Column

’’ صدقہ‘‘ اللہ کا غصہ بجھنے اور بلائیں ٹلنے کا ذریعہ

عبدالقادر شیخ

ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: ’’ جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے کی سی ہے جس میں سے کہ سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور بردبار ہے۔ اے ایمان والو اپنے صدقات ( خیرات) کو احسان جتا کر اور ایذ پہنچا کر کرنے اور نہ اللہ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریا کاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لا دے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے‘‘۔ ( سورہ البقرہ، آیات: 261تا265)۔
ان آیات کریمہ میں انفاق فی سبیل اللہ اور صدقات کا ذکر کیا گیا ہے، جس سے مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہیں۔ صدقہ کے معنی بھی وہی ہیں عام لفظوں میں اپنا مال فقراء و مساکین میں تقسیم کر دینا۔ مفسرین کرام ان آیات کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ پہلی آیت انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ
جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات و صدقات نافلہ ہوگی اور دیگر نیکیاں ( ایک نیکی کا اجر دس گنا) کی ذیل میں آئیں گی، گویا انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت و فضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان و اسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا فوج کی کارکردگی بھی صفر ہو گی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کئے جا سکتے۔ دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہوگی جو مال خرچ کرکے احسان نہیں جتلاتا اور نہ ہی زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب یا محتاج و مسکین کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے، جس کے بارے میں حضور اکرمؐ کا فرمان ہے کہ ’’ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین لوگوں سے کلام نہیں فرمائے گا ان میں سے ایک احسان جتلانے والا ہے‘‘۔ ( صحیح مسلم کتاب الایمان)۔
اس سے ثابت ہو رہا ہے فقراء و مساکین سے نرمی والا انداز اور شفقت والے کلمات ادا کرنے چائیں یا پھر دعائیہ کلمات جسے اللہ ہمیں اور آپ کو اپنے فضل و کرم سے نوازے وغیرہ وغیرہ، اگر سائل کے منہ سے نازیبا الفاظ ادا ہوجائیں تو اس سے چشم پوشی اختیار کی جائے، گویا نرمی، شفقت، پردہ پوشی اور چشم پوشی آنحضورؐ کے فرمان کے مطابق اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اس کو لوگوں میں ذلیل و رسوا کرکے اسے تکلیف پہنچائی جائے اسی لئے ایک اور حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ ’’ پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے‘‘۔ ایک اور مرتبہ حضورؐ نے فرمایا: ’’ تم کسی بھی معروف ( نیکی) کو حقیر مت سمجھو اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ہی ملنا ہو‘‘۔ ( صحیح مسلم کتاب البر)
لوگوں نے ایک مرتبہ آپؐ سے دریافت کیا، یا رسولؐ اللہ تمام کاموں میں سب سے بہتر کام کون سا ہے، فرمایا: خدا پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرتا، پھر پوچھا، کس غلام کے آزاد کرنے میں زیادہ ثواب ہے ؟ ارشاد ہوا: جس کی قیمت زیادہ ہو اور جو اپنے مالک کو زیادہ پسند ہو، لوگوں نے کہا، اگر یہ کام
ہم سے نہ ہو سکے تو؟، پھر فرمایا: پھر ثواب کا کام یہ ہے کہ کام کرنے والے کی مدد کرویا جس سے کوئی کام بن نہ آتا ہو اس کا کام کر دو۔ پھر سوال کیا، اگر یہ بھی نہ ہوسکے؟، تو فرمایا: تو پھر یہ کہ لوگوں کے ساتھ کوئی برائی نہ کرو، یہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے، جو تم خود اپنے اوپر کر سکتے ہو۔ (ادب المفرد بخاری)۔
علامہ شبلی نعمانی سیرت النبیؐ میں رقمطراز ہیں کہ حضرت سعدؓ جو چاہتی تھے کہ اپنی کل دولت خدا کی راہ میں دیدیں، آپؐ نے انہیں بتایا کہ’’ اے سعد جو کچھ اس نیت سے خرچ کرو کہ اس سے خدائے بزرگ و برتر کی خوشنودگی مقصود ہے اس کا تمہیں ثواب ملے گا، یہاں تک کے جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں دو اس کا بھی ثواب ہے‘‘۔ ایک مرتبہ ابو مسعود انصاری ؓ سے ارشاد فرمایا: ’’ مسلمان اگر ثواب کی نیت سے اپنی بیوی کا نفقہ ادا کرے تو وہ بھی صدقہ ہے‘‘۔ ( صحیح بخاری کتاب النفقہ) ۔
غریب نادار صحابہؓ نے ایک مرتبہ دربار رسالت میں شکایت کی کہ یا رسولؐ اللہ دولت مند لوگ ہم سے ثواب میں بڑھ گئے ، ہماری طرح وہ بھی نماز پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، اس کے علاوہ مالی عبادت بھی بجا لاتے ہیں، جو ہم نہیں کر سکتے۔ آپؐ نے فرمایا: تم کو اللہ نے وہ دولت نہیں دی ہے کہ جس کو تم صدقہ کر سکو؟، تمہارا سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنا بھی صدقہ ہے، یہاں تک کہ کوئی اپنی نفسانی خواہش کو جائز طریقے سے پوری کرتا ہے وہ بھی ثواب کا کام کرتا ہے۔ لوگوں نے کہا یا رسولؐ اللہ وہ تو اپنی نفسانی غرض کی خاطر ایسا کرتا ہے۔ فرمایا کہ ’’ اگر وہ ناجائز طریقے سے اپنی ہوس پوری کرتا تو کیا اس کو گناہ نہیں ہوتا؟، پھر اس کو جائز طریقے سے پورا کرنے کا ثواب کیوں نہیں ملے گا‘‘۔
آپؐ نے مختلف موقعوں پر ارشاد فرمایا ’’ ہر نیکی کا کام صدقہ ( خیرات) ہے ( صحیح بخاری کتاب الادب)۔
’’ تمہارا کسی بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے، راستے سے کسی تکلیف دہ چیز ( کانٹے، پتھر) ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔ ( سیرت النبی ج ۵)۔
آخری آیت میں فرمایا کہ جو اللہ کی رضا کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پر فضا اور بلند چوٹی پر ہو کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوارا ور شبنم بھی اس کو کافی ہوجاتی ہے اسی طرح ان کے نفقات بھی، چاہے کم ہو یا زیادہ عنداللہ کئی کئی گنا اجر و ثواب کے باعث ہوں گے۔
آیت مبارکہ میں ایک لفظ جنت اور دوسرا ربوہ آیا ہے۔ جنت اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ جس کے چاروں اطراف باڑھ ہو اور باڑھ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو یہ لفظ جن سے ماخوذ ہے۔ جن اس مخلوق خداوندی کا نام ہے جو نظر نہیں آتی اسی طرح پیٹ کے بچے ( حمل حاملہ) کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا۔ دیوانگی کو بھی جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس مقام کو جابجا جنت کہا ہے، جو انسان کی نظر سے مستور ہے، اسی طرح ربوہ اونچی جگہ یا اونچی سرزمین کو کہتے ہیں۔ بدقسمتی سے احمدیوں نے اس کے غلط مفہوم و معانی لیتے ہوئے اپنی جنت کا نام دیا ہے۔
صدقہ باعث رحمت ہے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضورؐ نے فرمایا ’’ عمدہ صدقہ وہ ہے جو فاضل مال سے ادا کیا جائے اور صدقہ کی ابتداء اس شخص سے کرو جو تمہارے عیال میں سے ہو‘‘۔ ( صحیح بخاری)۔
حضرت اسمائؓ کہتی ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا تھا ’’ اے اسماء تم ( اپنے مال پر) گرہ نہ دو ( یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اسے نہ روکو) ورنہ پھر ( رحمت خدا کی تم پر گرہ دیدی جائیگی یعنی نزول رحمت تم پر موقوف ہو جائیگی ۔ ( صحیح بخاری جلد۱)۔
پاک کمائی اور رزق حلال سے صدقہ مقبول ہوتا ہے، فرمایا: ’’ اے ایمان والو! ان پاک کمائیوں سے جو تم نے حاصل کی ہوں اور اس چیز سے جو ہم نے تمہاری لئے زمین سے پیدا کی ہے ( ہماری راہ میں ) خرچ کرو‘‘۔
صدقے سے اللہ تعالیٰ کا غصہ بجھ جاتا ہے اور بلائیں بھی ٹل جاتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button