Column

بجٹ: غیر ضروری سبسڈیز میں کمی، ایف بی آر کی اصلاحات ناگزیر

بجٹ: غیر ضروری سبسڈیز میں کمی، ایف بی آر کی اصلاحات ناگزیر
چودھری خادم حسین
پاکستان کی معیشت اس وقت تاریخ کے نازک ترین مرحلے سے گزر رہی ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ، مالیاتی خسارہ، ٹیکس وصولیوں میں کمی، تجارتی خسارہ اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی وہ عوامل ہیں جو مجموعی طور پر قومی معیشت پر دبائو ڈالے ہوئے ہیں۔ ایسے میں آئندہ مالی سال 2025-26کا بجٹ ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بجٹ میں اگر ٹھوس اصلاحات متعارف کرائی گئیں، تو یہ پاکستان کو ایک پائیدار معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر یہ ایک اور ضائع شدہ موقع ثابت ہو گا۔
سبسڈیز اور گرانٹس کا مقصد کمزور طبقے کو ریلیف فراہم کرنا ہوتا ہے، مگر پاکستان میں ماضی میں ان کا استعمال اکثر سیاسی مقاصد کے لیے ہوتا رہا ہے۔ کئی مرتبہ بااثر گروپوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈی دی گئی، جس کا بوجھ ٹیکس دہندگان اور قومی خزانے کو برداشت کرنا پڑا۔ اب حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال میں سبسڈیز اور گرانٹس میں مجموعی طور پر 96ارب روپے کی کمی کی جائے گی۔ یہ اقدام بجٹ خسارے کو کم کرنے اور وسائل کو زیادہ اہم ترقیاتی منصوبوں میں منتقل کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔
ماضی میں بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، کھاد اور چینی جیسے شعبوں میں سبسڈی کا بڑا حصہ ان افراد اور کمپنیوں کو دیا جاتا رہا جو مالی لحاظ سے خود کفیل تھے۔ ان سبسڈیز کی شفاف تقسیم نہ ہونے کے باعث اصل مستحقین ان سے محروم رہتے تھے۔ اس لیے آئندہ بجٹ میں سبسڈی کو صرف انتہائی کم آمدنی والے طبقے تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا جائے، اور اس کے لیے ڈیجیٹل نظام، نادرا ڈیٹا اور احساس پروگرام جیسی بنیادوں پر مستحقین کی نشاندہی کی جائے۔سرکاری وزارتیں اور محکمے کئی دہائیوں سے غیر فعال یا کم کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان اداروں کے ملازمین تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں، لیکن ان کی پیداوار یا کارکردگی قومی معیشت پر کوئی مثبت اثر نہیں ڈالتی۔ ایسی وزارتیں جو محض بیوروکریسی کا بوجھ ہیں، ان کے اخراجات میں کمی وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تجویز دی جا رہی ہے کہ وہ محکمے جو مسلسل نقصان میں جا رہے ہیں یا جن کا کام دوسرے محکمے بہتر انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں، انہیں ضم کر دیا جائے تاکہ وسائل کا بہتر استعمال ممکن ہو سکے۔
پاکستان کے کئی ریاستی ادارے جیسے پاکستان سٹیل ملز، پی آئی اے، یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن، واپڈا کی تقسیم کار کمپنیاں اور کئی دیگر طویل عرصے سے خسارے میں جا رہے ہیں۔ ان اداروں کو چلانے کے لیے ہر سال اربوں روپے کی سبسڈی اور بیل آئوٹ پیکجز فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ فنڈز اگر تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور سماجی تحفظ کے شعبوں پر خرچ کیے جائیں تو زیادہ فائدہ مند ثابت ہوں گی۔
بدقسمتی سے نجکاری کا عمل سیاسی دبائو، بیوروکریٹک سست روی اور پالیسی میں تسلسل کے فقدان کے باعث ہمیشہ تاخیر کا شکار رہا ہے۔ ہر نئی حکومت ایک نئی کمیٹی بنا دیتی ہے، جو وقت گزار کر معاملے کو اگلی حکومت پر چھوڑ دیتی ہے۔ یہ ’’ کمیٹی کمیٹی کھیل‘‘ اب بند ہونا چاہیے۔ جن اداروں کی نجکاری کی پہلے ہی منظوری دی جا چکی ہے، ان کی فوری فروخت عمل میں لائی جائے تاکہ یہ بوجھ قومی خزانے سے کم ہو۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کی کارکردگی ایک عرصے سے زیرِ بحث ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے ایف بی آر کی آمدنی کا ہدف 14307ارب روپے رکھا گیا ہے، جس کے لیے 21فیصد ریونیو گروتھ درکار ہے۔ یہ ہدف اس وقت قابل حصول ہو سکتا ہے جب ادارے میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات کی جائیں۔ اگر موجودہ حالات میں بغیر کسی تبدیلی کے اس ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، تو نتیجہ ایک بار پھر مہم جوئی، چھاپہ مار کارروائیوں اور کاروباری برادری کے ساتھ بداعتمادی کی صورت میں نکلے گا۔
اصلاحات کے بغیر ایف بی آر پر اضافی دباؤ ڈالنا نہ صرف ادارے کے اندر بددلی پیدا کرتا ہے بلکہ معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ ادارے کو ڈیجیٹل ٹولز، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ڈیٹا اینالیٹکس اور کراس ویری فکیشن جیسے جدید طریقوں سے لیس کیا جائے۔ ساتھ ہی ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے نئے ٹیکس دہندگان کی تلاش، نان فائلرز کے خلاف مؤثر کارروائی، اور ٹیکس ریٹرن فائلنگ کو آسان بنایا جائے۔
پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ تقریباً 20فیصد ہے، لیکن اس شعبے سے حاصل ہونے والا ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے۔ بڑے زمیندار اور جاگیردار جو لاکھوں روپے ماہانہ زرعی آمدنی حاصل کرتے ہیں، وہ عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ یہ نہ صرف معاشی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ متوسط اور چھوٹے طبقے کے لیے ناانصافی بھی ہے، جو اپنی ہر آمدنی پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اگر زرعی آمدنی پر موثر ٹیکس نظام متعارف کرایا جاتا ہے، تو اس سے نہ صرف حکومتی ریونیو میں اضافہ ہو گا بلکہ ٹیکس کے نظام میں انصاف اور مساوات بھی قائم ہو گی۔ تاہم، اس معاملے میں سب سے بڑا چیلنج سیاسی دبائو اور بااثر طبقوں کی مزاحمت ہے۔ حکومت کو کسی قسم کی بلیک میلنگ کا شکار ہوئے بغیر یہ قدم اٹھانا ہو گا تاکہ ایک مستحکم، منصفانہ اور پائیدار معیشت کی بنیاد رکھی جا سکے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں حکومت مالی نظم و ضبط اور آمدنی میں اضافہ کے لیے اقدامات کر رہی ہے، وہیں غریب اور کمزور طبقے کے تحفظ کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ احساس پروگرام، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، صحت کارڈ اور تعلیمی وظائف جیسے سماجی تحفظ کے منصوبے جاری رکھے جائیں اور ضرورت کے مطابق ان کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔موجودہ بجٹ حکومت کے لیے ایک فیصلہ کن موقع ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا ازسرنو تعین کرے۔ کیا حکومت اس موقع کو ایک معاشی تبدیلی کی بنیاد بنانے میں کامیاب ہو گی یا یہ بھی ماضی کے بجٹوں کی طرح محض وقتی اعلانات اور نمائشی اصلاحات پر مشتمل ہو گا؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ حکومت کتنی سنجیدگی سے ان پالیسی تجاویز کو عملی جامہ پہناتی ہے۔
بجٹ صرف اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ اس بات کا عکاس ہوتا ہے کہ حکومت معاشی ترقی، سماجی انصاف اور مالیاتی خودمختاری کے لیے کس قدر پُرعزم ہے۔ غیر ضروری اخراجات میں کمی، سبسڈی کی شفاف تقسیم، ایف بی آر کی اصلاحات، ریاستی اداروں کی نجکاری اور زرعی ٹیکس کا نفاذ وہ بنیادی اقدامات ہیں جن کے بغیر معیشت کی بحالی ممکن نہیں۔
اگر حکومت ان امور پر دلجمعی، شفافیت اور مستقل مزاجی سے عمل درآمد کرے تو پاکستان ایک مضبوط، خودکفیل، اور ترقی یافتہ معیشت کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button