Column

اپنی ذاتی زندگی کو نجی رکھیں

رفیع صحرائی
سوشل میڈیا ہماری زندگی میں اس حد تک داخل ہو گیا ہے کہ اس نے تمام تر پرائیویسی کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ ماحول، حالات اور اقدار تک سوشل میڈیا نے تبدیل کر کے رکھ دی ہیں۔ ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ کل تک جن چیزوں، باتوں اور اعمال کو چھپایا جاتا تھا آج ان کی تشہیر کر کے ذہنی تسکین حاصل کی جاتی ہے۔
ابھی چند سال پہلے تک شاپنگ بیگ کے استعمال کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لوگ بازار میں خریداری کے لئے جاتے وقت کپڑے کا تھیلا ساتھ رکھتے تھے۔ خصوصاً کھانے پینے کی چیزیں لاتے وقت اس بات کا خیال رکھتے کہ لوگوں کی نظر ان اشیاء پر نہ پڑے۔ اس احتیاط کے دو مقاصد ہوا کرتے تھے۔ پہلا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی بدنظری سے چیز محفوظ رہے۔ دوسرا مقصد یہ ہوتا تھا کہ جو لوگ وہ چیز خریدنے کی سکت نہیں رکھتے انہیں احساسِ کمتری سے بچایا جا سکے۔
وقت بدلا تو یہ اقدار اور ہماری عادتیں بھی بدل گئیں۔ اب ہم میں سے اکثریت نمود و نمائش کی عادی ہو چکی ہے۔ ہم برانڈڈ اشیاء کی خریداری کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ چیز خرید کر گھر کی طرف روانہ ہوں تو کوشش ہوتی ہے کہ برانڈڈ لوگو کی پیکنگ یا شاپنگ بیگ پر سب کی نظر پڑے تاکہ دوسروں کو ہماری پسند کے معیار کا پتا چل سکے۔ ہم پیزا، برگر، شوارما یا کھانا کھانے کے لئے باہر جائیں تو بڑے فخر سے اپنی خورد و نوش کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کر کے ساتھ کیپشن لگانا بھی نہیں بھولتے۔ سفر میں ہوں تو اس کی ویڈیوز اور تصاویر ساتھ ساتھ شیئر کرتے جاتے ہیں۔ کسی پر فضا یا تاریخی مقام کی سیر کو جائیں تو اس کی لمحہ بہ لمحہ دستاویزی روداد سے سب کو آگاہ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی خریداری سے لے کر ذبح کرنے تک اور پھر اس سے بنی ہوئی مختلف ڈشز سے دوسروں کو باخبر رکھنے کی عادت ہماری جبلت میں رچ بس چکی ہے۔ سینما یا تھیٹر دیکھنے جائیں تو تب تک دوسرے ہمارے دعوے پر یقین نہیں کرتے جب تک ہم تصویری ثبوت سامنے نہیں رکھتے۔
ہم نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ غیرمحسوس انداز میں ہم نے اپنی پرائیویسی کو پرائیویسی نہیں رہنے دیا۔ اپنی ذاتی زندگی کی مصروفیات کی تشہیر کر کے ہم دوسروں کو اپنی نجی زندگی میں دخل اندازی کا موقع دے رہے ہیں۔ ہم فخریہ انداز میں اپنی مہنگی خریداریوں کی تشہیر کر کے اپنے سٹیٹس اور حالات سے دوستوں اور واقف کاروں ہی کو نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد کو بھی آگاہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں ہے کہ اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کے اشتہار شائع کر کے ہم بدخواہوں کو سازشیں کرنے کے مواقع دے کر اپنی زندگی میں کیسے زہر گھول رہے ہیں۔ کیسے ہم اپنے بچوں کو لگژری سٹائل میں دکھا کر اغوا کاروں کی توجہ اپنے گھر کی طرف مبذول کر رہے ہیں، اس پر ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا۔ اپنی نقل و حمل کو سوشل میڈیا پر شیئر کر کے ہم وارداتیوں کو گھر میں اپنی عدم موجودگی کی خود ہی مخبری کرتے ہیں اور واردات ہونے کے بعد جب یہ تبصرہ سنتے ہیں کہ اس میں کسی گھر کے بھیدی کا ہاتھ لگتا ہے تو تب بھی ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ گھر کا وہ بھیدی ہم خود ہی ہیں جس نے جرائم پیشہ افراد کو اپنے گھر میں واردات کرنے کے لئے راغب کیا ہے۔
یاد رکھئے! آپ کی کامیابیوں پر ہر کوئی خوش نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا پر لائیکس، ویوز اور اچھے تبصرے زیادہ تر جعلی ہوتے ہیں۔ آپ صرف اپنی طرف بری نظروں کا رخ کر رہے ہیں۔ آپ کو نہیں علم کہ آپ کی تصاویر، ویڈیوز اور شیئر کئے گئے حقائق کو کون کون محفوظ کر رہا ہے؟۔ کون کون آپ کی اپ ڈیٹس کی جانچ پڑتال کر رہا ہے؟۔ آپ کو سوشل میڈیا پر اپنا ذاتی کچھ بھی شیئر کرتے وقت انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ یہ آپ کی زندگی، خاندان، شادی اور کیریئر کو تباہ کر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کو محض تفریح یا وقت گزاری نہ سمجھیں۔ یہ شیطانوں کی آنکھ، کان اور منہ بن چکا ہے۔ یہ دلدل ہے، اس میں دھنسنے سے گریز کریں۔ سوشل میڈیا شیطانوں کا جال ہے، اس میں نہ پھنسیں۔ اپنی نجی زندگی کو نجی زندگی ہی رہنے دیں۔
ایک گھر میں تین ڈاکو گھس گئے۔ انہوںنے گھر کی خواتین کو باندھا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ ان میں سے ایک نے اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا۔ وہ ان کا لیڈر لگ رہا تھا۔ لیڈر نظر آنے والا ڈاکو ہاتھ میں پستول پکڑ کر اطمینان سے کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنے ساتھیوں کو ہدایات دینے لگا۔ اس نے ایک ساتھی کو اوپری کمرے میں بھیجتے ہوئے بتایا کہ دروازے کے دائیں جانب الماری ہے۔ اس کی نچلی دراز سے زیور نکال لائے۔ دوسرے سے کہا کہ سامنے والی خواب گاہ کے بیڈ کے سرہانے والی سائیڈ پر ایک دراز ہے۔ اس میں سے کرنسی نوٹ نکال لائے۔ وہ اسی طرح اپنے ساتھیوں کو ہدایات دیتا رہا اور وہ بتائی ہوئی جگہوں سے زیور، کرنسی نوٹ اور دوسری قیمتی اشیاء لاتے رہے۔ خاتونِ خانہ اور ان کی بیٹیاں حیران تھیں کہ گھر اور اس میں پڑی اشیاء کے بارے میں اس قدر مکمل معلومات ڈاکوئوں تک کیسے پہنچیں۔ ان کی حیرانی میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب لیڈر نے لوٹا ہوا مال ایک تھیلے میں ڈالنے کے بعد گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ابھی ہمارے پاس سوا گھنٹہ باقی ہے، کیوں نہ کچھ کھا پی لیا جائے۔ پھر اس نے جواب سنے بغیر اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ آج دوپہر کو اس گھر میں کھیر بنی تھی جو انہوں نے رات دس بجے کھانی تھی۔ فریج سے وہی کھیر نکال لائو، یہ لوگ دوبارہ بنا لیں گے۔ خاتونِ خانہ کی آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ کہیں ان کا شوہر ہی تو ڈکیتی میں ملوث نہیں ہے جس نے اس قدر جامع مخبری کی ہے اور موقع سے غائب ہونے کے لئے خود گھر کے دوسرے مردوں کے ساتھ فلم دیکھنے چلا گیا ہے۔ ہو نہ ہو یہ اسی کا کارنامہ ہے۔
ڈاکوئوں نے اطمینان سے کھیر کھائی۔ لوٹا ہوا سامان اٹھایا اور گھر سے باہر جانے کے لئے دروازے کی طرف بڑھے۔ دروازے پر پہنچ کر ڈاکوئوں کے لیڈر نے مڑ کر دیکھا اور خاتونِ خانہ سے مخاطب ہو کر بولا ’’ محترمہ! آپ ہماری ایکیوریٹ معلومات پر حیران تو ہو رہی ہوں گی۔ میں آپ کی حیرانی دور کئے دیتا ہوں۔ دراصل آپ اور میں فیس بک فرینڈز ہیں۔ یہ معلومات اپنے سٹیٹس، ویڈیوز اور پوسٹوں کے ذریعے آپ نے خود ہی ہم تک پہنچائی ہیں۔ پھر جب آج آپ نے یہ پوسٹ لگائی کہ گھر کے سب مرد سینما ہال میں فلم دیکھنے جا رہے ہیں تو ہمارا کام آسان ہو گیا‘‘، یہ کہہ کر اس نے دروازہ کھولا اور اطمینان سے باہر نکل گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button