
وزیراعظم عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ اتحادی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ایک بار پھر ناراض شراکت داروں کو مطمئن کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے ایک وفد نے اتحادی جماعت کو منانے کی آخری کوشش کے طور پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے ملاقات کی۔
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کو بتایا گیا کہ ان کے اتحادیوں نے اپوزیشن کیمپ میں شامل ہونے اور تحریک عدم اعتماد پر ان کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس پر وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کو اتحادی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقات کے لیے روانہ کیا اور انہیں یقین دلایا کہ ان کے تحفظات دور کیے جائیں گے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ اتحادی حکومت میں واپس آئیں گے اور ووٹنگ کے دن قومی اسمبلی میں ان کی حمایت کریں گے۔
رابطہ کرنے پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ اگلے 48 گھنٹے ’انتہائی اہم‘ ہیں جب سیاسی ابہام صاف ہو جائے گا، انہوں نے امید ظاہر کی کہ ضرورت کے اس وقت اتحادی وزیراعظم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم خان نے حکمراں جماعت کو ہدایت کی تھی کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ میں ’طاقت کے مظاہرے‘ کے طور پر ’ملک کا سب سے بڑا‘ جلسہ منعقد کرے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر صنعت خسرو بختیار اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے وسطی پنجاب، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا سے پارٹی کے پاور شو کے لیے لوگوں کو وفاقی دارالحکومت لانے کے لیے کیے گئے انتظامات کے بارے میں بالترتیب الگ الگ بریفنگ دی۔
وزیر اعظم کے حوالے سے کہا گیا کہ ’یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہونا چاہیے۔‘
اس ضمن میں ایک وفاقی وزیر جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت ’حقیقی مشکل‘ میں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کے ناراض اراکین اسمبلی کا پارٹی میں واپس آنا ناممکن ہے۔
بعد ازاں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر، اسد عمر اور پرویز خٹک پر مشتمل پی ٹی آئی کے وفد نے ایم کیو ایم پی کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ایم کیو ایم نے حکمراں جماعت کو کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور کہا کہ ’پارٹی نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ کس طرف کا انتخاب کرنا ہے‘۔
تاہم ذرائع نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں بشمول اس کے سربراہ خالد مقبول صدیقی اور وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق کا مؤقف تھا کہ حکومت نے 3 برسوں میں ان کے مشورے اور مطالبات کو نہیں سنا اور اب ایم کیو ایم کی شکایات دور کرنے کا وقت ختم ہو گیا ہے۔
ملاقات میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کی موجودگی کو بہت سے لوگوں نے اس وقت دیکھا جب وہ ایوان کے نگران ہونے کے باوجود حکمران جماعت کی طرف داری کرنے پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنے۔
اپوزیشن کی جانب سے ایوان کے سربراہ ہونے کے باوجود اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر حکمران جماعت کی طرف داری کرنے پر شدید تنقید کی جارہی تھی ایسے میں ایم کیو ایم کے ساتھ ملاقات میں ان کی موجودگی کو نوٹ کیا گیا۔