ColumnQadir Khan

کھل کر سامنے آئیں !

قادر خان یوسف زئی
پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ سیاسی سفر کو ایک اہم موڑ پر دیکھا جا رہا ہے، جس میں کئی ماہ سے خصوصی معاہدے کے نتیجے میں حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے بارے میں پی پی پی کے کردار پر مختلف حلقوں میں سوالات جنم لے رہے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف، پیپلز پارٹی سمیت اتحادی جماعتوں کی حمایت سے اقتدار میں ہیں۔ اس سیاسی صورتحال نے ایک غیر معمولی منظر نامہ تشکیل دیا ہوا ہے جس میں صدرِ مملکت، وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کی قیادت سمیت تمام اہم مناصب پر موجود شخصیات کو نہایت حساس اور نازک مسائل کا سامنا ہے۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کئی اہم ایشوز پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں تاہم اتحادی حکومت میں صرف وزارتیں نہ لینے کی وجہ سے یہ سمجھا جارہا ہے کہ وہ موجودہ حالات کی ذمے داری اپنے کندھوں پر نہیں اٹھانا چاہتے ، لیکن اہم ترین آئینی عہدوں کے حصول کے بعد پی پی پی کو حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے اپنی غیر واضح پوزیشن کے باعث تنقید کی زد میں ہے۔
ملک کے اندر بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی کارروائیوں نے نہ صرف اندرونی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش پیدا کی ہے۔ اس تشویش کا بڑا پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال دنیا کے ساتھ، خاص طور پر امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ عالمی مہمات میں شامل ہونا اور داخلی سطح پر دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کرنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے لئے اس میدان میں اپنی کارکردگی کو دہرانا ضروری ہے کیونکہ دہشت گردی کا مسئلہ اب بھی ملک کے استحکام کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ بلاول بھٹو جب وزیر خارجہ بنے تھے تو توقع کی جا رہی تھی کی نئی اتحادی حکومت میں شامل ہونے کے بعد یہ تسلسل جاری رہے گا ۔ اب ان حالات میں کہ ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال بھی انتہائی سنگین ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اور غربت جیسے مسائل عوام کو شدید مشکلات میں ڈال چکے ہیں۔ بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور لوگ حکومت سے امید کر رہے ہیں کہ ان مسائل کا کوئی حل نکلے گا۔ اس تناظر میں پیپلز پارٹی پر بھی یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ صوبائی سطح سے باہر نکل کر ملکی سطح پر عوام کو ریلیف دینے میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے باہر نکلیں۔
پاکستانی عوام کے لئے پیٹرول، بجلی، گیس اور دیگر یوٹیلیٹی سروسز کی قیمتوں میں اضافے نے زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ عوامی سطح پر موجودہ حکومت کے وعدوں اور کارکردگی کے درمیان پیپلز پارٹی اور موجودہ حکومت کے درمیان ایک واضح تضاد نظر آ رہا ہے۔ اس صورت حال میں پیپلز پارٹی کو اپنا واضح معاشی روڈ میپ پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو یقین دلایا جا سکے کہ ان کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ اور موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ معاشی روٹ میپ صرف تحریک انصاف کے لئے نہیں ہونا چاہیے بلکہ میثاق معیشت کا تصور ملکی کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ جڑا ہونا چاہیے ۔ پیپلز پارٹی آئینی عہدے لے کر اپنی ذمے داری سے بری الزمہ نہیں ہوسکتی ،پیپلز پارٹی کی قیادت کی سب سے بڑی ذمہ داری سیاسی سطح پر استحکام اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ ملک میں سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی نے قومی یکجہتی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی داخلی سطح پر صوبوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرتی ہے اور قومی سطح پر اتحاد و اتفاق قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ بھی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ مفاہمت کی سیاست کے سرخیل صدر آصف علی زرداری کا موجودہ حالات میں موثر کردار نہ کر سکنے کی اہلیت کو دوسرے معنوں میں تولا جارہا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اتحادی حکومت آہستہ آہستہ بکھر رہی ہے۔ سردار اختر مینگل کے بعد حکومت کی بڑی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے بار بار اٹھنے والے تحفظات کو نظر انداز کرنا مناسب نہ ہوگا ، اس ضمن میں پیپلز پارٹی اگر کسی گرین سنگل کا انتظار کر رہی ہے تو ملکی حالات اس قدر متوازن نہیں کہ پھر ایک نئے ایڈونچر کا بوجھ برداشت کر سکے ۔ اس وقت عوام یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ آیا پیپلز پارٹی کے پاس ایسی ٹیم موجود ہے جو ان چیلنجوں کا موثر طریقے سے مقابلہ کر سکے۔ یا صرف وہ حکمراں جماعت پر تنقید برائے سیاست کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف، جو آئینی طور پر ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں، ان کے سامنے مسائل کے پہاڑ ہیں، حکومت کے حمایت یافتہ اتحادی ہونے کی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ہی سہی پیپلز پارٹی کو اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہاں ایک یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا شہباز شریف اور آصف علی زرداری کی قیادت کے درمیان توازن موجود ہے یا زرداری صاحب کی سیاسی قد آور شخصیت پس منظر میں کسی حد تک شہباز شریف کے کردار کو محدود کر رہی ہے۔
خارجہ پالیسی کے اہم پہلوئوں میں کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ کئی سالوں سے پاکستانی عوام اور کشمیری عوام مسئلے کے حل کی منتظر ہیں جو خطے میں دیرپا امن قائم کرے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت کو نہ صرف اس مسئلے پر ٹھوس موقف اختیار کرنا ہوگا بلکہ بین الاقوامی فورمز پر اس کی بہتر نمائندگی بھی کرنی ہو گی۔ ملک کے اندر صحت، تعلیم اور تخفیف غربت جیسے اہم شعبے بھی فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ عوام کو بہتر علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی اور تعلیمی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان ہونا ضروری ہے تاکہ عوام کو ان اہم خدمات تک رسائی ممکن ہو سکے۔ انہیں بغیر وقت ضائع کئے پیپلز پارٹی کی قیادت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج رکھنا ہوگا کہ وہ اپنی حکمت عملی اور پالیسیوں کو واضح اور شفاف انداز میں عوام کے سامنے پیش کریں۔
عوام توقع کرتے ہیںکہ اتحادی حکومت جلد از جلد ان مسائل کے حل کے لئے اپنا جامع روڈ میپ عوام کے سامنے لائے، جس میں داخلہ و خارجہ پالیسی، اقتصادی اصلاحات، اور دیگر اہم شعبوں میں اپنے کردار کو واضح کرے گی۔ ملک اس وقت سنگین دور سے گزر رہا ہے، اور پیپلز پارٹی کی قیادت سمیت مسلم لیگ ن اور دیگر اتحادی جماعتوں سے عوام کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ ان امیدوں پر پورا اترنے کے لئے ضروری ہے کہ اتحادی جماعتیں آپس میں مل بیٹھ کر عملی اقدامات اٹھائے اور ایک نئے اور روشن پاکستان کے لئے راہیں ہموار کرتے ہوئے کنفوژن دور کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button