Ali HassanColumn

ایوب خان کی تقرری پر اعتراض کیا گیا تھا

علی حسن
محمد اعظم خان ، لیفٹنٹ جنرل ( ریٹائرڈ) سابق مارشل لا ایڈ منسٹریٹر منی مارشل لا ء لاہور سابق گورنر مشرقی پاکستان 1958ء میں ایوب خان کے نافذ کردہ مارشل لا میں ایوب خان کے نہایت ہی قریبی اور قابل اعتبار ساتھی ہونے کے باعث بعض کہانیاں ان سے بھی منسوب ہیں۔ اعظم خان کو مشرقی پاکستان کی گورنری ( اپریل 1960ء سے مئی) کے دوران وہ شہرت نصیب ہوئی جو پاکستان میں سول انتظامیہ کے شاید ہی کسی دوسرے فرد کو نصیب ہوئی ہو۔ لیکن ان کی یہی شہرت ایوب خان سے ان کے اختلافات کا سبب بنی۔ گورنری سے مستعفی ہونے کے بعد ان کے اور ایوب خان کے درمیان اختلافات کی خلیج اتنی طویل ہوئی کہ 1965ء کے صدارتی انتخابات میں اعظم خان ایوب خان کی مخالف امیدوار مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے کیمپ میں جا کھڑے ہوئے۔ اعظم خان جب اپنے زمانے میں فوج کے پہلے کور کمانڈر تھے۔ پاکستان میں پہلے منی مارشل لاء کا نفاذ انہوں نے ہی کیا تھا، وہ کہتے تھے کہ مجھے تو ریٹائر کیا گیا تھا۔ میں خود اپنی مرضی سے ریٹائر نہیں ہوا تھا۔ میں تو اس وقت جوان تھا۔ لیکن ایوب نے ریٹائر کر دیا۔ یہ اپریل 1960ء کی بات ہے۔ میں اس فیصلے سے بڑا نا خوش تھا۔ میں فوج میں نوکری کرنا چاہتا تھا۔ میری عمر اس وقت صرف سال تھی میں مزید دس سال نوکری کر سکتا تھا۔ میں فوج میں رہنا چاہتا تھا میں جنرل یوسف کے بعد کمانڈر انچیف ہوتا۔ ایوب نے عجیب کام کیا کہ ایک ڈکلیریشن کیا کہ وہ صرف آئی سی او کو چارج دے گا۔ اس نے ہمارا گلہ کاٹ دیا۔ یہ ظلم کیا۔ اس نے بڑے غلط کام کئے اور ایک دفعہ غلط کام ہو جائے تو ہو تا رہتا ہے۔ آئی سی او، وہ افسران جو انڈیا میں کمیشن ہوئے تھے۔ جنرل ایوب کو یہ ڈیکلریشن دینے کا اختیار اور حق نہیں تھا۔ ایوب نی یوسف کو نکلوایا کیونکہ اس نے ایوب کو دی جانے والی توسیع کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ یہ ساری مصیبت اس وقت شروع ہوئی جب ایوب نے اپنے کے لئے سوچا۔ جنرل یوسف آرمڈ کور میں تھا، قابل افسر تھا۔ پہلے میں اکیلا تھا بعد میں دوسرا کور کوئٹہ میں بنایا گیا تھا۔
ہمیں جہلم میں حکم ملا تھا کہ رات کو بارہ بجے سے مارشل لاء ( منی مارشل لائ) نافذ کیا جارہا ہے۔ میں جہلم سے لاہور کے لئے روانہ ہو گیا تھا اور صبح چار بچے لاہور پہنچا تھا۔ اور میں نے ہی گورنر وزیر اعلیٰ چیف سیکرٹری کو مطلع کیا تھا کہ مارشل لا نافذ کر دیا گیا ہے اور اب ہر چیز میرے ماتحت ہے۔ جب اعظم خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو خود ایوب خان نے محسوس کیا یا لوگوں نے انہیں یہ باور کرایا۔ لوگ ضرور ہوں گے جنہوں نے کہا ہو گا کہ اعظم مقبول ہو رہا ہے۔ آپ کو پتہ ہے، خوشامدی کیا کرتے ہیں۔ یہاں ساری تباہی خوشامدیوں sycophantنے لائی ہے۔ اوپر والا خوش ہوتا ہے کہ اس کے خوشامدی ہیں بجائے اس کے ایسے لوگوں کو تھپڑ مار کر نکالے۔ ایوب کو تو خوشامدیوں نے تباہ کیا تھا۔ ہر کسی کی تباہی خوشامدیوں کی وجہ سے آئی ہے۔
سلیکشن کا سوال نہیں ہے۔ ایوب نے تبدیل کر دیا۔ ہم تو فوج سے ریٹائر ہو چکے تھے۔ جب مجھے گورنر کی حیثیت سے جانا پڑا تو کہا گیا فوج سے استعفیٰ دے دو۔ دو عہدے ایک ساتھ نہیں رکھے جاسکتے۔ میں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا، کوشش کی کہ فوج سے استعفیٰ نہ دیں، میں نے ایوب سے کہا کہ تمہارے دل میں جو باتیں ہیں میں سمجھتا ہوں، میں ہر وقت استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہوں، میں نے کہا کہ میں اپنی وردی نہیں اتاروں گا۔ جواب میں کہنے لگا کہ پھر دونوں جگہ کام کس طرح چلے گا۔ میں نے کہا کیسی باتیں کرتے ہو۔ یہ پابندی کیوں لگاتے ہو۔ میں نے تو پہلے ہی سول سے استعفیٰ دینے کے لئے کہہ دیا تھا لیکن پوری کابینہ نے مجھے مجبور کیا۔
پھر پوچھنے لگے پوچھا گیا کہ کہ اپنا ( پاکستانی) کمانڈر انچیف مقرر کرنے کے لئے ہمیں کم از کم کتنا وقت درکار ہو گا میں نے کہا اٹھارہ مہینے اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ انہیں انگریزوں نے کہا تھا کہ پندرہ سال کا عرصہ در کا ہو گا۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ آپ لوگ یہی کہیں گے۔ اس کے بعد پھر چند دنوں بعد مجھے نواب گورمانی نے بلایا اور کہنے لگا کہ بھیا تم نے تو ایسا کام کیا ہے جو ہم اسکو بہت عرصے سے کہہ رہے تھے کہ انگریزوں کو نکالو تو کشمیر ملے گا۔ یہ نہیں جانتے تھے اور کہتے تھے۔ کہ انگریزوں کے بغیر کام کیسے چلے گا۔ راولپنڈی میں ایک اجلاس کیا جس میں سب پاکستانی افسروں سے پوچھا دو تین افسروں کے علاوہ سب نے وہ ہی بات کی جو آپ نے کی تھی۔ میں نے کہا کہ ڈپٹی کمانڈر انچیف بنا جتنے بڑے بڑے شعبے ہیں ان سب میں دو دو مہینہ رہے۔ بنیادی طور پر تربیت یافتہ افسر ہوتا ہے اسکو تجربہ ہوتا ہے۔ پھر کہے گا بھی دیکھو یہ تین نام ہیں ایک رضا ہے اور دوسرا نا صر ہے تیسرا ایوب ہے۔ ان تینوں میں کون ہونا چاہئے ۔ ان تینوں کی سینیارٹی برابر تھی۔ تینوں کی ایک جیسی سینیارٹی تھی۔ ایوب خان کا اس وقت رینک میجر جنرل تھا۔ ہاں تینوں میجر جنرل تھے نہیں دو میجر جنرل تھے ایک لیفٹنٹ جنرل تھا۔ انگریز ہائر رینک میں تھے۔ تینوں کو تجربہ تو تھا لیکن رضا جو تھا وہ اسکندر مرزا کی طرح پولیٹیکل محکمہ میں تھا۔ ناصر جو تھا زیادہ تر اسٹاف لائن میں تھا۔ جنرل اکبر جس کا تعلق کراچی میں پہلے ڈویز مین تھا۔ وہ کور کمانڈر تھا لیکن اس کا رینک میجر جنرل تھا۔ راولپنڈی والا جنرل اکبر کیولری کا افسر تھا۔ یہ دوسرا تھا۔
توسیع کسی بھی حالت میں بہتر فیصلہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ ایک قسم کی نیچے والے افسروں کے ساتھ ( بے انصافی ) ہوتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ میں نے سلیکشن کا کوئی طریقہ دیکھا ہے یا کون سا طریقہ ہے۔ چیف کی تقرری کے لئے اس کی ملازمت کی مدت اس کا تجربہ وغیرہ دیکھا جاتا ہے اور میرٹ پر تقرری کر دی جاتی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کے لئے اہلیت او اہمیت ہوتی ہیں جو بھی ہوں اس پر انہیں پورا اترنا چاہئے۔ حالات کے مطابق اس زمانے میں تجربہ اور قابلیت کی وجہ سے ایوب خان سینئر تھا اس وقت سکندر مرزا تھا اس نے اسے تبدیل کیا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ فوج میں پورا پورا انصاف ہونا چاہئے۔ جتنی بھی ترقیاں ہوں وہ میرٹ پر ہوں۔ وقت جو ہے وہ گزرتا جاتا ہے کسی بھی وزیر اعظم اور وزیر دفاع کو اس بات کو یعنی میرٹ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ کبھی ان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ ہم بھی اپنے عہدے سے چمٹے رہیں پھر وہ جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کر دیتے ہیں۔ وزیر اعظم یا وزیر دفاع اپنے بیٹھنے کی خاطر بھی ایسا کرتے ہیں؟ ایمبیشن پیدا ہو گئے جنہوں نے ملک کو ہی تباہ کر دیا۔ ایمبیشن یہ تھا کہ میں صدر بن جائوں سات سال تک۔ اسی سے ہی تباہی آگئی میں کہتا ہوں کہ ایمبیش آدمی تباہی لا سکتا ہے۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتا کہ ہر حال میں ایک مدت مقرر ہونی چاہئے اور کوئی توسیع نہیں ہونی چاہئے۔

جواب دیں

Back to top button