Column

’’ موم جامے کی گیند‘‘ اور سیاسی گیند

شکیل امجد صادق
ماضی بھی کیا عجیب شے ہے؟’’ پیرِتسمہ پا‘‘ کی طرح پائوں پہ پائوں رکھے حال کی کھڑکیوں سے جھانکتا رہتا ہے اور بسا اوقات گھورنے کی جسارت بھی کرتا ہے۔ اگر آپ نے ماضی میں کھاتے پیتے گھر میں آنکھ کھولی ہے اور سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہیں تو یہی ماضی آپ کو حسین لمحوں کی یاد دلاتا رہے گا اور کئی بار آپ ماضی کے جھروکوں سے برآمد ہونگے۔ بعینہٗ اگر آپ کا ماضی غربت، تنگدستی یا مفلسی میں گزرا ہو تو یہ ماضی آپ کے اندر تلخیاں پیدا کر دے گا۔ جی جی اس بات کا اندازہ ( ساحر لدھیانوی کی ’’ تلخیاں‘‘ سے لگایا جا سکتا ہے) شاید اسی بناء پر ساغر صدیقی نے کہا تھا:
میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
آپ خواہ کامیاب زندگی گزار رہے ہوں یا دینا بھر کی آشائشوں اور سہولتوں کو اپنے پائوں تلے روند رہے ہوں۔ جب بھی آپ کو ماضی کی کوئی تلخی، کوئی ٹوٹی ہو خواہش یا کوئی حسرت یاد آئے گی تو آپ لمحہ بھر کے لیے اداس اور افسردہ ضرور ہو جائیں گے۔ یہ وہ اژدھا ہے جو ہر ذی شعور کا آخرِ کار تک ڈستا رہتا ہے۔ میرے نزدیک اس تلخی کا ایک فائدہ ہے اور ایک نقصان بھی ہے۔ فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی اوقات سے باہر نہیں ہوتا۔ اپنے آپ کو متوازن رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بقول پروفیسر سخن ور نجمی:
میں فصیلِ ذات سے باہر نہیں
روشنی جو رات سے باہر نہیں
خاک تھا پھر خاک سا میں ہو گیا
دیکھ میں اوقات سے باہر نہیں
دوسرے پہلو میں نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان یا تو احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے یا پھر احساس برتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسان کی ذات کے اندر کوئی نہ کوئی خلا ضرور رہ جاتا ہے جسے پورا پورا کرنے کی تگ و دو کہیں نہ کہیں جاگ جاتی ہے۔ بات ماضی کی چل رہی تھی تو ہمارے ماضی میں ہم دوستوں کے پاس ہاکی خریدنے اور گیند خریدنے کے پیسے نہیں ہوا کرتے تھے۔ کوششِ بسیار کے باوجود کامیابی نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے نہ دیا۔ ہم دوستوں میں ایک لمبا تڑنگا لڑکا ہوا کرتا تھا، مجھے زندگی بھر تین لمبے تڑنگے دوستوں سے واسطہ پڑا اور خوب پڑا ایک وہ جو پچپن کا دوست تھا، ایک پروفیسر چودھری محمد عتیق کمبوہ جو گورنمنٹ کالج ساہیوال میں نفسیات کا پروفیسر ہے اور تیسرا ساجد علی امیر جو حال کی گھڑی میں میرا پی ایچ ڈی کا کلاس فیلو ہے اور خوب ہے۔ ساجد علی امیر کا یہ خاصا ہے کہ وہ اردو ادب کا اچھوتا قاری ہے۔ تنقید اور تحقیق سے ساجد علی امیر کو خاصی رغبت ہے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ وہ ساجد علی امیر ہیں۔ ساجد علی ’’ میر‘‘ نہیں، اس لمبے تڑنگے لڑکے نے ہاکی بنانے کا عجیب جگارڈ لگایا، جیسے پاکستان سیاستدان کامیابی سے لگاتے ہیں، اس لمبے لڑکے کی سکیم اور ذہانت زرداری صاحب سی قدرے کم نہ تھی۔ اس نے اپنے سمیت اور ہم چھ دوستوں کے لیے توت کے درخت کی دو سے تین انچ موٹی اور چار سے ساڑھے چار فٹ لمبی ( لگریں) چھڑیاں کاٹ کر ان کو صاف کیا۔ اس کے بعد موصوف نے آگ جلائی اور ان چھڑیوں کو اس آگ کے اندر رکھ دیا۔ جب ان چھڑیوں کو آگ نے نرم کر دیا تو اس نے ایک ایک چھڑی کو ’’ دو ساہنگے‘‘ ( جڑواں تنے والے) درخت کے بیچ دے کر مروڑ دیا اور وہ چھڑی ہاکی یعنی ’’ کھونڈی‘‘ کی شکل اختیار کر گئی۔ اس نے یکے بعد دیگرے سب کے لیے ہاکیاں بنا دیں۔ اب مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا والی بات ہو گئی۔ ہاکی بن گئی بال کہاں سے لائیں؟ ایک دن اس نے پی ڈی ایم یعنی ( ہم) سے مشورہ کئے بغیر خود ہی سکیم سوچی۔ اس لمبے لڑکے نے موم جامے یعنی پلاسٹک کے کاغذ اکٹھے کئے۔ زمین پر ایک جگہ صاف کی اور ایک ایک کاغذ کو جلا کر موم بنانا شروع کر دیا۔ وہ گرم موم اتنا ظالم تھا کہ جہاں پڑتا وہاں سے کھال ادھیڑ دیتا۔ اس لمبے لڑکے نے کافی سارا موم بنا کر اسے ٹھنڈا کیا اور ہاتھ گیلے کرکے اس موم کو پیڑے کی طرح گول مٹول کر دیا۔ دو تین بار ایسا کرنے سے وہ گیند بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ گیند بن گئی مگر بہت سخت۔۔۔۔ وہ گیند کھلینے کا کام تو دیتی مگر جہاں کہیں لگ جاتی تھی درد سے ہلکان کر دیتی اور وہاں سے جسم کا حصہ نیلا بھی کر دیتی اور ساتھ نشان بھی بنا دیتی۔ یار لوگ اس سے کرکٹ بھی کھیل لیتے تھے اور اچھی خاصی کھیل لیتے تھے۔ ایک دن ایسی ہی ایک گیند سیاست میں آگئی۔ یہ گیند عسکری کوٹوں سے ہوتی ہوئی ذوالفقار علی بھٹو کو لگی اور بھٹو سمیت ان کی سیاست کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی، پھر یہ گیند عسکری کوٹ میں آئی اور محمد خاں جونیجو کو لگی اور اس کی حکومت کو پاش پاش کر گئی۔ موم جامے کی یہ جمہوریت پسند گیند 1988ء میں بے نظیر بھٹو کی کورٹ میں تھی۔ پھر یوں کہ عرصہ تک یہ جمہوری گیند نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان رہی۔ نواز شرف اور بے نظیر بھٹو اسی گیند کو ایک دوسرے کو مارنے کے لیے قابو میں رکھتے رہے۔ 1999ء میں پرویز مشرف نے اپنی ’’ ڈبِ کلاں‘‘ سے یہ گیند نکال کر چپکے سے نواز شریف کو دے ماری اور خود برسر اقتدار ہو گیا۔2008ء اور 2013ء کے بعد 2018ء میں یہ گیند عمران کے کورٹ میں جا گری اور عوام نے اس گیند کا بھر پور ساتھ دیا۔ عمران خاں کھلاڑی آدمی ہونے کے باوجود تین سال کچھ ماہ تک اس گیند سے کھیل سکا اور ساری سیاسی جماعتوں نے ایک طرف ہوکر عمران خان سے اس سخت گیند کے ساتھ مار کٹائی جیسا کھیل، کھیل کر اسے نیلا پیلا کر دیا بلکہ سیاسی میدان سے نکال باہر کیا۔ اب یہ گیند ملکی تاریخ میں پہلی طویل نگران حکومت کے اشاروں پر کھیل رہی ہے مگر کسی کے کورٹ میں گرنے کا نام تک نہیں لے رہی۔ مگر واضح رہے اس گیند کے کورٹ بدلنے یا ’’ لک‘‘ میں لگنے کا نہ کسی سیاستدان، نہ حکمران، نہ بیوروکریٹ اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کو نقصان ہوا ہے اور نہ ہی کسی ادارے کا کچھ بگڑا ہے۔ اس ’’ ادلہ بدلی‘‘ کی گیند نے سرحدوں کو کمزور کیا ہے۔ معیشت کو تباہ کیا ہے اور اخلاقیات کو برباد کیا ہے۔ ہم انسان کی معراج سے نیچے گر گئے ہیں۔ ہمارے شاہین کرگس بن گئے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button