پروفیسر رئیس فاطمہ۔۔۔۔۔ احوال و آثار

راجہ شاہد رشید
آج ہم اپ کو بہت ہی بڑی علمی و ادبی ہستی کا تعارف و خدمات، ادب نگر میں ان کا نام کام اور مقام بتلانے جا رہے ہیں جو 17کتب کی مصنفہ ہیں، ملک کی ممتاز اور مایہ ناز افسانہ نگار و ادیبہ ہیں۔ میرے اس کالم کا موضوع محترمہ پروفیسر رئیس فاطمہ جی ہیں جن کا تعلق ایک خالص علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے شوہر قاضی اختر جونا گڑھی ایک نامور صحافی تھے جو ایک بڑے قومی اخبار سے منسلک رہے ہیں، اس کے علاوہ یہ محترمہ ماہرٍ اقبالیات اور ملک کے معروف مفکر و دانشور قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی کی بہو بھی ہیں، جو حضرت علامہ محمد اقبالؒ پہ لکھی گئی معتبر اور معیاری کتاب ’’ اقبالیات کا تنقیدی جائزہ‘‘ کے مصنف ہیں۔ اقبال شناسی کے لیے ہر ایک اقبالی کے لیے ان کی اس کتاب کا مطالعہ لازم و ملزوم ہے کیونکہ بحیثیت مضمون اقبالیات پر لکھی گئی کتب میں سے یہ کتاب انتہائی نمایاں و اہم سمجھی جاتی ہے۔ پرانی بات ہے پروفیسر رئیس فاطمہ جی نے مجھے خود یہ بتلایا تھا کہ ہمارے گھرانے میں ایک مفکر و ادیب و دانشور کا رتبہ سب سے بلند ہوتا ہے، حتیٰ کہ ایک کمشنر، سینیٹر یا منسٹر سے بھی اہم سمجھا جاتا ہے ایک ادیب کا مقام ان کی فیملی میں۔ محترمہ رئیس فاطمہ 17جولائی 1946ء کو گنگا و جمنا کے سنگم الہٰ آباد میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے ددھیال کا تعلق پشاور سے اور ننھیال کا دہلی سے تھا۔ ان کے نانا سید محمد علی چشتی قادری عالم دین تھے جن کی تین کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ ان کے ماموں کا تعلق مسلم لیگ سے تھا، ان کا سیاست سے گہرا تعلق تھا لیکن صرف تحریک پاکستان تک ہی محدود رہا۔ ان کے والد کا نام جناب محمد بخش تھا، ان کا علمی ذوق انتہائی شستہ اور اعلیٰ تھا ۔ انہوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل کی، چنانچہ ستار اور وائلن بجانے پر انہیں مکمل دسترس حاصل تھی ۔ پروفیسر رئیس فاطمہ کو لکھنے کی جانب مائل کرنے میں ان کے والد کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان کا حلقہ احباب نامور ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں، اداکاروں اور
سیاستدانوں پر مشتمل تھا۔ رئیس فاطمہ جی نے ابتدائی تعلیم سینٹ زیوئر اور سوشل کیمبرج سکول سے حاصل کی، میٹرک اسلامیہ کالج کراچی سے کیا۔ گریجویشن کراچی کالج فار وومن سے کیا۔ پروفیسر رئیس فاطمہ نے اسی کالج سے 1970ء میں ایم۔ اے اردو ادب کیا، جسے وہ اپنی خوش بختی پر محمول کرتی اور کہتی ہیں کہ کراچی کالج کا نام پہلے پہل میری تحریروں کے حوالے سے ہی اخبارات اور رسائل کی زینت بنا۔ آپ اپنے کالج یونین کی صدر، جنرل سیکرٹری، بزم ادب کی نائب صدر، بزم نفسیات کی ترجمان مجلے تجزیہ کی نائب مدیرہ اور کالج میگزین کی ایڈیٹر بھی رہیں۔ اسی دوران انہوں نے قومی اخبارات میں باقاعدگی سے کالم لکھنا شروع کیا۔ یکم جنوری 2000ء سے تا دم تحریر رئیس فاطمہ بحیثیت کالم نگار روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہیں اور پھر میں جب انہیں تلاشنے نکلا تو مجھے بھی یہ اس سوہنے من موہنے اخبار کے ادارتی صفحات پہ ہی ملی تھیں، برسوں پرانی بات ہے جب محترم شاہ جی ( عباس اطہر) گروپ ایڈیٹر ہوتے تھے، میری تحریریں وہ چھاپتے رہتے تھے، سانحہ بگٹی پہ بعنوان ’’ بھٹو ہوں یا بگٹی‘‘ میری تحریر پبلش ہوئی تو تب لندن سے جلا وطن بے نظیر بی بی رانی نے فون فرما کر میری کتاب کا دیباچہ لکھنے کی حامی بھری تھی اور جلد واپس آ کر ملنے کا بھی کہا تھا، میری وہ تحریر محترم عباس اطہر شاہ جی نے ہی محترمہ بے نظیر بھٹو تک پہنچائی تھی، مجھے وہ شعر بھی یاد آ رہا ہے جس سے کالم کا عنوان چُنا گیا تھا:
بھٹو ہوں یا بگٹی ہوں
بالآخر مارے جاتے ہیں
عباس اطہر المعروف شاہ جی کے عہد میں اس اخبار کے ادارتی صفحات پر بڑی بڑی ہستیاں نظر آتی تھیں۔ معروف اداکارہ صبا حمید کے بابا اور میشا شفیع کے دادا محترم حمید اختر کا کالم صفحہ کی چوٹی پہ چھپتا ہوتا تھا، مجھے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ مرحوم حمید اختر نے بھی میری ایک کتاب کا دیباچہ لکھا تھا۔ عبدالقادر حسن بعد میں آئے، اس اخبار میں تب بڑی ہی بہاریں تھیں لیکن اب تو بس زاہدہ اور رئیس کے سوا صرف جاوید چودھری رہ گئے ہیں قابل ذکر ناموں میں سے۔ واپس پلٹتے ہیں پروفیسر صاحبہ کی جانب جو 17کتب کی مصنفہ ہیں اور ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ گلاب زخموں کے، آدھا انسان، زرد چنبیلی کی خوشبو، بے چہرہ لوگ، موسم اداسیوں کے، شاخ نہال غم، درد کی پازیب، میرے خوابوں کی سرزمین، خواب نگر کی کلیاں، آئینوں کے درمیان، ارتکاز، قراۃ العین حیدر کے افسانے۔۔۔ تجزیاتی مطالعہ، قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی۔۔۔ آثار و احوال ، شہر بے مثال۔۔۔ کراچی، فنون لطیفہ کی لازوال ہستیاں، جن دادا اور دادی کی کہانیاں۔ پروفیسر رئیس فاطمہ کی اپنے اکلوتے لاڈلے بیٹے راحیل اختر کے نام نظم:
وہ میرے پاس نہیں
آنکھ سے اوجھل بھی نہیں
یوں میرا اس سے الگ
گزرا کوئی دن بھی نہیں
بھول جائے وہ مجھے
میں نے یہی چاہا تھا
اب جو بھولا ہے تو
چین کسی کل بھی نہیں
آ کے ٹھہرا یہ میری
آنکھوں میں صحرا موسم
کوئی ساون نہیں برکھا نہیں