محمد مبشر انوار
قبل ازاسلام بلکہ ازل سے دنیا میں دو اصول مسلمہ ہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور دوسرا اصول ہمیشہ مفادات کا حصول رہا ہے البتہ بعد از اسلام اخلاقی ساکھ و اقدار و انسانی حقوق کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ موجودہ دور میں انسانی حقوق کے حوالے سے جتنے بھی قوانین ہیں،ان کا منبع و ماخذ اسلامی تعلیمات ہی ہیں یہ الگ بات ہے کہ اسلامی روایات صد فیصد روبہ عمل نہیں کہ انسان اسلام کے آفاقی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو جاتاہے اور ان اصولوں پر سمجھوتہ کر لیتا ہے۔ اس میں مہذب دنیا بھی کاکردار غیر مہذب یا ترقی پذیر دنیا سے کہیں زیادہ دہراور منافقانہ ہے کہ مفادات کے حصول کی خاطر مہذب دنیا ان اصولوں سے روگردانی میں رتی برابر بھی نہیں ہچکچاتی بلکہ موجودہ عالمی طاقت کا تو یہ کہنا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی فری لنچ نہیں لہٰذا جہاں اس کے مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے،وہ اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں سے روگردانی کر جاتی ہے۔ اپنے اس دہرے معیار کو یہ عالمی طاقت ایک طرف حکمت عملی کا نام دیتی ہے تو دوسری طرف اس کو محفوظ راستہ یا مشکل سے نکلنے کا راستہ کہتی ہے لیکن اس حکمت عملی پر عمل پیرا اس وقت ہونا ہوتا ہے جب اس کی کامیابی کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں،جب اس کی عالمی حیثیت کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں،جب اس کے پاس کوئی چارہ نہ بچے۔
ایسی ہی صورتحال ہمیں بارہا نظر آتی ہے وہ خواہ ویتنام ہو یا افغانستان ہو یا شام میں شدید نقصان کے باعث مشرق وسطی سے نکلنے کی ناکام کوششیں ہو،عراق میں ناکامی ہویا ایران کے سرنگوں نہ ہونے پر شدید پشیمانی ہو، بھارت کے روس پر پابندیوں کے باوجود تیل خریدنے کے معاہدے ہوں یا یوکرین کو نیٹو میں شامل نہ کرنے پر ہزیمت کا سامنا ہی نہ ہو بلکہ وہاں روسی جارحیت کے نتیجہ میں یوکرین مکمل طور پر بے دست و پا ہو چکا اور امریکہ بہادر چاہنے کے باوجود اس کی مدد کرنے میں بری طرح ناکام ہو۔ یوکرین کے ساحلی علاقوں پر مکمل روسی قبضہ ہو اور وہاں سے خوردنی تیل و گندم کی ترسیل کے امکانات معدوم ہو چکے ہوں،دنیا بھر میں غذائی قلت کا سخت اندیشہ ہو اور اس سے بچنے کی خاطرامریکہ روس پر لگائی گئی پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے،درپردہ دنیا کو روس سے خوردنی تیل ، گندم اور کھاد خریدنے کی اجازت دے دے خواہ ان کی قیمت روسی کرنسی روبل میں ادا کی جائے،وہ معترض نہیں،علاوہ ازیں! یورپ کو تیل او رگیس کی سپلائی بھی روس کی طرف سے مسلسل اپنی شرائط پر جاری ہے، البتہ وہ ممالک جو ہنوز امریکی حاشیہ بردار بنے ہوئے ہیں،ان کو تیل و گیس کی سپلائی روس نے بند کر رکھی ہے لیکن یہ بندش بھی زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتی کہ یا تو امریکہ ان یورپی ممالک کے لیے روسی تیل و گیس کے متبادل کا انتظام کرے، بصورت دیگر یہ ممالک دوبارہ روس ،روسی شرائط پر،سے تیل و گیس خریدنے پر مجبور ہونگے۔
امریکہ کا ناطقہ اس وقت صحیح معنوں میں روس و چین نے بند کر رکھا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کو پاؤں کی نوک پر رکھے ہوئے ہیں اور بعینہ امریکہ کی طرح اپنے ریاستی مفادات کا تحفظ بھی کر رہے ہیں
اور اس کے ساتھ ساتھ معاشی میدان میں امریکی اجارہ داری کے لیے دردسر بن چکے ہیں۔ تسلیم کہ دفاعی میدان میں امریکی برتری کا زعم؍بھرم ابھی تک باقی ہے اور امریکہ براہ راست ان دو ممالک کے ساتھ برسرپیکار نہیں بلکہ پراکسی وار یا اپنے حلیفوں کو ان کے خلاف میدان میں اتار رہا ہے، جن کی درگت بنتی ساری دنیا کے سامنے ہے کہ کس طرح امریکی حلیف میدان جنگ میں پٹ رہے ہیں۔خواہ بھارت ہویا نیٹو اتحادی بننے کا متمنی یوکرین،دونوں کی حالت میدان جنگ میں انتہائی خستہ نظر آتی ہے اور کسی بھی طور امریکی حریفوں کے مقابلے میں ٹکتے نظر نہیں آتے،دوسری طرف جاپان یاآسٹریلیا سے جو توقعات امریکہ بہادر باندھے بیٹھا ہے،ان کا انجام،آغازسے قبل ہی واضح ہے کہ یہ دونوں ممالک براہ راست جنگ میں کودنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ روس پر ادھوری معاشی پابندیوں کے بعد (تیل و گیس پر پابندی اور دیگر اشیاء پر درپردہ اجازت)عالمی منڈی میں روز بروز خام تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے دنیا بھر میں مہنگائی کو فروغ دیا ہے ،جس سے عوام الناس براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ کرونا کے باعث ایک طرف دنیا بھر کی معاشی سرگرمیاں ازسر نو شروع ہو رہی ہیں لیکن تیل کی ہوشربا قیمتوں نے صنعتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، جب کہ عوام الناس کا ذریعہ آمدن اتنا نہیں بڑھا کہ ان کی قوت خرید ،اتنی مہنگی اشیاء کو خریدنے کی سکت رکھے۔
امریکہ بہادر بطور عالمی ٹھیکیدار،اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے بھرپور کوشش تو کر رہا ہے لیکن اپنے دہرے معیار کے باعث اسے بہت سی پریشانیوں نے گھیر رکھا ہے اور کئی ایک ممالک اس کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ۔ درحقیقت یہ سبق بھی دنیا کو امریکہ نے’’نو فری لنچ‘‘کا نعرہ دے کر پڑھایا ہے کہ جہاں مفاد نہ ہو وہاں بلاوجہ احسان کرنے کی بھی ضرورت نہیں حتی کہ مشرق جسے بالعموم روایات و اقدار کا خطہ کہا اور سمجھا جاتا ہے،وہاں بھی اب یہ سوچ بخوبی پروان چڑھ چکی ہے۔اس کی بنیادی وجہ امریکی رویہ ہے اور دوسری بات یہ کہ مشرق میں بھی اب پرانی وضع کے لوگ صاحب اقتدار نہیں رہے بلکہ اقتدار کی باگ ڈور اب نئی اور نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہے اور وہ مغرب یا مہذب قوم یا امریکی سوچ کو بخوبی سمجھ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ مغربی لوگوں سے کس طرح اور کیسے بات کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی ولی شہزادہ محمد بن سلمان ہوں یا یو اے ای کے ولی عہد محمد بن زید ہوں،
یوکرائن کے معاملے پر انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کا فون تک نہیں سنا تھا۔ اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے،امریکہ بہادر نے اپنے پتے نئے سرے سے ترتیب دینے کی کوششیں کی ہیں اور یو اے ای کے امیر کے جنازے میں بڑا امریکی وفد شریک ہوا تھا تا کہ اس خطے میں امریکی اثرورسوخ کو قائم رکھا جا سکے۔اس دوران امریکی صدر نے کوشش تھی کہ سعودی عرب کا دورہ کیا جائے جو بوجوہ ممکن نہ ہو سکا اور اس وقت پھر امریکی صدر اس کوشش میں ہیں کہ دوبارہ سعودی عرب کا دورہ کیا جائے۔ اس وقت اس دورے کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ کسی طرح سعودی عرب اور دوسرے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو پیداوار بڑھانے پر آمادہ کیا جا سکے تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کو استحکام دے کر مہنگائی کے عفریت کو قابو کیا جا سکے۔جواباً سعودی ولی عہد امریکہ سے کیا تقاضہ کر سکتے ہیں؟
خطے کی مجموعی صورتحال پر نظر رکھیں ،کرہ ارض پر ہونے والی مسلم کشی پر ذہن میں رکھیںاور اس کے جواب میں او آئی سی کا اس وقت متحرک و فعال ہونا مد نظر رکھیں تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ مفادات کے اس کھیل میں سعودی ولی عہد یا دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک کسی بھی صورت تیل کی پیداوار بڑھانے پر اتفاق کرتے نظر نہیں آتے تاوقتیکہ بھارت و فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ختم نہیں ہوتے اور مسلمانوں پرتنگ زندگی آسان نہیں ہوتی۔علاوہ ازیں!یمن کی صورتحال پر بھی سعودی عرب کے یقینی طور پر اپنے تحفظات رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ معاملہ بھی خیر اسلوبی سے نپٹ جائے۔
مذاکرات کی میز پر یقینی طور پر کچھ لو کچھ دو کا معاملہ ہوتا ہے اور اس وقت امریکہ کے پاس دینے کے لیے کیا ہے؟کیا امریکہ اپنے تزویراتی حلیف بھارت کے انسانیت سوز،متعصب روئیے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کوئی حقیقی کارروائی کر سکتا ہے؟بی جے پی سرکار کی انتہا پسندی پورے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف بروئے کار ہے لیکن انسانی حقوق کی علمبردار امریکی حکومت ابھی تک بھارت کو نکیل نہیں ڈال سکی اور اس کے مظالم مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔دوسری طرف امریکی خواہشات کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ ہے جو ساری دنیا سے بالعموم اور مسلم دنیا سے بالخصوص جاری ہے کہ امریکہ مشرق وسطی میں اپنے ناجائز بچے اسرائیل کی بالا دستی کا متمنی ہے اور جنوبی ایشیا میں بھارتی جبکہ ایشیا میں بالعموم اپنا تسلط چاہتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے عالمی سطح پر اپنا جو تاثر بنایا ہے،اس میں سب سے اہم ترین اپنے مؤقف پر قائم رہنے والا ہے اور بالخصوص مذاکرات میں جہاں ایک طرف وہ امن کے خواہشمند ہیں وہیں دوسری طرف اپنے مفادات کا تحفظ بھی بخوبی کرنا جانتے ہیں۔ امریکی صدر کے مجوزہ دورہ سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات میں کیا فیصلے ہوتے ہیں،فریقین کس طرح ایک دوسرے کو قائل کرتے ہیں،ساری دنیا کی نظریں ان پر گڑی ہیں۔