ColumnRoshan Lal

بلاول کی نظر انداز کی گئی باتیں

روشن لعل
پی ٹی آئی کے 8ستمبر کو اسلام آباد میں منعقدہ جلسہ میں کی گئی علی امین گنڈاپور کی تقریر کے زیر اثر وطن عزیز میں بدتمیزی کاجو طوفان ابھرا اس کی شدت میں ہر کسی نے اپنی ہمت و توفیق کے مطابق اضافہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جسے صرف بولنا آتا ہے اس نے زبان استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس کے اندر بھی ایک چھوٹا سا علی امین گنڈاپور موجود ہے اور جن کے پاس طاقت ہے انہوں نے آنکھوں کا کنکر بنے لوگوں کی اس مضحکہ طریقے سے گرفتاریوں کا بندوبست کیا کہ ان کے کردار اور گنڈا پور کے گفتار میںکوئی فرق نہ رہا۔ ایسے ماحول میں ، پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ ہائوس میں اپنے ساتھی اراکین اسمبلی اور ہم عصر سیاستدانوں سے حد درجہ مختلف لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے ایسی باتیں کیں جن کے لیے مثبت ترین کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جہاں بدتمیزی کا طوفان تمام اخلاقی حدیں پھلانگتا ہوا ، مہذب عمل کے اظہار کا ہر امکان ختم کرنے کے درپے ہے وہاں گنڈا پور کی باتوں کو مسلسل اپنی گفتگو اور تبصروں کا محور بنانے والے جغادری میڈیا پرسنز اور سطحی یوٹیوبر ایک ساتھ بلاول کی باتوں کے مثبت پہلوئوں کو نظر انداز کررہے ہیں ۔
بلاول کی مثبت باتوں کو نظر انداز کرنے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔جس پیرائے میں بلاول نے پارلیمنٹ میں اپنی حالیہ تقریر کی اسی پیرائے میں ایک تقریر ستمبر 2023 میں اس وقت بھی کی تھی جب گزشتہ قومی اسمبلی کا آئینی اختتام ہونے والا تھا۔جو لوگ بلاول کی ستمبر 2023 میں کی گئی باتوں کو فراموش کر چکے ہیں ان کی یاد دہائی کے لیے بلاول کی مذکورہ تقریر کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔ ۔ اس وقت بلاول نے جن الفاظ سے اپنی تقریر کا آغاز کیا ان کا لب لباب یہ تھا کہ اس کے کندھوں پر اپنے بڑوں کے سیاسی ورثے کو آگے لے کر چلنے کی ذمہ داری کی وجہ سے عوام نے اس سے خاص توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں۔ اس نے ہمیشہ ان توقعات کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کی مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ ان توقعات پر پورا اترنا ممکن نہ ہو سکا۔ اس بیان سے اپنی تقریر کا آغاز کرنے کے بعد بلاول نے اختتامی کلمات میں یہ کہا کہ میں نے اپنے ایک بیان میں صدر زرداری اور میاں نوازشریف سے یہ کہا تھا کہ انہیں ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جس سے میرے اور مریم کے لیے سیاست کرنا آسان ہو مشکل نہ رہے مگر جو فیصلے ہوئے اس سے یہ لگ رہا ہے کہ جس طرح کی سیاست گزشتہ تیس برس سے چل رہی ہے آئندہ تیس سال تک ایسے ہی چلتی رہے گی ۔ اپنی اس بات کی وضاحت بلاول نے ان الفاظ میں کی کہ یہاں یا تو سیاست دان حکومت میں ہوتا یا پھر جیل جاتا ہے۔ بلاول نے ستمبر 2023 میں کی گئی تقریر دوران واضح طور پریہ کہا تھا کہ اداروں کو اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے مگر ہمیں گزشتہ پندرہ ، سولہ ماہ کے دوران حکومت کرنے کا جو موقع ملا ہم اس میں اداروں کو اپنی حدود میں رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ باتیں کرتے ہوئے بلاول نے میثاق جمہوریت کا ذکر بھی کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ جب تک تمام سیاسی فریق یا حریف مل کر اپنی سیاست کرنے کے لیے مل بیٹھ کر اپنی حدیں طے نہیں کر لیتے اس وقت تک کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے اداروں کو اپنی حدود میں رکھنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ بلاول نے تحریک عدم اعتماد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے ہم نے دھرنا دینے جیسا غیر جمہوری عمل کرنے کی بجائے آئینی طریقہ اختیار کیا۔ پاکستان میں گزشتہ سے پیوستہ جو سیاست ہورہی ہے اس کا نقشہ کھینچنے کے بعد بلاول نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیاتھا کہ پاکستان کے نوجوان روایتی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔ روایتی سیاست سے تنگ آنے باعث یہ نوجوان اب کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرتے ۔ بلاول نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں سیاست میں ایسا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے جس سے نوجوانوں کی امید برقرار رہے۔
بلاول نے ستمبر 2023 میں اگر نوجوانوں کا حوالہ دے کر اپنی تقریر ختم کی تھی تو ستمبر 2024 میں پارلیمنٹ کے اندر کی گئی حالیہ تقریر آغاز انہوں نے گیلری میں بیٹھے ان نوجوانوں کی طرف اشارہ کر کے کیا جو خاص طور پر پارلیمنٹ کی کاروائی دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ ان نوجوانوں میں سے کئی ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بننے کی خواہش رکھتے ہوں گے لیکن اپنی تقریر شروع کرنے سے قبل میں سوچ رہا تھا کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کیا ان میں سے کوئی سیاستدان بھی بننا چاہے گا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ نوجوان سیاست پر اعتبار کیوں نہیں کرتے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا یہاں آئین کی بالادستی تسلیم کی جارہی ہے،آئین کی بالا دستی تسلیم کیے بغیر نہ پارلیمنٹ اور نہ ہی کوئی اور ادارہ چل سکتا ہے۔ آئین کی بالادستی قائم کرنے کے لیے سیاستدانوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہونا ضروری ہے مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف خیبر پختونخوا کی حکومت اپنی حکمرانی کو عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے سیاست چمکانے کے لیے استعمال کر رہی ہے تو دوسری طرف وفاقی حکومت یہ سوچ کر سکور برابر کررہی ہے کہ عمران خان کی حکومت نے جو ہمارے ساتھ کیا تھا اس کے رد عمل میں ہم اینٹ کا جواب پتھر سی دیں ۔ بلاول نے کہا کہ میرے والد کو کوئی الزام ثابت کیے بغیر جن لوگوں نے 12برس تک جیل میں رکھا ، ہم نے ملک کے وسیع تر مفاد میں ان کے ساتھ میثاق جمہوریت کیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا لیڈر چند ماہ سے جیل میں ہے اور ہمیں آپ کی بے چینی سمجھ میں آتی ہے لیکن اس بے چینی کا اظہار نفرت اور انتشار میں اضافہ کی شکل میں نہیں ہونا چاہے۔ آپ کے لیڈر پر جو مقدمات ہیں ان کا فیصلہ عدالتوں کے ذریعے میرٹ پر ہونا چاہیے لیکن سیاسی عمل جاری رکھنے کے لیے آپ کو میثاق جمہوریت اور میثاق پارلیمنٹ کی طرف آنا چاہیے۔
بلاول نے نوجوانوں کا حوالہ دے کر جو باتیں ستمبر 2023میں کی تھیں تقریبا اسی قسم کی باتیں ستمبر 2024میں کی ہیں۔ افسوس کہ نہ بلاول کی سپرٹ کو پہلے کسی نے سمجھا اور نہ ہی اب کوئی سمجھنے کے لیے تیار نظر آرہا ہے۔ یہاں کسی کا دست شفقت سر پر آجانے سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اس عمل میں پتھر مارنے اور پتھر کھانے والے کی جگہ تو تبدیل ہو جاتی ہے لیکن دست شفقت اور پتھر تبدیل نہیں ہوتے۔ بلاول کے مطابق دائرے کے اس سفر سے نکلنے کا واحد حل نیا میثاق جمہوریت اور میثاق پارلیمنٹ ہی لیکن اگر بلاول کی باتیں نظر انداز کی جاتی رہیں تو دائرے کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہو سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button