اکتوبر1958ء کا مارشل لاء

علی حسن
زیر نظر تحریر اپنے وقت کے سینئر اعلیٰ سرکاری ملازم روئیداد خان مرحوم کی انگریزی زبان کی کتاب pakistan a dream gone sour کے اردو ترجمہ سے لیا گیا ہے تاکہ قارئین کو پاکستان کے سیاسی تغریرات سے آگا ہی حاصل ہو سکے اور ملک میں پہلے مارشل لا ء کے نفاذ کے بارے میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔
’’ 8اکتوبر1958ء کو میں نے ریڈیو پر سنا کہ ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے، سول حکومتیں برطرف کردی گئی ہیں، مجالس قانون ساز ( وفاقی صوبائی) توڑ دی گئی ہیں، اور بری فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خان ملک کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریریشن بن گئے ہیں۔ مجھ کو یہ خبر سن کر دلی صدمہ ہوا۔ میں نے فورمین کرسچین کالج (1940ء ۔1942ء ) اور مسلم یونیورسٹی علیگڑھ (1942ء ۔1944ء ) میں جو کچھ پڑھا، سنا، سمجھا اور سیکھا تھا یہ اس کی سراسر نفی تھی۔ مجھے تو یہ باور کرا لیا گیا تھا کہ حالت امن میں مارشل لاء نہیں لگ سکتا، میں شدید ذہنی مخمصے میں الجھ گیا نہ میرا ملک برسر پیکار تھا نہ ملک کی داخلی صورت حال اتنی ابتر تھی کہ جج صاحبان اپنے گھروں سے اپنی عدالتوں تک نہ جاسکیں۔ ڈائسی ( مشہور عالم آئینی قوانین کے ماہر) نے کہا تھا کہ امن کے ز مانے میں کسی ملک میں مارشل لاء لگنے کی ایک صورت صرف یہ ہوسکتی ہے کہ داخلی حالات اتنے ابتر ہوجائیں کہ جج اپنے فرائض ادا کرنے اپنے گھروں سے اپنی عدالتوں تک نہ جاسکیں۔
میں اسی شش و پنج میں تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، معلوم ہوا کہ مقامی فوجی کرنل نے مجھ کو ضلع سپرنٹنڈنٹ پولیس، فوج کے بریگیڈ کے صدر دفتر میں بلایا ہے۔ اب مجھے معروضی حالات میں انقلابی تبدیلی کا احساس ہوا۔ میں حسب تقاضہ، فوج کے بریگیڈ کے صدر دفتر پہنچ گیا۔ ضلع کے سپرنٹنڈنٹ پولیس میرے ساتھ تھے۔ اس نے ہمیں دیکھتے ہی آئو دیکھا نہ تائو تابڑ توڑ آگے پیچھے بہت سے احکام جاری کر دیئے اور اگلے24گھنٹوں میں ان کی تعمیل چاہی۔ ایک حکم یہ تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر گیہوں کے تمام ذخیروں کو اپنی تحویل میں لے لیا جائے۔ دوسرا حکم یہ تھا کہ تمام اشیائے صرف ( سونے سمیت) کی قیمتوں کو کنٹرول کرلیا جائے۔ میں جو کر سکتا تھا میں نے کیا۔ تھکا ہارا شام کو دیر سے جب میں اپنے دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ کئی بار میرے ڈویژنل کمشنر کا فون آچکا ہے، انہیں ڈر تھا کہ کہیں مارشل لاء والوں نے مجھے گرفتار نہ کرلیا ہو۔ خیر آہستہ آہستہ میں نے اپنے آپ کو نئے ماحول مانوس کرلیا۔ آخر جان سب کو پیاری ہوتی ہے۔ ملک بھر میں مارشل لاء کا خیر مقدم کیا جارہا تھا، نئے دور کو ایک نئی روشن صبح سے تعبیر کیا جارہا تھا اور مارشل لاء کو ذریعہ نجات مانا جارہا تھا۔
مارشل لاء والے جن معاملات کو زیادہ اہمیت دیتے تھے انہیں زیادہ غلہ اگائو مہم بھی شامل تھی۔ میں پہلے ہی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں آبپاشی کی بہت سی چھوٹی چھوٹی سکیمیں مکمل کروا کر ہزاروں ایکڑ بنجر زمین کو زیر کاشت لاچکا تھا۔ اس زمانے میں جنرل محمد اعظم خان وفاقی وزیر خوراک و زراعت تھے، انہوں نے میری سکیم کے بارے میں سنا تو وہ خود جائزے کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان آئے، ان کے ساتھ مقامی جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل فضل مقیم بھی تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ بلڈوزر جھاڑیاں ہٹا رہے ہیں اور زمین کی سطح ہموار کر رہے ہیں۔ ٹیوب ویلوں سے صاف شفاف چمکتا و مکتا پانی ابل رہا ہے، وہ بہت خوش ہوئے اور بولے: ’’ راولپنڈی میں جو لوگ کرسیوں سے جڑے بیٹھے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ یہاں آکر خود دیکھیں کہ زرعی ترقی کے لیے اچھا کام کیسے ہوتا ہے‘‘۔۔۔
پشاور کی ڈپٹی کمشنری کے زمانے ( 1959۔60 ء ) میں ذوالفقار علی بھٹو سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ وہ ایوب خان کی وفاقی کابینہ میں وزیر تھے اور پشاور کی دیہی ترقیاتی اکیڈیمی کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک ہونے پشاور آئے تھے۔ تقریب کے منتظمین چاہتے تھے کہ تقریب کے بعد ذوالفقار علی بھٹو، اکیڈیمی کے عشائیے میں شریک ہوں، ذوالفقار علی بھٹو بچنا چاہتے تھے۔ میں ان کی مدد کی اور ہم دونوں تقریب میں شرکت کے بعد پشاور کلب چلے گئے ، وہاں ہم دونوں نے ساتھ کھانا کھایا اور ایک نہایت خوشگوار شام گزاری۔ مجھے پہلی ملاقات میں ہی ذوالفقار علی بھٹو بہت بھلے لگے، وہ نوجوان تھے، شگفتہ مزاج تھے، زندگی سے بھرپور تھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، خوش پوش تھے، اور وزیروں سے زیادہ نوجوان افسران کے قریب نظر آتے تھے۔ میں ابھی پشاور میں ڈپٹی کمشنر ہی تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو دوسری بار پشاور آئے، اس وقت وہ قائم مقام وزیر خارجہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے۔ پشاور پہنچتے ہی انہوں نے مجھ سے بڈابیر کا ہوائی اڈہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، اور پشاور سے وارسک جانے سے
پہلے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہوائی اڈے پر ’’ ہر چیز‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ میں نے بڈابیر کے ہوائی اڈے کے کمانڈر سے بات کی اس نے کہا کہ ہم قائم مقام وزیر خارجہ کی تواضع کیفے ٹیریا میں چائے اور سینڈوچز سے کریں گے لیکن اڈے کے دوسرے حصے نہ دکھلا سکیں گے۔ میرے اصرار پر اس نے واشنگٹن سے رابطہ قائم کیا لیکن وہاں سے بھی جواب یہی آیا کہ وزیر موصوف کو کیفے ٹیریا کے علاوہ کوئی دوسرا حصہ نہیں دکھلایا جا سکتا۔ میں نے جب ذوالفقار علی بھٹو کہ یہ بتلایا تو وہ بہت ناراض ہوئے اور پوچھا کہ کیا کمانڈر یہ نہیں جانتا کہ ملک کا قائم مقام وزیر خارجہ ہوں؟، میں نے جواب دیا کہ وہ امر سے بخوبی واقف ہے۔ یہ سن کر پھر انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ میں ابھی پشاور میں ہی تھا کہ امریکی سراغ رساں جہاز ’’ یوٹو‘‘ والا واقعہ پیش آیا ، واقع یہ تھا کہ بڈابیر کے ہوائی اڈے سے ایک امریکی سراغ رساں جہاز ’’ یوٹو‘‘ اڑا تھا اور اس نے سوویت یونین کی فضائی حدود میں پرواز کی تھی جب خروشچیف ( جو اس زمانے میں سوویت یونین کے سربراہ حکومت تھے) کو یہ اطلاع ملی تو اس نے نہایت ڈرامائی انداز میں اپنی ناراضی ظاہر کرتی ہوئے دنیا کے نقشے پر ’’ بڈابیر‘‘ کے گرد سرخ حلقہ ڈال دیا تھا۔
1960ء کے وسط میں میرا تبادلہ پشاور سے حیدر آباد ( سندھ) ہوگیا۔ میرا نیا عہدہ غلام محمد بیراج کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کا تھا۔ میں اپنے طویل عرصہ ملازمت میں بہت سے عہدوں پر فائز رہا لیکن جن مناصب کو میں نے حد درجہ ولولہ انگیز ہمت آزما پایا، غلام محمد بیراج پراجیکٹ ڈائریکٹر ہونا، ان میں سے جتنا ایک تھا۔ مجھ کو جو فرض سونپا گیا تھا وہ مختصر الفاظ میں یہ تھا کہ غلام محمد بیراج سے جو25 لاکھ ایکڑ سرکاری زمین سیراب ہوتی ہے کاشت ہوسکتی ہے لیکن کاشت نہیں ہو رہی۔ اسے ایسے لوگوں کو الاٹ
کردوں جو اسے آباد کریں اور ان کیلئے بنیادی ضروریات(Infrastructure)کا انتظام بھی کروں۔ میں نے حیدر آباد پہنچ کر اپنا عہدہ سنبھالتے ہی پہلا دور جو کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حیدر آباد سے بحیرہ عرب تک دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر قابل کاشت لیکن غیر آباد زمین میلوں تک پھیلی ہوئی ہے میں وہاں تین سال (1960ء ۔1963ء ) رہا۔ ان تین سالوں میں اس علاقے کی کایا پلٹ گئی، بلڈوزروں نے ناہموار زمین کو ہموار کیا، جہاں سڑکیں نہیں تھیں وہاں سڑکیں بنائیں، جہاں پینے کا پانی نہ تھا وہاں میٹھا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے تالاب بنائے، ملک کے ہر علاقے سے کاشتکار وہاں آئے اور آباد ہو گئے، حتیٰ کہ مشرقی پاکستان سے بھی 350کنبے آئے۔ جگہ جگہ ہسپتال قائم ہوئے ڈسپنسریاں کھلیں، سکول قائم ہوئے، ڈاک خانے بنے۔ جب اگست 1963ء میں، میں حیدر آباد سے رخصت ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہی علاقے جہاں تین سال پہلے خاک اڑ رہی تھی وہاں میلوں تک چاول اور گنے کے ہرے بھرے کھیت لہلہا رہے تھے، آبادیاں آسودہ حال تھیں گائوں خوش حال تھے۔ ایوب خان، صدر پاکستان، غلام محمد بیراج میں میری کارکردگی سے اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے بہ کمال شفقت اس علاقے کے ایک گائوں کا نام میرے نام پر ٹنڈوروئیداد رکھ دیا اور میری موجودگی میں اس وقت کے گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ سے کہا کہ میں روئیداد کو ایک سول اعزاز دینا چاہتا ہوں لیکن اس تجویز صوبائی حکومت نہ بھیجے۔ مرکزی حکومت خود سازی کارروائی کرے گی۔ ایوب خان ہمیشہ اپنے ساتھ ایک چھوٹی سی بیاض رکھا کرتے تھے جس میں وہ ضروری ضروری باتیں نوٹ کر لیتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کو بھی اسی بیاض میں لکھ لیا۔ اور تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھ کو میرا پہلا سول ایوارڈ’’ تمغہ پاکستان‘‘ مل گیا۔
صدر پاکستان ایوب خان اور گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان نواب آف کالا باغ ہر دوسرے تیسرے مہینے غلام محمد بیراج کے علاقے کا دورہ کیا کرتے تھے۔ علاقہ د کھلانا میرے لیے فرض بھی تھا اور وجہ اعزاز بھی، ہم سارا سارا دن علاقہ کے طول و عرض میں گھومتے پھرتے جہاں موقعہ ملتا وہاں دوپہر کا کھانا کھا لیتے۔ میں نے اپنے پورے عرصہ ملازمت میں ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا کہ کسی سربراہ ریاست یا کسی سربراہ صوبہ نے کسی ترقیاتی منصوبے کی تعمیر و ترقی میں اتنی ترقی، گہری اور پرخلوص دلچسپی لی ہو جتنی کہ ایوب خان اور نواب کالا باغ نے غلام محمد بیراج کے علاقے کی نشو و نما اور فروغ و ترقی میں لی۔ نہ میں نے کبھی یہ دیکھا کہ کسی صدر یا کسی گورنر نے ملک اور صوبے کے دور افتادہ علاقوں میں کام کرنے والے سرکاری اہلکاروں اور افسروں کا ایسے دل بڑھایا ہو جیسے غلام محمد بیراج میں ایوب خان اور نواب کالا باغ، ہمارا دل بڑھایا کرتے تھے۔ محض ان دونوں کی غلام محمد بیراج کے علاقے میں موجودگی سے میرے رفقائے کار اور ہمارے کارکنوں کے حوصلے بلند ہوجاتے اور ہم سب پر کام، کام اور مزید کام کرنے کا جوش جنون کی حد تک سوار ہو جاتا۔ ہمیں ایسا لگتا جیسے کوئی اندرونی قوت ہمیں فرض پر دل و جان قربان کرنے پر اکسا رہی ہے۔ اگر آپ پوچھیں کہ 25 لاکھ ایکڑ کے وسیع و عریض رقبے کو اتنے تھوڑے سے عرصے میں کس طلسماتی فارمولے کے ذریعے زیر کاشت بنا دیا گیا؟ میرا جواب اتنا سیدھا سادہ ہے کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔ یعنی یہ کہ پراجیکٹ ڈائریکٹر غلام محمد بیراج، میرے پاس اختیارات تھے صوبائی بورڈ آف ریونیو کے، عمارات اور سڑکوں کے چیف انجینئر کے، آبپاشی کے چیف انجینئر کے، زراعت کے ڈائریکٹر کے، انجمن ہائے امداد باہمی کے رجسٹرار کے، جنگلات کے محافظ(Conservator)کے، اور تقریباً ہر دوسرے صوبائی محکمے کے۔ آپ کو شاید مشکل سے یقین آئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھ کو یہ اختیار کل تھا کہ میں راولپنڈی ( مرکزی حکومت) یا لاہور ( صوبائی حکومت) سے رجوع کئے بغیر پانچ سوا ایکڑ تک زمین کسی بھی شخص کو الاٹ کردوں بشرطیکہ اس میں زمین کو زیر کاشت لانے کا عزم مصمم ہو اور اس کی صلاحیت بدرجہ کمال ہو۔ اس کے علاوہ کوئی سوال جواب نہ تھے کوئی سرخ فیتہ نہ تھا۔ غلام محمد بیراج کی پراجیکٹ ڈائریکٹری چھوڑنے کے بیس برس بعد مجھ کو غلام محمد بیراج کا علاقہ دوبارہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت کے حیدر آباد ڈویژن کے ڈویژنل کمشنر میرے ہمراہ تھے۔ علاقہ اس قدر بدل گیا تھا کہ اب پہچاننا بھی مشکل تھا‘‘ ۔