ColumnImtiaz Aasi

حکومت، جماعت اسلامی مذاکرات کامیاب

امتیاز عاصی
حکومت اور جماعت اسلامی کے مابین معاہدہ طے پا گیا ہے تاہم جماعت اسلامی نے دھرنا ایک ماہ کے لئے موخر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے دھرنا موخر کرتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا ہے اگر مقررہ مدت میں تمام مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو ان کا دھرنا پارلیمنٹ ہائوس تک جا سکتا ہے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم اور جماعت اسلامی کے مابین مذاکرات کا آخری دور دھرنے کے مقام پر ہوا۔ معاہدے کے مطابق ڈیڑھ ماہ میں بجلی سستی ، تنخواہوں پر ٹیکس میں کمی، آئی پی پیز معاہدوں کی جانچ پڑتال کے لئے ٹاسک فورس کا قیام اور جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے پر رضامند ہو گئی ہے جس کے بعد جماعت اسلامی نے دھرنا موخر کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر توانائی سردار اویس لغاری کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس نے ہوم ورکر مکمل کر لیا ہے۔ نوے کی دہائی میں آئی پی پیز سے کئے جانے والے معاہدوں کو ختم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔ وزیر توانائی کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس کا اجلاس روزانہ کی بنیاد پر ہوگا۔ مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو حد درجہ منظم ہے اس کے کارکن اپنے امیر کی آواز پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے مہنگائی کے مارے عوام میں سڑکوں پر نکلنے کا دم خم نہیں ہے اس کے باوجود جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمان کو اپنا منصب سنبھالنے کے ساتھ ایک بڑے امتحان کا سامنا تھا جس میں حق تعالیٰ نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ جماعت اسلامی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اسلامی جمعیت طلبہ جو جماعت اسلامی کے ہر اول دستہ کے طور پر سرگرم رہتی تھی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں طلبہ تنظیموں پابندی کے بعد جماعت اسلامی کو اس کی اصل قوت سے محروم ہونا پڑا ورنہ جس طرح امیر جماعت اسلامی نے عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے تحریک کا آغاز کیا تھا اسلامی جمعیت طلبہ ہوتی تو جماعت کی یہ تحریک کسی بڑی تحریک کی شکل اختیار کر سکتی تھی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس امر کی شاہد ہے سیاسی میدان میں طلبہ تنظیموں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کرنے والے طلبہ ہی تھے۔ ایوبی حکومت کے خلاف طلبہ کی تحریک نے اس قدر زور پکڑ ا ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ خاص طور پر راولپنڈی میں پولی ٹیکنک کے طالب علم جس کا تعلق ضلع اٹک کی تحصیل پنڈی گھپب سے تھا پولیس کے ہاتھوں اس کی ہلاکت نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اگرچہ ایوب خان متوفی طالب علم کے والدین کی اشک شوئی کے لئے اس کے آبائی گائوں پنڈی گھپب بھی گئے اور پانچ لاکھ روپے کی امداد دینے کے باوجود فوجی آمر کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ جماعت اسلامی ایک ایسے وقت میں عوام کے مسائل کی خاطر میدان عمل میں اتری جب تمام سیاست دان اقتدار کی خاطر جدوجہد میں لگے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے تحریک تحفظ آئین کی تحریک کا آغاز کیا جسے عملی طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اپوزیشن کا اتحاد بلوچستان کے سوا کہیں جلسہ نہیں کر سکا۔ دراصل سیاسی جماعتوں کو عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں ہے ورنہ حالات کا تقاضا تھا تمام سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کی خاطر جماعت اسلامی کا بھرپور ساتھ دیتی لیکن ہمارے ہاں ہر سیاسی جماعت نے ڈیڑھ انچ کی مسجد اپنی بنا رکھی ہے۔ سیاسی جماعتیں ملک اور عوام کے مسائل کے لئے مخلص ہوتیں وہ اپنے نظریات بالاتر ہوکر جماعت اسلامی کی اس تحریک کا ساتھ دیتی۔ بنگلہ دیش میں کیا ہوا، شیخ حسینہ واجد کو جبر و استبداد کی پالیسی کے تحت اقتدار میں رہ کر ایک روز وطن کو خیر آباد کہنا پڑا۔ ہم حق تعالیٰ سے سپاس گزار ہیں ہمارا ملک امن کا گہوارہ بنا رہے یہاں کے رہنے والے امن و سکون سے زندگی گزاریں اور ہمارا ملک ترقی کرتا رہے۔ حالا ت و واقعات سے پتہ چلتا ہے حکومت کا فوکس پی ٹی آئی کے بانی عمران خان پر ہے۔ اللہ کے بندوں عمران خان جیل میں ہے وہ جیل میں رہتے
ہوئے حکومت کے لئے کیا خطرہ بن سکتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو جلسوں کی عام اجازت دینی چاہیے وہ جلسہ کریں گے تو کیا جلسوں سے حکومت چلی جائے گی؟۔ عوام کو ان کے حق کے لئے جلسے اور جلسوں کی اجازت نہ دینے کے نقصانات کا حکومت کو اندازہ نہیں یہ لاوا پکتا پکتا ایک روز کسی بڑی تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کا کوئی کام چل رہاہے وہ طاقت ور حلقوں کے تعاون سے چلایا جا رہا ہے ورنہ موجودہ سیٹ آپ میں انہی پرانے چہروں کو بنا سنوار کر عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف ملک کے مقروض ہونے کا رونا رویا جا رہا ہے دوسری طرف اربوں روپے لگا کر دوبارہ الیکشن کا مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے بعض سیاسی رہنمائوں کو وتیرہ ہے وہ انتخابات میں کامیاب ہوجائیں تو الیکشن پر انگلی انہیں اٹھائیں گے اگر ناکام ہو جائیں تو انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیں گے۔ بلاشبہ ہمارے ہاں ہونے والے انتخابات کی غیر شفافیت پر کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں ہے سوال ہے ایک غریب ملک بار بار انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے؟ یہ بات سیاسی جماعتوں کے لئے باعث شرم ہے جماعت اسلامی نے عوام کے مسائل کے لئے تن تنہا جدوجہد کی جس میں انہیں کسی حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ سیاسی رہنمائوں کو عوام کے مسائل میں دل چسپی ہوتی تو تمام سیاسی جماعتیں یکجا ہو کر جماعت اسلامی کے شانہ بشانہ دھرنوں میں شریک ہوتیں۔ حقیقت یہ ہے حکومت میں کوئی اہلیت ہوتی تو جن مسائل کے لئے جماعت اسلامی اپنی توانائیاں صرف کر رہی ہے حکومت کو از خود حل کرنے چاہیے تھے۔ بنگلہ دیش کی طرف نظر ڈالیں تو حالیہ انقلاب میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کا اہم کردار ہے۔ حکمرانوں کو بنگلہ دیش کے انقلاب سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے جہاں طلبہ تنظیم کی مدد سے ایسا انقلاب برپا ہوا جو سب کچھ بہا کر لے گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button