دعا کریں آئینی ترامیم جلد ہو جائیں

تحریر: امتیاز عاصی
مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف ہر مشکل گھڑی میں دعائوں کا سہارا لیتے ہیں۔ مسلمانوں کا جزو ایمان ہے دعائیں تقدیر بدل دیتی ہیں گویا مشکلات میں حق تعالیٰ سے دعائوں میں عافیت ہے۔ یہ ہم وطنوں کی دعائوں کا نتیجہ ہے نواز شریف کے مشکل گھڑی میں وطن سے باہر جانے کے بعد وزارت عظمیٰ ان کی منتظر ہوتی ہے۔ یہ تو پہلی بار ہوا ہے و ہ لندن سے واپس آئے تو اقتدار سے محروم رہے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کوئی کام اللہ سبحانہ تعالیٰ کی منشاء کے بغیر ممکن نہیں۔ نواز شریف اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں جدہ میں سرور پیلس میں قیام کے دوران جب جی چاہا اللہ کے گھر کا طواف اور نمازوں کی ادائیگی کر لی یہ سعادت ہر کسی کے مقدر میں نہیںہوتی۔ ایک طویل سیاسی پس منظر رکھنے والے نواز شریف کی خوش نصیبی ہے مشرف دور میں چند ماہ جیل رہنے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے۔ عمران خان اس صدی کا ناسمجھ سیاست دان ہے جو عرصہ ایک سال سے جیل میں رہنے کے باوجود ملک چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس ناچیز کے خیال میں عمران خان کو نواز شریف کی شاگردی اختیار کرنی چاہیے ۔ عمران خان نے شکایت کی ہے جس سیل میں اسے رکھا گیا ہے کے دروازے پر پلاسٹک لگانے نہیں دیا جاتا حالانکہ جیلوں میں جن قیدیوں اور حوالاتیوں کو سیلوں میں رکھا جاتا ہے انہیں سیل کے دروازے پر پلاسٹک لگانے کی اجازت ہوتی ہے یہاں تک کہ سزائے موت کے قیدیوں کو سردیوں میں ان کے سیلوں کے گیٹ پر پلاسٹک لگانے کی اجازت ہوتی ہے۔ عمران خان نے یہ وضاحت نہیں کی آیا اسے گرمیوں میں پلاسٹک لگانے نہیں دیا جاتا یا موسم سرما میں پلاسٹک لگانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہم آئینی ترامیم کے لئے دعائوں کی بات کر رہے تھے میاں نواز شریف سے صحافیوں نے آئینی ترامیم بارے سوال کیا تو میاں صاحب نے انہیں اس سلسلے میں دعائوں کی درخواست کی ۔ میاں صاحب نے سیاست کا آغاز ایئر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال سے کیا جس کے کچھ عرصے بعد انہیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں پنجاب کا وزیرخزانہ بنا دیا گیا۔ نواز شریف کے ساتھ بڑوں کی دعائوں کا ثمر ہے وہ ہر بار اپنے خلاف مقدمات کے باوجود عوام کی نظروں میں سرخرو ہوتے ہیں۔ طاقتور حلقوں کے ساتھ ڈیل سیاسی رہنمائوں کی مجبوری ہوتی ہے ورنہ ان کا اقتدار میں آنا مشکل ہوتا ہے۔ نواز شریف کا شمار ملک کے ان خوش نصیب سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو لندن بیٹھ کر اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف ہرزہ سرائی کے باوجود جیلوں کی صعبوتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا قائد عمران خان عجیب شخص ہے اپنے محسنوں کی بات ماننے سے انکار کر دیتا ہے بقول اس کے حلیم خان کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کی خواہش ظاہر کی گئی۔ اگر وہ ایسا کر دیتا تو کون سی قیامت آجاتی جو عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ دے کر اپنی مشکلات میں اضافہ کر لیا۔ جہاں تک آئینی ترامیم کی بات ہے پہلے تو حکومت نے پردہ داری میں آئینی ترامیم کرانے کی بھرپور کوشش کی ۔ یہ تو بھلا ہو جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان کا جو آئینی ترامیم کے آگے پہاڑ بن گئے ورنہ مملکت میں شہریوں کی آزادیاں سلب ہو جاتیں جس کے نتیجہ میں کوئی شہری اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف کے لئے رجوع نہیں کر سکتا تھا۔ ان آئینی ترامیم سے وکلاء برادری کے روزگار پر کاری ضرب لگنے کا قومی امکان تھا ورنہ عام طور پر عوام پولیس کی طرف سے گرفتاری کے خوف سے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرکے وقتی طور پر گرفتاریوں سے بچ جاتے ہیں۔ مجوزہ آئینی ترامیم کی صورت میں ضمانت قبل از گرفتاری اور اداروں کی طرف سے کسی کی گرفتاری کی صورت میں اعلیٰ عدالتیں کسی سے باز پرس نہیں کر سکتی تھیں۔ مجوزہ آئینی ترامیم میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بے اختیار اور بے وقعت ہوجاتی۔ جب آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری وزیراعظم کی صوابدید ہوگی تو چیف جسٹس حکومت کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی اپوزیشن میں نہیں ہوگا۔ گو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کا یہ بہت پرانا مطالبہ تھا ملک میں آئینی عدالت کا قیام اس لئے ضروری ہے تاکہ آئینی مقدمات اسی عدالت کے روبرو سنے جائیں۔ ہمیں حکومت کی نیت پر شک نہیں۔ سوال ہے اتنے سال گزرنے کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو آئینی عدالت کا خیال نہیں آیا لیکن ایک ایسے وقت جب ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت کا بانی پس زنداں ہی جس کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے آئینی عدالت کا قیام سمجھ سے بالاتر ہے۔ مجوزہ آئینی عدالت کو کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا کلی اختیار ہوگا۔ بادی النظر میں آئینی ترامیم اور عدالت کے قیام کا مقصد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کی طرف پیش رفت ہے۔ اس کے ساتھ شہریوں کی آزادیاں سلب ہونے کا امکان ہے ایسی صورت میں ملک بھر کے وکلا عوام کی طرف سے کسی ریلیف کے لئے آئینی پٹیشن دائر نہیں کر سکیں گے ۔ چنانچہ ایسی صورت میں سپریم کورٹ جو ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے کی حیثیت ثانوی رہ جائے گی۔ آئینی ترامیم کی آڑ میں ہمارا ملک ایک طرح سے سول مارشل لاء کی طرف گامزن ہے جس میں بعض طالع آزماء سیاست دان اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر آئین پاکستان کا حلیہ بگاڑنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا اقتدار برقرار رہے۔ میاں نواز شریف انہی وجوہات کی بنا جلد آئینی ترامیم کے لئے دعائوں کے لئے کہہ رہے ہیں۔ سیاست دانوں کو اقتدار کی بجائے ملک و قوم کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے اقدام کرنے چاہیں جس سے ہمارے ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم ہو سکے نہ کہ اقتدار کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کرکے ملک سے آئین اور قانون کا خاتمہ کریں۔ دراصل ملک کے عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ ملک کی دو جماعتیں ایک طرف ہیں اور عوام ایک طرف ہیں۔ دیکھتے ہیں آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوتی ہے یا نواز شریف کی دعائیں رنگ لاتی ہیں جس کا فیصلہ آنے والے چند دن میں ہوگا۔