شیخ حسینہ واجد کا عروج و زوال
امتیازعاصی
بنگلہ دیش کی پانچ مرتبہ وزیراعظم رہنے والی اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھنے والے شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی کے اقتدار کو زوال کیوں آیا۔ وہ کون سی وجوہات تھیں شیخ حسینہ واجد کو ملک چھوڑنا پڑا۔ حسینہ واجد کے بیٹے کا دعویٰ ہے اس کی والدہ نے ملک کو ترقی دی اور معاشی طور پر مستحکم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔1971 ء کی جنگ کے دوران قربانیاں دینے والوں کی آل اولاد کو سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ دینے کے باوجود بنگلہ دیش کے بانی کی جماعت عوامی مسلم لیگ کی حکومت کو کیوں زوال آیا۔ جہاں تک بنگلہ دیش کے قیام کی بات ہے اس کی بنیاد اسی روز رکھ دی گئی تھی جب شیخ مجیب الرحمان کو ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود وزارت عظمیٰ سے محروم رکھ گیا۔ پھر جلتی پر تیل نے کام کیا شیخ مجیب الرحمان سمیت مغربی پاکستان کے سیاست دانوں ولی خان، سردار عطاء اللہ مینگل، سردار شیر باز مزاری اور سردار خیر بخش مری کے علاوہ دیگر سیاسی رہنمائوں کو اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے لئے حیدر آباد ٹریبونل قائم کیا گیا۔ بھٹو حکومت کی برطرفی کے فورا بعد جنرل ضیاء الحق نے ان تمام سیاسی رہنمائوں کو رہا کر دیا جنہیں اگر تلہ ساز ش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اگرچہ ملک کو دو لخت کرنے کا الزام بعض اداروں پر لگایا جاتا ہے مگر سیاسی رہنمائوں کو اس معاملے میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاتا سکتا۔ تاریخ کا جبر دیکھئے اسی شیخ مجیب الرحمان، جس نے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی تھی اپنی فوج کے ہاتھوں خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مارا گیا۔ شیخ حسینہ واجد حصول تعلیم کے لئے ملک سے باہر تھیں اس لئے وہ بچ گئیں اور ایک طویل عرصے تک ملک کی باگ دوڑ سنبھالے رکھی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے حالات میں فرق یہ ہے وہاں طلبہ تنظیمیں سرگرم ہیں جب کہ ہمارے ہاں طویل عرصے سے طلبہ تنظیموں پر پابندی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ملک میں جب کبھی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا طلبہ تنظیموں نے اس میں فعال کردار ادا کیا۔ ایوب حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کرنے والے طلبہ ہی تھے، پھر وقت کے ساتھ یہ تحریک سیاسی جماعتوں تک پھیل گئی اور ایوب حکومت کو ختم کر دیا گیا۔ اگرچہ بنگلہ دیش کے قیام میں جدوجہد کرنے اور اپنی جانوں کے نذارانے دینے والوں کی نسلوں کو سرکاری ملازمت دینے میں اچھا خاصہ کوٹہ رکھا گیا تھا لیکن وہاں کی نوجوان نسل کا یہ مطالبہ اپنی جگہ درست تھا آخر کب تک ان لوگوں کو ملازمتوں میں کوٹہ ملتا رہے گا جن کے بڑوں نے بنگلہ دیش کے قیام میں قربانیاں دیں۔ شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے زوال کی ایک اہم وجہ یہ تھی عوامی لیگ کے دور میں جماعت اسلامی کے لوگوں پر بے پناہ مظالم ڈھانا تھا جس میں جماعت اسلامی کے کئی سرکردہ لوگوں کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ بنگلہ دیش کے موجودہ حالات میں وہاں کی افواج کسی حد تک غیر جانبدار رہی اور احتجاج کرنے والوں پر گولی چلانے سے انکار کیا۔ ہاں البتہ وہاں کی فوج حکومت کا ساتھ دیتی تو حسینہ واجد کچھ عرصہ تک اقتدار میں رہ سکتیں تھیں لیکن وہاں کی فوج نے حکومت کے خلاف بغاوت میں اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا۔ سوال ہے کسی ملک کی افواج کسی حد تک حکومت کا ساتھ دے سکتی ہیں جب عوام کا سمندر کسی حکومت کے خلاف امڈ آئے تو اس کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ دراصل اقتدار میں آنے کے بعد بعض سیاسی رہنمائوں کا مقصد عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے مخالف قوتوں کو کچلنا ہو تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے جس کا سامنا بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو پڑا۔ ریاست پاکستان کے حالات کچھ اسی طرح کے ہیں جہاں عوام کو معاشی مسائل درپیش ہیں وہاں سیاسی عدم استحکام بھی ہے۔ ذریعہ معاش ہر دور کی ضرورت ہے بنگلہ دیش سے ملتے جلتے حالات کچھ نہ کچھ ہمارے ہاں بھی ہیں سرکاری ملازمتوں اور خصوصا سول سروسز میں کوٹہ میں اضافے نے قابل ترین نوجوانوں کا استحقاق مجروح کیا ہے۔ بغیر مقابلے کا امتحان پاس کئے سول سروس میں آنے سے ذہین نوجوانوں کی حق تلفی ہے۔ بنگلہ دیش میں عوامی انقلاب کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے وہاں کی قریبا تمام سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف صف آراء تھیں جنہیں طلبہ تنظیموں کی بھرپور سپورٹ حاصل تھی چنانچہ انہی وجوہات کی بنا وہاں کی فوج نے عوام پر گولی نہیں چلائی بلکہ اپنے آپ کو الگ تھلگ کرکے حب الوطنی کا ثبوت دیا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں عوام کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں متحد نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتی ہیں۔ ایک جماعت اسلامی ہے جو تن تنہا لوگوں کے گوناگوں مسائل کی خاطر میدان عمل میں آئی ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں دھرنوں کے بعد اب اس نے راولپنڈی سے فیض آباد کی طرف دھرنا مارچ کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد مطالبات تسلیم نہ کرنے کی صورت میں اس کا آخری پڑائو اسلام آباد میں ڈی چوک پر ہوگا۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی نہ ہوتی تو جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم عوامی مسائل کی اس جدوجہد میں جماعت اسلامی کا بھرپور ساتھ دیتی۔ گو بنگلہ دیش کے عوام نے حسینہ واجد کی جبرو استبداد کی حکومت سے نجات حاصل کر لی ہے تاہم شیخ حسینہ واجد کے دور میں بنگلہ دیش نے جو ترقی کی اس کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے حسینہ واجد کی حکومت بھارت نواز حکومت تھی۔ ملک دولخت ہوا تو اندرا گاندھی نے کہا تھا آج ہم نے نظریہ پاکستان بحر بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والے بہاری کسمپری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کا یہی گناہ ہے وہ ہمارے ملک سے محبت کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ سے دعا ہے ہمارے ہاں بنگلہ دیش والے حالات پیدا نہ ہوں اور حکومت لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے حتمی المقدور کوشش کرے تو ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آ سکتا ہے۔