ColumnRoshan Lal

سپریم کورٹ کے پر کون کاٹ رہا ہے؟

تحریر : روشن لعل
آج کل یہ باتیں اکثر میڈیا پر ہونے والے مذاکروں ، یو ٹیوبروں کے یکطرفہ پراپیگنڈے اور اخباری تحریروں میں بھی دیکھنے میں آرہی ہیں کہ آئینی عدالتیں بنا کر سپریم کورٹ کے ’’ پر ‘‘ کاٹنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ’’ پروں ‘‘ کا تعلق ’’ اڑنے‘‘ سے ہوتا ہے ، کسی پرندے کے پر کاٹنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب اسے پالنے والے کو یہ خطرہ محسوس ہو کہ یہ دانہ دنکا تو میرا کھاتا ہے لیکن بیٹھے کی کوشش کسی اور کی چھتری پر کرتا رہتا ہے۔ ’’ پر کاٹنے ‘‘ جیسی جو باتیں پرندوں کے لیے تو بولی جا تی ہیں ، انہیں کسی ملک کی عدلیہ کے لیے ہر گز استعمال نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ججوں پر مشتمل عدلیہ کے لیے وہ کچھ کہا جانا کسی طور مناسب نہیں جو پالتو پرندوں کے لیے کہا جاتا ہو ۔ ویسے بھی اس طرح کی باتیں اگر کسی ملک کی عدلیہ کے لیے کہی جائیں تو اس کے منصفانہ ہونے کی بجائے فوراً ذہن میں اس کی کم مائیگی اور بے بضاعتی کا خیال آتا ہے ۔ جس عدلیہ کے لیے کم مائیگی اور بے بضاعتی جیسے الفاظ استعمال کرنے کا خیال آئے اسے کسی طرح بھی آزاد عدلیہ تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ کسی ملک کی عدلیہ کے آزاد تصور نہ کیے جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے انصاف کا ترازو غیر متوازن اور کسی ایک طرف جھکا ہوا ہے ۔ اگر ہم اپنی عدلیہ کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ نظر آتا ہے کہ ہر دور میں نہ صرف اس کا ترازو غیر متوازن رہا بلکہ اس کے جھکائو والا پلڑا بھی تبدیل ہوتا رہا۔ جہاں تک ہماری عدلیہ کی کارکردگی کا تعلق ہے تو اس کا معیار قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی کئی قسم کے سوالیہ نشانوں کی زد میں آگیا تھا۔ روز اول سے عدلیہ کے سوالیہ نشانوں کی زد میں آنے کے باوجود اگر عام لوگوں پر اس کا رعب و دبدبہ قائم رہا تو اس کی وجہ یہاں اس نام نہاد مقدس اتحاد کا قیام تھا جس میں ایک عرصہ تک عدلیہ کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ ، خاص سیاستدان اور مخصوص میڈیا گروپ شیر و شکر بنے رہے۔ طویل عرصہ تک یہ اتحاد یہاں کافی موثر رہا۔ اس اتحاد کے موثر اور کارگر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کا ہر جز ہر صورت میں دیگر اجزاء کے مفادات کا تحفظ کیا کرتا تھا۔ اس اتحاد کی مضبوطی کا بنیادی محرک کوئی اصول نہیں بلکہ اس میں شامل افراد کے ذاتی و مالی مفادات تھے ۔ جب اس اتحاد میں شامل لوگوں کے مفادات کا ٹکرائو شروع ہوا تو اس میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ یہ دراڑیں پہلے اتحاد میں شامل مختلف اجزا کے درمیان ظاہر ہوئیں اور پھر بتدریج ہر جز کے اندر ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی۔ یہ ٹوٹ پھوٹ اب اس قدر واضح ہو چکی ہے
کہ فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ کسی ایک جز کو مشکل پیش آنے پر دیگر تمام اجزا اسے نجات دلانے کے لیے ماضی کی طرح یکجا ہو جائیںگے۔ان دنوں جس عدلیہ کے پر کاٹنے کی دہائی دی جارہی ہے، وطن عزیز میں اس عدلیہ کی کارکردگی کو کبھی بھی شفاف نہیں سمجھا گیا مگر پھر بھی کچھ عرصہ پہلے تک اس کے فیصلوں پر تبصرے کرتے وقت قانونی توجیہات کا حوالہ ضرور دیا جاتا تھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ منصفوں کے فیصلوں کی قانونی توجیہات پیش کرنے کی بجائے صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ فیصلہ کس سیاسی گروہ کے حق میں اور کس کے خلاف جارہا ہے۔ جس قسم کے فیصلے آنے کا یہاں تسلسل قائم ہو چکا ہے ان کے ظاہر ہونے پر عام لوگ بھی اب برملا یہ کہنے لگے ہیں ان فیصلوں کا مقصد فلاں سیاستدان کو فائدہ اور فلان کو نقصان پہنچانا ہے۔ اگر عدل کے ایوانوں پر عام لوگ اعتبار کرنے پر تیار نظر نہیں آتے تو یہاں ایسا ہونا بلاوجہ ہر گز نہیں ہے ۔ یہاں کئی ایسے حقائق منظر عام پر آچکے ہیں جن سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ماضی میں منصفوں نے کسی کو سیاسی فائدہ یا نقصان پہنچانے کے لیے عدالتی قتل جیسے کام کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔یہاں عدلیہ کا کردار غیر منصفانہ اور غیر شفاف ہونے پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے ۔ عدلیہ کا اس طرح کا کردار ہونے کے باوجود یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہمیشہ اس وقت ایسی عدلیہ کو جوں
کا توں رکھنے کے لیے اس کی حمایت میں آجاتے ہیں جب اس کا غیر منصفانہ ڈھانچہ تبدیل کرنے کے لیے کوئی منصوبہ سامنے آتا ہے۔ قبل ازیں یہاں میثاق جمہوریت ہوا، جس میں طے کیا گیا کہ یہاں نہ صرف کسی بھی وقت پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے کسی جج کے چیف جسٹس بننے کا امکان ختم کیا جائے گا بلکہ ایک ایسی آئینی عدالت بھی قائم کی جائے گی جو صرف آئینی نوعیت اور انسانی حقوق سے متعلق کیسوں کی سماعت کرے ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہوا تھا ، اگر میثاق جمہوریت کے مطابق چیف جسٹس کی تعیناتی کا فارمولا طے ہو جاتا تو ان کے دوبارہ چیف جسٹس بننے کا امکان بھی ختم ہوجاتا۔ وہ لوگ جن کے ذاتی مفادات افتخار چودھری کی بحیثیت چیف جسٹس بحالی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے انہوں عدلیہ کا کردار منصفانہ بنانے کی بجائے افتخار چوہدری کی بحالی کو ترجیح دی۔ افتخار چودھری نے بحال ہونے کے بعد اس کی پارلیمنٹ، دیگر اداروں اور حتیٰ کی آئین و قانون کو بھی ہیچ سمجھتے ہوئے صرف اور صرف اپنی ذات کو سپریم بنانے کی کوششیں کیں۔ ایسی کوششوں کے تسلسل میں افتخار چودھری نے پارلیمنٹ کو بلیک میل کر کے انیسویں ترمیم منظور کرائی تاکہ اس کے ہم مشربوں کے علاوہ کوئی بھی دوسرا بندہ اعلیٰ عدالتوں میں جج تعینات نہ ہو سکے۔ افتخار چودھری اور ان کے ہم مشربوں نے اس ملک کی عدالتوں میں آئین و قانون اور عدل و انصاف کی جس طرح پامالی کی یہ باتیں کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں۔
افتخار چودھری اور ان کے ہم مشربوں نے اس طرح سے اپنے عہدوں کا استعمال کیا کہ ان کے فیصلوں کو ملک میں عدالتی مارشل لا کے نفاذ سے تشبیہ دی گئی۔ کوئی بھی آمر مارشل لا نافذ کرنے کے بعد سب سے پہلے آئین معطل کرتا ہے لیکن آئین کے موثر ہونے کے باوجود جب جج صاحبان آئین کی من مانی تشریح کرتے ہوئے ایسے فیصلے دینا شروع کر دیں جن کی کہیں کوئی نظیر نہ تو ایسے فیصلوں کو پارلیمنٹ کا آئین سازی کا حق مجروح کرنے اور عدالتی مارشل لا لگانے کی کوشش تصور کیا جاتا ہے۔
گزشتہ تین برسوں سے حالیہ دنوں تک، یہاں ایسے عدالتی فیصلوں کی مثالیں سامنے آئی ہیں جنہیں ججوں کی طرف سے خود سے آئین تحریر کرنے کی کوشش اور عدالتی مارشل لا لگانے کے مترادف قرار دیا جانے لگا ہے۔ عدالتوں کے اس طرح کے کردار کے سدباب کے لیے ایسی آئینی ترامیم بہت ضروری ہیں جن سے عدالتوں میں بیٹھے ججوں کو من مانیاں کرنے سے روکا جاسکے۔ عدالتی مارشل لا جیسے حالات پیدا ہونے سے روکنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا صرف پارلیمنٹ کا حق ہے یہ حق اگر طے شدہ آئینی طریقے کار کے مطابق استعمال ہوتا ہے تو اس کے خلاف کسی کو بھی یہ پراپیگنڈا نہیں کرنا چاہیے کہ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ کے پر کاٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button