حج مشن مالی بوجھ ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
وزارت مذہبی امور ہر سال حج کے اختتام پر چاروں صوبوں میں پوسٹ حج سیمینارز کا انعقاد کرکے حج کی سعادت حاصل کرنے والے حجاج کرام اور پرائیویٹ حج گروپ آرگنائزروںسے اگلے سال حج انتظامات میں مزید بہتری لانے کیلئے تجاویز لیتی ہے تاکہ گذشتہ سال کے حج انتظامات میں خرابیوں کو دور کیا جا سکے۔ اس طرح کے سیمینار میں بہت سی تجاویز کا تعلق حکومت پاکستان سے ہوتا ہے اور بہت سوں کا تعلق سعودی وزارت حج سے ہوتا ہے۔ایسے مواقعوں پر وزیر مذہبی امور یا سیکرٹری مذہبی امور کی موجودگی بہت ضروری ہوتی ہے لیکن وہ اپنی جگہ ڈپٹی سیکرٹری کو بھیج کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہو جاتے ہیں ۔
ہمیں یاد ہے لطف اللہ مفتی اور مظہر رفیع جیسے راست باز سیکرٹری تو جب اور جہاں کہیں انہیں حجاج کے معاملات کے سلسلے میں مدعو کیا جاتابلاتامل ایسی تقاریب میں پہنچ جایا کرتے تھے ۔حقیقت تو یہ ہے حکومت پاکستان کے وہ حضرات جوسعودی وزارت حج اور موسسہ جنوب ایشیا کے حکام سے بات چیت کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں ماسوائے ان کی تعریفوں کے عملی طور پر کوئی کام نہیں کرتے۔ کئی دہائیاں پہلے سے حجاج کا ایک بہت بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا چلا آرہا ہے جسے کسی حکومت نے حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ حج سے قبل اور بعد میں سعودی حکومت کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔
ماضی میں کم از کم حاجیوں کو کرایہ بس واپس مل جاتا تھا۔مکہ مکرمہ سے منی جاتے وقت جو بسیں حجاج کو لے کر جاتی ہیں وہی بسیں حاجیوں کو لینے کے لیے مکہ مکرمہ واپس آتی ہیں۔کیا یہ ممکن ہے جو بسیں حاجیوں کو مکہ مکرمہ سے منیٰ لے جاتی ہیں وہ ہزاروں بسوں کے رش میں وقت پر منیٰ سے مکہ مکرمہ واپس آجاتی ہوں گی؟ ۔حکومت پاکستان کے جو ذمہ داران سعودی ٹرانسپورٹ کے حکام سے بات چیت کرتے ہیں انہیں حجاج کے اس مسئلے کو حل کراناچاہیے۔پرائیویٹ گروپس کی تنظیم ہوپ کے سابق صدر شاہد رفیق نے اس موقع پراس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلاتے مطالبہ کیا عازمین حج کو سعودی عرب لے جانے والی ائرلائنز کے کرایوں کی شرح کے تعین کے لیے اوپن ٹینڈرز کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ
عازمین حج کم کرایوں والی ائر لائنز پر سفر کرسکیں۔ حکومت پاکستان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ عازمین حج کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو قومی ائرلائنز پی آئی اے کے ذریعے بھیجا جائے۔کئی عشرے پہلے تک سعودی ائرلائنز عازمین حج کو لے جانے سے اس لیے گریز کرتی تھی ان کا موقف تھاحجاج وطن واپسی پر بہت زیادہ سامان لے کر آتے ہیں جس سے جہازوں پر غیر ضروری لوڈ کا اضافہ ہو جاتا ہے۔حج گروپ آرگنائزوں کو ایک اورجس مشکل کا سامنا ہے۔ماضی میںپرائیویٹ گروپس آرگنائزر اپنے کوٹہ سے متعلق وزارت مذہبی امور سے ملنے والے مراسلے پر اپنے گروپ کے عازمین حج کے لیے سیٹوں کی بکنگ کر الیا کرتے تھے اب اس کام میںمڈل مین کا رول سمجھ سے بالاترہے۔ ہم برسوں سے سعودی عرب میں رہائشی انتظامات میں مڈل مین کے کردار کے مخالف تھے اب پتہ چلا ہے کہ ائر لائنز میں سیٹوں کی بکنگ میں مڈل مین مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں تو کیا یہ وزارت مذہبی امور کی ذمہ داری نہیں وہ اس غیر قانونی کام کو روکنے کے اقدامات کرے؟
عجیب تماشا ہے عازمین حج کیساتھ جانے والے چھوٹی عمر کے بچوں کے حج واجبات پورے وصول کئے جاتے ہیں اتنے بڑے حج مشن کی کیا ذمہ داریاں ہیں ۔وہ سعودی حکام سے اس مسئلے پر بات نہیں کر سکتے ۔سعودی عرب میں رہنے کے باوجود وہ ٹرانسپورٹ اور دیگر مسائل کو حل نہیں کر سکتے تو حکومت پاکستان کو قومی خزانے پر اربوں کا بوجھ ڈالنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ایک دور میں سیکرٹری مذہبی امور لطف اللہ مفتی نے ڈائریکٹر جنرل حج کی آسامی کو ختم کرادیا تھا تاکہ زرمبادلہ کی بچت ہو سکے۔ اسی کے عشرے کی بات ہے ڈائریکٹر جنرل حج عبداللہ ہوا کرتے تھے۔ سعودی وزیر حج عبدل وہاب عبدالوسیع کے ساتھ ایک اجلاس میں سعودی وزیر حج نے اپنی من پسند عمارات لینے کو کہا تو ڈائریکٹر جنرل حج نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ان کا موقف تھا ڈائریکٹر جنرل وہ ہیں لہٰذا یہ ان کی ذمہ داری ہے وہ عمارات کس سے حاصل کریں۔جد ہ سے ڈائریکٹر جنرل مکہ مکرمہ جائے تو سرکاری ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کے باوجود وہ ایک سو ڈالر یومیہ الاونس وصول کرتا ہے ۔ احمد بخش لہٹری ڈائریکٹر حج تھے وہ جدہ سے مدینہ منورہ جانے کا ڈیلی الاونس نہیں لیا کرتے تھے ۔ایک غریب ملک جو دیوالیہ ہونے کو ہے حج مشن ایک اضافی مالی بوجھ کے سواکچھ نہیں۔بھارت کا کونسل جنرل اور چند ملازمین حج کے تمام انتظامات کرتے ہیں تو پاکستان کا سفارتی عملہ یہ کام کیوں نہیں کر سکتا۔حالیہ حج کی بات ہے ڈائریکڑ جنرل حج نے سیکرٹری مذہبی امور کی ہدایات پر عمل نہیں کیا جس پر اس کی جواب طلبی کرنا پڑی۔سعودی حکومت ہر سال حج واجبات میں ہوشربا اضافہ کرتی آرہی ہے وزارت مذہبی امور کے حکام کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی وہ متعلقہ فورم پر اس مسئلے کو اٹھا کر حل کرانے کی کوشش کریں۔سعودی عرب میں تعینات اعلیٰ افسران کو حجاج کے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ ان کی وہاں موجودگی کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہتا۔
حج سے کئی ماہ پہلے پرائیویٹ حج گروپس آرگنائزوں کو سعودی عرب جانے کے لیے خصوصی ویزا کی سہولت دی جاتی تھی تاکہ وہ اپنے کوٹہ کے عازمین حج کے لیے رہائش اور دیگر انتظامات احسن طریقہ سے کرسکیں مگر اس بار انہیں ویزا سے بھی محروم رکھا گیاتو کیا یہ وزارت مذہبی امور کی ذمہ داری نہیں وہ اس طرح کے معاملات کو سعودی حکومت یا اسلام آباد میں سعودی سفیر کے علم میں لاکر انہیں حل کرنے کی کوشش کرے؟سعودی حکومت نے 65 سال سے زائد عمر عازمین حج پر پابندی عائد کی ہے جب کہ عمرہ پر جانے والوں پر عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔اطلاعات ہیں آئندہ سال 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی 25 فیصد تعداد کو حج پر جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔