Column

مسافر

 

علیشبا بگٹی

ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے کو مسافر کہتے ہیں۔ انسان اس دُنیا میں مسافر ہے۔ کیونکہ ہر انسان نے ایک دن مر کر اگلے جہاں جانا ہے۔
امام شافعیؒ اپنے ہاتھ میں ہمیشہ عصا رکھتے تھے۔ آپؒ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ ضعیف تو ہے نہیں۔ پھر عصا کیوں رکھتے ہیں؟ آپؒ نے فرمایا کہ میں عصا اس لئے رکھتا ہوں تاکہ مجھے یاد رہے کہ میں مسافر ہوں۔
کچھ لوگ ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور ان کے گھر کا ساز و سامان دیکھا جو بہت ہی معمولی تھا۔ انہوں نے بزرگ سے عرض کیا۔ آپ کا گھر تو ایسا ہے۔ گویا مسافر کا گھر ہو۔ اُس نے کہا۔ میں سفر کرنے والا نہیں ہوں۔ بلکہ میں یہاں سے دھکے دے کر نکالا جائوں گا۔
ایک شخص حضرت ابوذرؓ کے پاس آیا۔ اور کہنے لگا اے ابوذرؓ۔ آپ کا سامان کہاں ہے؟ آپؓ نے فرمایا۔ ہمارا ایک گھر ہے، ہم وہاں توجہ دیتے ہیں۔ سارا سامان بھی وہاں مہیا کیا ہے۔ اس نے کہا جب تک اس مکان میں قیام رہے کچھ تو سامان ضروری ہے۔ آپؓ نے فرمایا۔ صاحب منزل ہمیں یہاں نہیں رہنے دے گا۔
شاعر کہتا ہے:
خود پکارے گی جو منزل تو ٹھہر جائوں گا
ورنہ خوددار مسافر ہوں گزر جائوں گا
آندھیوں کا مجھے کیا خوف میں پتھر ٹھہرا
ریت کا ڈھیر نہیں ہوں جو بکھر جائوں گا
یہ دُنیا ایک مسافر خانہ ہے۔ اور زندگی ایک سفر ہے۔ اس سفر کے راستے میں بہت سے سپیڈ بریکر اور موڑ یعنی ٹرننگ پوائنٹس ہیں۔ یہی سپیڈ بریکر مسافر کی رفتار کو کم کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں اور یہی موڑ ہیں، جو مسافر کو کنفیوز کرتے رہتی ہیں۔ اس سفر میں طرح طرح کے مسافروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ جس میں کچھ اچھے لوگ اور زیادہ تر برے لوگ ہوتے ہیں۔ اس سفر میں ذرا سی خوشیاں تو بہت سی پریشانیاں بھی آتی ہیں۔ لیکن بہادر اور حوصلہ مند مسافر کبھی ہار نہیں مانتا وہ اس مشکل بھرے راستے میں اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ وہ پریشانیوں سے بھاگتا نہیں بلکہ جم کر مقابلہ کرتا ہے۔ اس کے چہرے پر کبھی مایوسی نہیں ہوتی۔ زندگی کے اس سفر میں کبھی عروج تو کبھی زوال۔ کبھی خوشی تو کبھی غم۔ کبھی دکھ تو کبھی سکھ آتا رہے گا۔ یہ تو زندگی کا ایک حصہ ہے۔ کبھی کبھی ایسے بھی لگتا ہے۔
جیسے شعر میں ہے کہ
ڈھُونڈتا پھرتا ہوں اے اقبالؒ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں
زندگی کے سفر میں بس مسافر کی نگاہ منزل مقصود پر ہونی چاہیے۔ انسان منزل تک پہنچتے پہنچتے سفر میں بھی بہت کچھ کھو دیتا ہے۔
جیسے شعر ہے کہ
منزل کو خبر ہی نہیں
سفر نے کتنا کچھ چھینا ہے ہم سے
اور انسان کی منزل مقصود بھی دور ہے۔ اس لئے اپنی زندگی کے سفر کو کامیاب بنانے کے لئے راتوں کو اٹھ کر دعائیں کرنا بہت ضروری ہے۔
شعر ہے کہ
جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے
زندگی کے سفر کا اختتام آخر موت ہے، کتاب ’’ موت کے فرشتے سے ملاقات‘‘ میں نظم ہے۔
دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
طے کر رہا ہے جو تو دو دن کا یہ سفر ہے
جب سے بنی ہے یہ دنیا لاکھوں کروڑوں آئے
باقی رہا نہ کوئی مٹی میں سب سمائے
اس بات کو نہ بھولو سب کا یہی حشر ہے
دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
آنکھوں سے تو نے اپنے کتنے جنازے دیکھے
ہاتھوں سے اپنے تو نے دفنائے کتنے مردے
انجام سے تو اپنے اتنا بے خبر کیوں ہے
دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
یہ اونچے اونچے محل کچھ کام کے نہیں ہیں
یہ عالی شان بنگلے کچھ کام کے نہیں ہیں۔
دو گز زمین کا ٹکرا چھوٹا سا تیرا گھر ہے
دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
مخمل پہ سونے والے مٹی پہ سو رہے ہیں
شاہ گدا یہاں پہ سب ایک ہو رہے ہیں
دونوں ہوئے برابر یہ موت کا اثر ہے
دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
مٹی کے پتلے تو نے مٹی میں ہے سمانا
اک دن یہاں تو آیا اک دن یہاں سے جانا
رہنا نہیں جہاں پر جاری تیرا سفر ہے
دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
اے فانی عرفاں، اپنے مولا سے دل لگا لے
کر لے رب کو راضی، کچھ نیکیاں کما لے
ساماں تیرا یہی ہے تو صاحب سفر ہے
دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
طے کر رہا ہے جو تو دو دن کا یہ سفر ہے
مسافر کو پردیسی بھی کہتے ہیں۔ اور پتہ نہیں کیوں کچھ وقتوں سے بی ایل اے والے بلوچستان میں سڑکوں پر کوچوں کو روک کر لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کر کے پنجاپیوں کو قتل کر رہے ہیں جبکہ بلوچ تو ایک مہمان نواز اور بہادر قوم ہے وہ مسافر اور کمزور پر ہاتھ نہیں اٹھتا ہے۔ یوں بھی کسی بیگناہ کا ناحق قتل کسی بھی صورت جائز نہیں۔
ویسے بھی ہم سب ریلوے پلیٹ فارم پہ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی ٹرین کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں جو ہمیں نامعلوم منزل کی طرف لے جائے گی۔
نیک لوگوں کی روح جسم سے نکلنے کے بعد علییّن میں اور بدکار لوگوں کی روح سجیّن میں چلی جاتی ہے۔ بس مسافر کی یہی کہانی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button