا نقصان ہے جسے روکنے کیلئے ہر ممکن حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
بھارت کی حالیہ آبی جارحیت نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کے بھی خلاف ہے۔ اگر دنیا نے اس رویے پر خاموشی اختیار کیے رکھی تو اس کے نتائج نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔
پاکستان کو اپنی سفارتی، آبی، ماحولیاتی اور دفاعی پالیسیوں کو ازسرنو ترتیب دینا ہوگا تاکہ مستقبل میں پانی جیسے قیمتی اثاثے کو دشمن کے ہتھیار بننے سے روکا جا سکے۔