سی ایم رضوان
غالب دی گریٹ نے کہا تھا کہ ’’ غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست‘‘، یعنی دوست کی خوشبو سے دوست کی بو آتی ہے۔ ندیم کا مطلب ہے خوشبو۔ ان دنوں جبکہ پاکستان کے ارد گرد اور اندر باہر کہیں سے بھی خوشی کی خبر نہیں آ رہی تھی۔ ایسے خاموش اور اداس ماحول میں پاکستان کے عظیم جیولین تھروور ( نیزہ باز) ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس کے ان دنوں لگے میدان میں ایسا نیزہ پھینکا کہ نہ صرف اس میدان کا سوا سو سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا بلکہ پاکستان بھر میں جیت کی خوشبو پھیل گئی۔ پاکستان بھر میں آج ارشد ندیم کے شاندار استقبال کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری ان کا استقبال کرنے لئے بیتاب ہے کیونکہ اس وقت حکومت، اپوزیشن اور تمام مکاتیب فکر کے لوگ بھرپور خوشی اور مسرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ وطن عزیز کو نیزہ بازی کے میدان میں تاریخ ساز کامیابی حاصل ہوئی۔
خوش کن امر یہ بھی ہے کہ پاکستانی کھلاڑی ارشد ندیم اور انڈین کھلاڑی نیرج چوپڑا کی مائوں کی ایک دوسرے کے لئے پرخلوص دعائوں، نیک تمنائوں کا اظہار اور دل کو چھو لینے والے الفاظ سامنے آئے، نیرج کی والدہ سروج دیوی نے کہا کہ ہم چاندی سے خوش، جس کو سونا ملا وہ بھی ہمارا بیٹا ہے، ارشد ندیم کی والدہ رضیہ پروین نے بھی نیرج کو اپنا بیٹا قرار دیا اور کہا کہ وہ ندیم کا بھائی ہے، ہار جیت نصیب کی بات ہے، انڈین کھلاڑی کا اپنے وزیراعظم مودی کے سامنے ارشد کے ’’ تگڑے‘‘ ہونے کا اعتراف بھی سامنے آیا ہے، بھارتی وزیراعظم نے ان کی والدہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی والدہ نے اسپورٹس اسپرٹ دکھائی۔ مودی نے پیرس اولمپکس 2024میں مردوں کے جیولن میں چاندی کا تمغہ جیتنے پر نیرج چوپڑا کو مبارکباد دینے کے لئے کال کی۔ نیرج نے مودی سے اپنی مادری زبان ہریانوی لہجے میں کہا کہ ’’ مقابلہ کافی تگڑا تھا، ایسے میں میڈل لانا خوشی ہے‘‘۔ 32سال بعد پاکستان کو پہلا اولمپکس میڈل دلانے والے ارشد ندیم کی والدہ رضیہ پروین نے کہا کہ ارشد نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا، بیرون ملک سفر کرے گا، تمغہ جیت کر پاکستان کا سر فخر سے بلند کرے گا۔ یہ بھی باعث فخر ہے کہ پرانے آلات کے ساتھ تربیت اور اپنے بین الاقوامی حریفوں کے مقابلے میں روایتی جدید جم اور دیگر ضروری سہولیات تک محدود رسائی کے باوجود، ندیم نے 32سال میں پاکستان کا پہلا اولمپک تمغہ اور 40سالوں میں پہلا اولمپک گولڈ میڈل حاصل کیا۔ مقابلے کے دوران ندیم نے اپنی دوسری کوشش میں 92اعشاریہ 97میٹر کی شاندار تھرو سے ایک نیا اولمپک ریکارڈ قائم کیا جبکہ ان کے مدمقابل نیرج نے 89اعشاریہ 45میٹر کا تھرو دیا، جس سے انہیں چاندی کا تمغہ ملا۔ ٹوکیو 2020میں اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والا تھرو 87اعشاریہ 58میٹر تھا۔ جب نیرج چوپڑا نے پاکستانی حکومت سے ارشد کی مدد کرنے پر زور دیا تھا۔ مارچ میں، پیرس اولمپکس سے صرف پانچ ماہ قبل، نیرج چوپڑا نے پاکستانی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ارشد ندیم کی حمایت کرے۔ وہ حیران تھا کہ ندیم کو نیا جیولن حاصل کرنے میں دشواری ہو رہی تھی اور اسے یقین تھا کہ آلات بنانے والے اس کی مدد کر کے خوش ہوں گے۔ ندیم نے بتایا کہ وہ تقریباً سات آٹھ سال سے ایک ہی جیولین استعمال کر رہے تھے اور سامان اتنا بوسیدہ ہو چکا تھا کہ اب یہ اعلیٰ سطح کے مقابلے کے قابل نہیں رہا تھا۔ بہرحال نیرج فائنل میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے، جہاں وہ صرف ایک بہتر تھرو کرنے میں کامیاب ہوئے اور آخر کار ندیم کو اس کی تکنیکی کسمپرسی کے باوجود اعلیٰ کارکردگی پر تاج سونپ دیا گیا، یوں وہ بار سلونا 1992ء کے بعد پاکستان کے لئے پہلے اولمپک تمغہ جیتنے والے بن گئے۔ فائنل کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے، نیرج نے ارشد ندیم کو مبارکباد دی، یہ تسلیم کیا کہ یہ گزشتہ آٹھ سال میں جیولن مقابلے میں پاکستانی کھلاڑی سے پہلی شکست ہے۔ نیرج ارشد کے خلاف 2016ء سے مقابلہ کر رہے ہیں، پہلی بار اس سے ہاری ہیں۔ نیرج نے کہا کہ کریڈٹ واجب ہے، ارشد نے واقعی بہت محنت کی ہے اور وہ اس میں مجھ سے بہتر تھا۔ اسے مبارک ہو۔ ارشد ندیم نے بھی پریس کانفرنس میں کہا کہ میں اور نیرج چوپڑا جنوبی ایشیا سے ہیں پوری دنیا میں بہت اچھا پرفارم کر رہے ہیں۔ بڑی خوشی ہے، سابق ہندوستانی کرکٹر ہربھجن سنگھ نے کہا کہ نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم نے اپنے اپنے رویوں سے بتایا کہ کھیل سرحدوں کو کیسے عبور کر سکتے ہیں۔
ارشد ندیم کا تعلق میاں چنوں کے نواحی گائوں چک نمبر 101۔15ایل سے ہے۔ ان کے والد راج مستری ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی ہے۔ علاوہ ازیں مقامی صنعتکار خالد جمال، ارشد جمال اور وسیم صاحب کا ذکر بھی اس ضمن میں ضروری ہے کہ جنہوں نے ارشد ندیم جیسے عالمی ہیرو کی ماضی میں ہر طرح سے سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی ہے۔ جن کو آج اپنے علاقے کے عظیم کھلاڑی پر فخر محسوس ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ جس رات ارشد ندیم نے کامیابی حاصل کی اس شب ارشد کے بھائی شاہد ندیم رات بھر جاگتے رہے۔ گاں میں پوری رات آتش بازی اور جشن کا سماں رہا۔
یہ بھی یاد رہے کہ ارشد ندیم نے اس مقابلے میں جانے سے قبل رواں برس مارچ میں میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کے پاس ایک ہی بین الاقوامی معیار کی جیولن ہے جو اس وقت خراب حالت میں ہے۔ دوسری جانب ان کے حریف انڈیا کے نیرج چوپڑا کے لئے بھارتی حکومت نے ٹوکیو اولمپکس سے پہلے 177جیولن خریدے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس جیولن کی قیمت سات سے آٹھ لاکھ کے قریب ہے جس کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ارشد کے دوسرے بھائی شاہد ندیم بتاتے ہیں کہ انہیں یہ تو امید تھی کہ ان کا بھائی گولڈ میڈل لے گا لیکن انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ تاریخ بھی رقم کرے گا۔ اس یادگار مقابلے کے بعد دیگر دو کھلاڑیوں انڈیا کے نیرج چوپڑا اور تیسرے نمبر پر آنے والے گرینیڈا کے اینڈرسن پیٹرز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خود ارشد ندیم نے جیولن میں اپنے اب تک کے سفر کے بارے میں بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ نیرج کی طرح میں نے گاں سے شروعات کی اور پہلے کرکٹ کھیلی۔ میری کرکٹ کی گیم بڑی اچھی تھی۔ بہت اچھا بائولر تھا مگر پھر مجھے کرکٹ چھوڑنا پڑی۔ اسی طرح میری فٹ بال اور کبڈی کی گیم بھی بڑی اچھی تھی۔ بیڈ منٹن بھی کھیلی لیکن پھر سب چھوڑ کر سکول لیول پر اتھلیٹکس شروع کر دی اور مختلف کھیلوں میں قسمت آزمائی۔ ارشد بتاتے ہیں کہ اس وقت انہیں کرکٹ میں ہی آگے جانے کا شوق تھا مگر ان کا خیال تھا کہ کرکٹ میں آگے آ کر ٹیم میں نام اور جگہ بنانا بڑا مشکل تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ پھر ایک دن ان کے کوچ رشید احمد ساقی نے انہیں کہا کہ یار کوئی ایک کھیل پکڑو، تمہاری جسمانی ساخت اچھی ہے تم جیولن کی طرف آئو اور یوں ان کا ایتھلیٹکس کا سفر شروع ہوا۔ 2016ء میں گوہاٹی انڈیا میں نیرج کے ساتھ پہلے مقابلے میں انہوں نے 78.33کے ساتھ پاکستان کا ریکارڈ توڑا اور وہیں سے انہیں شوق ہوا کہ اگر محنت کروں تو آگے جا سکتا ہوں۔ ارشد ندیم کے کیریئر میں دو کوچز رشید احمد ساقی اور فیاض حسین بخاری کا اہم کردار رہا ہے۔ رشید احمد ساقی ڈسٹرکٹ خانیوال ایتھلیٹکس ایسوسی ایشن کے صدر ہونے کے علاوہ خود ایتھلیٹ رہے ہیں۔ وہ علاقے میں باصلاحیت ایتھلیٹس کی سرپرستی، حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہے ہیں۔ 2021ء میں رشید احمد ساقی نے بتایا تھا کہ ارشد ندیم جب چھٹی ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے، اُنہیں وہ اس وقت سے جانتے ہیں۔ اس بچے کو شروع سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔ اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔ رشید احمد ساقی کہتے ہیں میرے ارشد ندیم کی فیملی سے بھی اچھے مراسم ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن ان کے والد میرے پاس آئے اور کہا کہ ارشد ندیم اب آپ کے حوالے ہے، یہ آپ کا بیٹا ہے۔ میں نے ان کی ٹریننگ کی ذمہ داری سنبھالی اور پنجاب کے مختلف ایتھلیٹکس مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے بھیجتا رہا۔ وہ کہتے ہیں یوں تو ارشد ندیم شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو اور دوسرے ایونٹس میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن میں نے ان کے دراز قد کو دیکھ کر اُنہیں جیولن تھرو کے لئے تیار کیا۔ بہرحال اس کے بعد میں نے ارشد ندیم کو واپڈا کے ٹرائلز میں بھیجا جہاں وہ بطور اتھلیث سلیکٹ ہو گئے۔ ارشد ندیم شادی شدہ ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ اس حوالے سے رشید احمد ساقی نے بتایا کہ میں ارشد ندیم کو مذاقاً کہتا تھا کہ اولمپکس میں شرکت کا خواب پورا ہو جائے تو پھر شادی کرنا، لیکن آپ کو پتہ ہی ہے کہ گاں میں شادیاں کم عمری اور جلدی ہو جایا کرتی ہیں۔ ارشد ندیم کے دوسرے کوچ فیاض حسین بخاری ہیں جن کا تعلق پاکستان واپڈا سے ہے۔ وہ خود بین الاقوامی ایتھلیٹکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ فیاض حسین بخاری نے کہا تھا کہ ارشد ندیم سمجھدار ایتھلیٹ ہیں جو بہت جلدی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کام ایک عام ایتھلیٹ چھ ماہ میں کرتا ہے ارشد وہ کام ایک ماہ میں کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام ایتھلیٹ سے عروج پا کر وہ اب دنیا کے مایہ ناز نیزہ باز بن چکے ہیں۔ حکمرانوں میں اگر تھوڑی سی بھی شرم کی رتی ہوئی تو وہ اس عظیم ریکارڈ ہولڈر کی سرپرستی ضرور کریں گے۔