Column

معجزہ ہے میری سرکار کا اُمی ہونا

صفدر علی حیدری

( یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہو گی) ’’ جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور ( گلے کے) طوق اتارتے ہیں، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں ‘‘( القرآن)۔
رسول، نبی اور امّی ان تینوں اوصاف میں سے لفظ رسول موصوف اور نبی امّی صفت کے عنوان سے مذکور ہے۔ اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امّی کے نام سے معروف ہیں۔
اہل کتاب عربوں کو امّی کہتے تھے اور اہل حجاز کا تو یہ لفظ لقب بن گیا تھا۔ وہ ان کو امّی کہہ کر اپنے برابر انسانی حقوق تسلیم کرنے کے لیے بھی آمادہ نہ تھے ۔
قابل توجہ مطلب یہ ہے کہ اس لفظ امّی کو جہاں اہل کتاب خاص کر یہودی تحقیر کے طور پر استعمال کرتے تھے، وہاں قرآن نے اس لفظ کو رسول کریمؐ کی شناخت کے طور پر بیان فرمایا۔ اس میں عظیم نکتہ یہ ہے کہ وہ رسول جن کے بارے میں تم خود تسلیم کرتے ہو کہ وہ امّی ہیں ، ایک جامع نظام حیات پیش کرتے ہیں، جس کی نظیر پیش کرنے سے انسانی درس گاہوں کے پڑھے ہوئے دانشور قاصر ہیں۔ یہ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ جس نظام حیات نے دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا ہے، اس کا پیش کرنے والا اللہ کی طرف سے پڑھا ہوا ہے۔ وہ ان سب پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ پڑھا لکھا ہے۔ البتہ بشری درس گاہوں میں نہیں بلکہ ملکوتی درس گاہوں کا پڑھا لکھا ہے۔ اس نے ان سیاہ لکیروں والی تحریر کو نہیں پڑھا، وہ لوح کائنات پر قلم قدرت سے لکھی ہوئی تحریروں کو پڑھ کر آیا ہے : ’’ بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے۔ لوح محفوظ میں ( ثبت) ہے ‘‘، ’’ ( عنقریب) ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے ‘‘۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان لکیروں کو پڑھ نہیں سکتی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ ان لکیروں کو پڑھتے نہیں ہیں۔ وہ انسانیت کو تعلیم دینے آئے ہیں، انسانوں سے تعلیم لینے نہیں آئے کہ ان کی تحریروں کو پڑھنے کی ضرورت پیش آئے ۔
’’ جس کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں‘‘۔
یہاں نہایت سنجیدہ اور فیصلہ کن لہجے میں یہ اعلان ہے کہ اگر یہ اعلان مبنی برحق نہ ہوتا تو اس طرح کا دعویٰ کرنے کا نتیجہ اس کے حق میں نہ ہوتا بلکہ لوگ اور زیادہ متنفر ہو جاتے کہ یہ شخص غیر ذمہ دار ہے ۔
اس قدر تحریف و تغیر کے باوجود موجودہ توریت و انجیل میں رسول کریمؐ کی آمد کے سلسلے میں تصریحات موجود ہیں ۔ یعنی ’’ ناخواندہ‘‘ اور ’’ ان پڑھ‘‘۔ یہ لفظ ام سے مشتق ہے، کیونکہ انسان مادر زاد ان پڑھ ہی ہوتا ہے۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ لفظ اُمِّی امت ( عوام) کی طرف منسوب ہو، کیونکہ اس زمانے میں عام لوگ ان پڑھ ہوتے تھے اور پڑھے لکھے لوگ خواص میں شمار ہوتے تھے۔
’’ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئو، اس امی نبی پر جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو شاید تم ہدایت حاصل کر لو ‘‘ (القرآن)۔
امی لقب کا معنیٰ اور اس کی حکمتیں قابل غور ہیں، عرب میں ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے۔ ان کے یہاں یہ بات معروف ہے کہ جس ذات کے جتنے کثیر اسماء ہوں گے وہ اتنی ہی زیادہ معظم و مکرم ہے۔ ان زائد اسماء کو لقب یا صفت کہا جاتا ہے، اللہ پاک کا ذاتی نام اللہ ہے مگر صفاتی نام بہت ہیں۔ پاک و ہند میں اللہ پاک کے 99نام معروف ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی نام محمد و احمد ہیں جبکہ صفاتی نام کثیر ہیں۔ ان موضوعات پر علمائے اسلام نے کئی کتب و رسائل لکھے ہیں جن میں اسمائے صفاتیہ کی وجوہات و حکمتوں پر کلام کیا گیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں بھی ہم رسولؐ اللہ کے ایک ایسے ہی اسم صفت کے معانی اور اس میں حکمت موجود ہے، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے صفاتیہ میں سے ایک صفت امی ہے۔ چونکہ یہ ایک عربی لفظ ہے اس لئے سب سے پہلے لغت عرب سے اس کا معنی دیکھتے ہیں: اُمّی ، اُم سے نکلا ہے، اس کا ایک معنیٰ ہے اصل، اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو اپنی جبلتِ اولیٰ پر ہو یعنی جیسا پیدا ہوا ویسا ہی رہے، یعنی لکھنے پڑھنے والا نہ ہو، اُمّی کا ایک معنیٰ ام القریٰ جو کہ مکہ معظمہ ہی کا ایک نام ہے۔ اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو۔ قرآن کریم میں بھی لفظ اُمی مختلف مقامات پر حسب حال مختلف معانی میں مستعمل ہے، مثلاً:’’ اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا یا کچھ اپنی من گھڑت اور وہ نرے گمان میں ہیں ‘‘، اسی طرح سورہ جمعہ میں ہے: ’’ وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں ‘‘۔ قرآن کریم میں سورۃ اعراف کے 2مقامات پر رسول مکرمؐ کو ’’ امی‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا گیا۔ ایک آیت نمبر 157میں:’’ وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں‘‘، اور دوسرا مقام اسی سے اگلی آیت نمبر 158میں :’’ تو ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر جو نبی ہیں، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں، اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکو ‘‘۔
رسولؐ اللہ نے خود بھی اپنی زبان مبارک سے لفظ امی کے معنیٰ کی وضاحت فرمائی، امام بخاریؒ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حدیث نقل فرمائی، حضور انور ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ یعنی ہم اہل عرب امی قوم ہیں، ہم نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ‘‘۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’ مجھے امی قوم کی طرف ( نبی بنا کر) بھیجا گیا‘‘۔
آپؐ کی مراد یہ تھی کہ ہماری طرح اپنی پہلی جبلت پر ہیں جس پر پیدا ہوئے تھے، اور ( اُمّی کا) ایک معنیٰ یہ بھی بیان کیا گیا کہ اُمّی وہ ہوتا ہے جو لکھتا نہ ہو، مزید فرماتے ہیں یہاں امی سے اہلِ عرب مراد ہیں کیونکہ ان کے ہاں لکھنے لکھانے کا رواج بہت ہی کم تھا یا بالکل ہی نہیں تھا۔
لفظ اُمّی کا ایک معنیٰ ہے اصل۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اس کائنات کی اصل بنا کر بھیجے گئے، باقی سب تو آپؐ ہی کے دم قدم سے ہے۔ اسی طرح لفظ امام کی اصل بھی یہی مادہ ہے، امام کہتے ہیں اس ذات کو جس کی طرف مقتدی جھکیں، جو وہ اشارہ کریں، اس کی پابندی کریں، غرض ہر معاملے میں وہی رہبر و رہنما ہے ۔ اب تک کی گفتگو سے اتنا ثابت ہوا کہ امی اسے کہتے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو، اس معنی کے عموم کو لے کر ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوئی، معاذ اللہ رسول مکرمؐ پوری زندگی ایسے ہی رہے، جو کہ سراسر خلاف واقعہ بات ہے، ان لوگوں کو لفظِ امی کا معنیٰ سمجھنے میں غلطی ہوئی وہ لفظ جسے صفتِ محمودہ کے طور پر قرآنِ کریم نے بیان کیا۔ اس سے لوگ ایک مذموم معنیٰ نکال کر حضورؐ کے لئے ثابت کرتے ہیں، حالاں کہ حضورؐ کے امی لقب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپؐ کسی سکھانے والے کے سکھائے سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھے، یہ معنیٰ نہیں کہ رب تعالیٰ نے آپؐ کو ایسا ہی رہنے دیا بلکہ وہ رب اپنے محبوبؐ کی شان میں فرماتا ہے:
’’ اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اُتاری اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے ‘‘۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ کو تمام کائنات کے علوم عطا فرمائے اور کتاب و حکمت کے اَسرار و حقائق پر مطلع کیا اور یہ مسئلہ قرآن کریم کی بہت آیات اور احادیث کثیرہ سے ثابت ہے ۔
’’ اور اس ( نزولِ قرآن) سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا تو باطل والے ضرور شک لاتے ‘‘۔
ان آیات سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ کو اللہ پاک نے نزولِ قرآن سے قبل ہی تمام علوم عطا فرما دئیے تھے۔ رسولؐ اللہ اگر آپؐ لکھتے پڑھتے تو یہود آپؐ کی ضرور تکذیب کرتے، اس لئے کہ ان کی کتب میں آخری نبیؐ کی ایک نشانی اُمی ہونا بیان کی گئی تھی، مگر انہیں شک کا موقع اس لیے نہ مل سکا کہ حضور انورؐ میں یہ نشانی موجود تھی۔ ایک حکمت یہ تھی کہ رسولؐ اللہ کی رسالت، آپؐ پر وحی کا نزول اور قرآن پاک کے کلام اللہ ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہ رہے، چوں کہ یہ یعنی رسولؐ اللہ پہلے سے لکھنا پڑھنا جانتے ہیں تو یہ جسے قرآن اور وحی کہتے ہیں وہ خود ان کا اپنا کلام ہے، آپؐ کے بڑے بڑے دشمنوں تک نے تکذیبِ وحی کے سلسلے میں یہ اعتراض نہ کیا۔ گویا دل سے وہ بھی مانتے تھے کہ یہ جو قرآن پیش کرتے ہیں وہ واقعی کلام اللہ ہے، کسی بشر کا کلام نہیں ہو سکتا۔ ہاں مگر کچھ مستشرقین نے تعصب میں آکر رسولؐ اللہ کے اساتذہ کو ثابت کرنے کی سعی لاحاصل ضرور کی، مگر ان کا یہ اعتراض اور ان کی یہ تحقیقات کسی قابل نہیں، جب وہ لوگ کہ جو نبی پاکؐ کو لوگوں کی نظر میں غلط ثابت کرنے کے لئے کسی بھی قسم کا الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے بھی ایسا کوئی اعتراض ذاتِ گرامی پر نہیں کیا تو صدیوں بعد آنے والے محققین کی تحقیقات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ رسولؐ اللہ امی تھے مگر اس معنیٰ میں کہ آپؐ کا کوئی دنیاوی استاد نہ تھا، آپؐ کو تمام علوم آپ کے رب کریم نے عطا فرمائے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی لقبِ اُمّی میں بہت حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اُمّی ہونا رسولؐ اللہ کی صفتِ محمودہ ہے۔ وہ کیسا نالائق شاگرد ہو گا جو استاد کے بارے میں کہے کہ اسے پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ جو ذات گرامی قدر اپنے بارے خود فرمائے کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا تھا، اس کو ان پڑھ کہنا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ وہ جو ماں کے بطن اطہر سے پڑھا لکھا ہے۔ جس کو علم لدنی حاصل ہے۔ وہ جو ام الکتاب کا قاری ہے، حامل ہے اور علوم پر دسترس رکھتا ہے اس کو ان پڑھ کہنا، دیوانوں کو ہنسانے کے مترادف ہے۔ جن کے دئیے ہوئے قرآن اور فرامین کہ شد بد رکھنے والے عالم اور استاد کہلائیں، وہ استاد نہ ہو گا، استاد الاساتذہ ہو گا۔ آپؐ نے خود کا علم کا شہر فرمایا۔ کوئی جاہل آپؐ کے علم کی حقیقت کیسے جان سکتا ہے۔ اگر اس کی عقل ہوتی تو وہ علم کے در اور آپ کے شاگرد رشید، مولا علیؓ کا علم دیکھ لے۔ اگر جاہل کی پھر بھی تسلی نہیں ہوئی تو وہ اس وقت کو ذہن میں لائے جب آپؐ اپنی ظاہری عمر کے آخری لمحات میں قلم دوات کا مطالبہ مانگا تھا ۔
معجزہ ہے میری سرکار کا اُمی ہونا
آپؐ پڑھنے کہاں آئے ہیں پڑھانے آئے ہیں

جواب دیں

Back to top button