دیت کا قانون اور ملزمان کی بآسانی رہائی
علی حسن
جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے اس ملک میں اکثر دولتمند افراد کی کرتوتوں پر ان کی دولت پردہ ڈال دیتی ہے۔ کراچی میں ہونے والے سڑک کے حادثہ میں جان بھق ہونے والے باپ و بیٹی کی ہلاکت کے ذمہ دار دیت کی ادائیگی کے بعد عدالت سے رہا ہو گئی ہے۔ رہائی کے بعد حادثہ کی ذمہ دار نتاشہ نامی خاتون نے عدالت سے باہر آتے ہی ماضی کے ایک واقعہ کی نقل کی جس میں شاہ رخ جتوئی نامی نوجوان اپنی انگلیوں کی وکٹری بناتا ہے۔ ان دونوں کے لئے واقعہ کسی بڑی کامیابی کی علامت ہو سکتا ہے لیکن وکٹری کی پیچھے ان کے والدین کی دولت کی دیوار کھڑی ہے۔ جاں بحق عمران عارف اور آمنہ عارف کے ورثا نے حلف نامے ملزمہ کی درخواست ضمانت کی سماعت کے موقع پر پیش کئی۔ حادثے میں جاں بحق ہونے والے باپ بیٹی کے ورثا کی جانب سے ملزمہ کی درخواست ضمانت پر نو ابجیکشن سرٹیفکیٹ جمع کرایا جائے گا، این او سی حادثے میں جاں بحق ہونے والے عمران عارف کی اہلیہ کی جانب سے جمع کرایا جائے گا۔عمران عارف کے بیٹے اسامہ عارف اور بیٹی کی جانب سے بھی این او سی جمع کرائے جائیں گے حلف نامے میں کہا گیا کہ ہمارے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں ہم نے ملزمہ کو معاف کر دیا ہے، ہم نے اللہ کے نام پر معاف کیا ہے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ ساڑھے پانچ کروڑ روپے سے زائد رقم دیت کے طور پر ادا کی گئی۔ ایک رشتے دار کو نتاشہ کی کمپنی میں ملازمت بھی دی جائے گی، واقعہ میں زخمی ہونے والے افراد کے درمیان بھی صلح ہوگئی زخمیوں کو الگ سے رقم بھی ادا کردی گئی، فریقین کے درمیان دیت کا معاہدہ شرعی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، ذرائع کا دعویٰ متاثرہ فیملی کے حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ملزمہ کو ضمانت دینے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، جو حادثہ ہوا تھا وہ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا، ہم نے بغیر کسی دباؤ کہ یہ سرٹیفکیٹ دیا ہے، ہم نے حلف نامے میں جو کچھ کہا ہے بالکل درست
کہا ہے۔20اگست کو کارساز روڈ کر تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار باپ بیٹی جاں بحق ہو گئے تھے، حادثے میں جاں بحق ہونے والی آمنہ عارف گھر میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھی، والد نے اسے پاپڑ فروخت کر کے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا تھا۔ حادثے کے بعد پولیس نے خاتون ملزمہ کو حراست میں لے لیا تھا اور بعد ازاں خاتون ملزمہ کی میڈیکل رپورٹس میں آئس نشے کی موجودگی کی تصدیق ہوئی تھی۔ امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس یا کوئی اور، پیسے والے والے لوگ دیت کے نام پر رہایہ حاصل کر کے آزادی حاصل کر لیتے ہیں۔ ناظم جوکھیو کے نام پر بھی ایسا ہی ہوا۔ آپ ناظم جوکھیو کیس کو ہی دیکھ لیں، جس میں ناظم جوکھیو کو ممبران اسمبلی جام اویس اور جام عبدالکریم نے مبینہ طور پر قتل کیا تھا، مگر دیت کا قانون سامنے آیا اور معاملات لے دے کے ساتھ ختم ہوگئے اور ملزم باعزت بری ہوگئے۔ اس کی بے بس بیوہ تماشہ دیکھتی رہ گئی۔
نتاشہ کیس میں تو ملزمہ کو دوران علاج ہی ضمانت مل گئی تھی۔ اسے اپنی دولت پر اس قدر ناز تھا کہ اس نے سب ہی کچھ کہہ اور کر دیا تھا۔ ملزمہ کے خون اور پیشاپ کے نمونوں میں آئس کے نشے کے کیمیکل دیکھے گئے تھے، اور ابتدائی رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر نے ملزمہ نتاشہ کو مکمل تندرست قرار دیا تھا، لیکن ہندو ڈاکٹر چنی لعل نے میڈیکل رپورٹ میں پیسے کی لالچ کے باوجود ملزمہ کو مکمل فٹ قرار دیا تھا ،اور یہ غلط ثابت کیا تھا کہ ملزمہ ذہنی مریضہ ہے۔ اس میڈیکل رپورٹ کے بعد تو کہا جا رہا تھا کہ نتاشہ کے جلد جیل سے باہر آنے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔ پولیس نے مقدمہ میں ناقابل ضمانت قتل بالسبب کی دفعہ 322کا اضافہ کر دیا تھا ( یہ دفعہ 322ناقابل ضمانت ہے اور اس دفعہ کے تحت سزا 10سال سے عمر قید اور دیت ادائیگی کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس وقت دیت کی رقم فی کس 68لاکھ 50ہزار روپے ہے۔ جو کسی بھی ملزم کو مقتول کے ورثا کو ادا کرنا ہوتی ہے) ۔ حالانکہ ابتدا میں پولیس کی جانب سے کافی کمزور مقدمہ بنایا گیا۔ ملزمہ کو پولیس و وکیل صفائی کی جانب سے نفسیاتی مریضہ قرار دے دیا گیا۔ پھر یہ کہا گیا کہ ملزمہ کے پاس برطانیہ کا ڈرائیونگ لائسنس موجود تھا، خیر اگلے روز جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں سماعت کے دوران مقدمہ کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر ریحان احمد کی جانب سے ملزمہ نتاشا کی عدم پیشی سے متعلق رپورٹ اور جناح اسپتال کے شعبہ نفسیات کے انچارج ڈاکٹر چنی لعل کا ملزمہ سے متعلق میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرایا گیا جس میں کہا کہ ملزمہ ٹھیک ہے، متعلقہ عدالت میں بھی پیشی کے موقع پر پولیس نے ملزمہ کو پروٹوکول فراہم کیا۔ ملزمہ کو ہتھکڑی بھی نہیں پہنائی گئی تھی۔ جبکہ اسے خواتین و مرد اہلکاروں نے حصار میں لیکر عدالت میں پیش کیا تھا۔ اس سماعت کے بعد عدالت نے ملزمہ نتاشا کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ جبکہ پولیس کو مقدمہ کی تفتیش مکمل کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ قانون اس قدر کمزور دکھا یا گیا ہے کہ خوف آتا ہے کہ پاکستان میں کس قدر آسانی سے جس طرح چاہو موڑ لو۔ اس سارے کھیل میں وکلاء حضرات کو خصوصی جلدی ہوتی ہے تاکہ ان کے ملزم یا ملزمہ کسی نہ کسی طرح فراغت پائیں اور وہ اپنی وصول کی گئی ’’ فیس‘‘ کا حق وصولی ادا کر سکیں۔ عوام ملک اور قوم اکثر ایسا ہی کھیل دیکھتے ہیں۔ اس کا شکار ہوتے ہیں لیکن کیا کر سکتے ہیں۔