Column

سیاستدان سبق سیکھیں، ادارے ’’ دارا‘‘ نہیں دربان بنیں، دائرے میں رہیں

راجہ شاہد رشید
سیاست نام ہے ادب و شائستگی، علم و دانش و حکمت و حکومت کا، سیاست سلسلہ ہے مثبت سوچ و افکار اور سچائی و سر بلندی کا۔ انسانیت کی بھلائی، شعور کی بیداری اور مساوات و انصاف کے نظام کے نفاذ کا نام ہے سیاست ۔ سیاست نام ہے اعلیٰ علمی و ادبی، خالص اسلامی روایات و اقدار کا اور سیاست کام ہے اہل ادب و فکر و فلسفہ ، اہل عقل و عمل، مبلغین، دانشوروں، علماء و صوفیاء کا کیونکہ سیاست امن ہے، ایمان ہے، دیانت ہے اور دینیات ہے سیاست ۔ سیاست عبادت و خدمت اور اخلاص و محبت و اخلاقیات ہے سیاست لیکن اب تو چنگیزی ہی رہ گئی ہے۔
بقول اقبالؒ کے ، جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔
جی ہاں یہ چنگیزی ہی تو ہے کہ بڑے بڑے محلات بنگلوں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے تو سونے کے نوالے لیتے ہیں جبکہ ایک عام انسان پینے کے لیے صاف پانی کو ترستا ہے اور کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی کو روتا ہے ۔ بنیادی تعلیم یہاں بیچی جاتی ہے اور وہ بھی بہت ہی مہنگی، سرکاری ہسپتالوں میں علاج نہیں سکولوں میں تعلیم نہیں ، مہنگائی و غربت ہے ، بھوک بے روزگاری ہے روزگار نہیں، اولادوں کا کوئی مستقبل نہیں رہا بچے دال روٹی روزگار تلاشنے بیرونی ممالک میں بھاگ رہے ہیں اور اس سب کے سب سے بڑھ کر ذمہ دار اور مجرم یہی مخلوق ہے جنہیں ہم ’’سیاستدان‘‘ سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ سیاسی پارٹیاں باری باری یہ الزام لگاتی رہی ہیں اسٹیبلشمنٹ پر کہ ہم تو مظلوم و معصوم ہیں یہ مقتدرہ ہی در حقیقت کرتا دھرتا ہے ، چلیں جی ان کی یہ بات درست مان لیتے ہیں کہ ادارے کوئی سکندر و دارا نہیں بلکہ دربان بن کر رہیں اور اپنے اپنے دائرے میں ہی رہیں لیکن سوال پھر یہ بھی تو پیدا ہوتا ہے کہ پہلے آپ جو بنے بیٹھے ہیں سیاستدان ، آپ سبق سیکھیں، کیوں رات کی تاریکی میں ملاقاتیں کرتے ہیں، جن پر الزامات لگاتے ہیں ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ فرماتے ہیں، خوشامد کرتے ہیں پھر آسرے لیتے ہیں بیساکھیوں کے ، جی جی جناب ! کرم کیجیے ہمارا آپ کے سوا کوئی سہارا نہیں ہم ’’ بندے کے پُتر بن کر‘‘ نوکری کریں گے آپ کی خدارا ہمیں نواز دیں وغیرہ وغیرہ ۔ صد افسوس و ماتم کے اس بار ماہ اگست میں غریب پاکستانی دل دل پاکستان پکارنا بھی بھول گئے، ہر زبان بول رہی تھی کہ بل بل پاکستان ۔ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اور جسے ہم سب سیاست سمجھ رہے تھے اسے جھوٹ و منافقت ، بے شرمی و ذلالت ، جگ ہنسائی و ندامت ، بے حیائی غلاظت تو کہہ سکتے ہیں لیکن سیاست نہیں کہہ سکتے ، درحقیقت یہ سیاست نہیں عالمی سامراج کی ملازمت ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ، یہ برائے نام سیاستدان کسی اکھاڑے کے پہلوان یا کسی لاری اڈے کے پردھان لگتے ہیں ، بنارسی ٹھگ ، جیرا بلیڈ ، اور تیس مار خان لگتے ہیں ۔ ان سیاسی جماعتوں میں بھرتیاں تقریباً بند ہی رہتی ہیں اور جب کبھی ہوتی بھی ہیں تو صد فی صد سفارش و رشوت کی بنیاد پر ہوتی ہیں ۔ دل خون کے آنسو روتا ہے جب سیاسی جلسوں میں ان نالائق لیڈروں کو بھولے بھالے لوگوں کو لیکچر دیتے دیکھتا ہوں تو اور حیرت ہوتی ہے جب اردو نیوز ٹی وی چینلز پر تجزیے و تبصرے سنتا ہوں ان’’ سلطان‘‘ صحافیوں کے جنہیں اردو یا دیگر پاکستانی زبانیں بولتے ہوئے شرم آتی ہے اور یہ ’’ کالے پیلے غلام‘‘ انگریز نوکر انگریزی بول کر ’’ ٹائم ٹپاتے‘‘ ہیں ۔ ان نااہلوں کو تو گورے چوکیدار چپڑاسی بھی نہ رکھیں اور دکھ تو اس بات کا بھی ہے کہ ہمارے ایسے مفکر و محقق ، دانشور و ادیب ، محنتی و ذہین مگر سائلین اس ضمن میں اپنے تجربات آنکھوں دیکھے حالات و مشاہدات بھی مکمل طور پر شیئر نہیں کر سکتے اپنے کالم ’’ شہادت‘‘ میں ۔ میرے دیس کی سیاست و صحافت میں وہی دیانتدار و سمجھدار اور وفا شعار و باوقار لوگ ہی پیچھے رہ جاتے ہیں جن کے پیچھے کوئی نہیں ہوتا ۔ یہاں کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں کسی شریف اور مخلص و ہمدرد آدمی کی کوئی پہچان و قدر نہیں ہے ، میں آپ کو جگ بیتیاں ہی نہیں بلکہ تن بیتیاں بھی بتلا رہا ہوں ۔ پرانی بات ہے جب مجھے حکومتی عہدوں کی آفر ہوئی پھر مرکزی عہدے کے ساتھ ایک بڑی سیاسی پارٹی میں شمولیت کی دعوت بھی ملی مگر میں بخوبی جانتا تھا کہ وہاں ورکروں کی صدا نہیں سنی جاتی بس سوداگروں اور سرداروں کا راج ہے اور بحیثیت راجپوت مجھ سے یہ نوکری نہیں ہوگی ۔ کافی عرصہ بعد پھر جب میں ٹھوکریں کھا کھا کر کچھ سنبھلا تو مجھے خیال آیا کہ اظہار رائے کے لیے بھی مجھے ضرور کسی بڑے سیاسی یا صحافتی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے ۔ مجھے ہر سال 27دسمبر کے ارد گرد بینظیر پارٹی میں بھرتی ہونے کو دل کرتا ہے لیکن دل کی باتیں دل میں ہی رہ جاتی ہیں کہ زرداری صاحب ہمارے لیے کیسے وقت نکال پائیں گے اور کسی صوبے کا نائب صدر بننے سے بہتر ہے کہ رہنے ہی دیں ۔ علمی و فکری و اسلامی لٹریچر چھاپنے اور بانٹنے کے حوالے سے میرے ملک کی کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے طرز و لیول پر آج تک کام نہیں کر سکی ۔ جماعت اسلامی کو چھوڑ کر کسی اور سیاسی جماعت کے اندر جمہوریت نہیں جو جمہوریت کے دعویدار اور جھوٹے سالار ہیں ۔ فکر مودودی اور الخدمت کی گراں قدر خدمات سامنے آتی ہیں تو جماعت اسلامی میں جانے کی سوچ دستک دیتی ہے مگر جماعت اسلامی کی کسی بھی قیادت نے کبھی بھی ہمارے ایسوں سے سلام دینا لینا تک بھی پسند نہ فرمایا سوائے قاضی حسین احمد مرحوم اور لیاقت بلوچ کے ۔ اس سب کے باوجود بھی میں ہار ماننے والا نہیں کیونکہ منزل ملے نہ ملے اُمید مرتی کب ہے اور آس ٹوٹتی کب ہے۔ مشاہدات و مشاورت و ملاقاتیں جاری رہتی ہیں رکتی کب ہیں ۔ بہت سی اہم شخصیات سے اگلے دنوں میری ملاقاتیں ہونی ہیں ۔ ان میں تین لوگ ایسے بھی ہیں جو سیاست سے ہی روٹھے بیٹھے ہیں ، ایک بے نظیر بی بی کی بہنوں جیسی ہمراز دوست و سابق پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان ہیں ، دوسرے صداقت عباسی ہیں جو گزشتہ دنوں ایک تقریب میں ملے تو میں نے ان کا درد ان کی آنکھوں میں دیکھ لیا چہرے پر پڑھ لیا، مجھے کہنے لگے کہ راجہ صاحب ! آپ سے طویل ملاقات چاہتا ہوں پھر مفصل سنیے گا اور لکھیے گا میری داستانِ درد اور تیسرے ہیں میرے پیارے بھائی اور فیورٹ ڈیبیٹر فواد چودھری جن سے چند دن قبل بات ہوئی تو وہ مجھے ایک نئے فواد معلوم ہو رہے تھے۔ فواد چودھری کا انداز تکلم مثالی ہے اور وہ شعبہ انفارمیشن و کوارڈینیشن میں اپنا کوئی ثانی رکھتے ہیں نہ ثالث۔ وہ ہمیشہ عمدہ، منفرد اور مدلل بات کرتے ہیں ۔ ایک بار کسی ٹی وی ٹاک شو میں طلال چودھری کو کہنے لگے کہ طلال ! ناراض مت ہونا خدارا تم تھوڑے جھوٹ بولا کرو ، یار ! اب تو مائیں بچوں کو یہ کہہ کر ڈرانے لگی ہیں کہ بیٹا ! اگر تم نے بہت ہی زیادہ جھوٹ بولے نا تو تمہاری شکل بھی طلال چودھری جیسی ہو جائے گی پھر کیا کرو گے۔ اچھی بات ہے طلال چودھری صاحب نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا، سب سہہ گئے اور ہنسی مذاق میں ٹال گئے، مطلب آگے سے کوئی ’’ تنظیم سازی‘‘ نہیں کی، وہ اتنی سخت بات کو بھی کڑوی گولی جان کر کھا پی گئے کہ یار کہتا تو سچ ہی ہے ہم لیگی لوگ بھی تو کمپنی کی مشہوری کے لیے اور اپنے ٹکٹ نوکریاں پکی کرنے کے لیے ہر حد اور سرحد چھوڑ جاتے ہیں۔
راحت اندوری کے الفاظ میں:
گھر کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے
دروازے پہ لکھا ہوا ہے ، سچ بولو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button