Column
ریکوڈک معاہدہ اور نقصانات ….. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
ایک عشرہ بعد ریکوڈک منصوبے پر کام کاآغاز دوبارہ ہوگا۔ وہ ملک جن کا شمار ترقی پذیر ملکوں میں ہوتا تھا وہ ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ ہم ہیں کہ ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف رواں دواں ہیں۔2011 میں ایک شہری کی درخواست پر اس منصوبے پر کام روک دیا گیا تھا جس کا ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ ریکوڈک منصوبے کے مقدمہ پر حکومت پاکستان کو کثیر رقم زرمبادلہ کی شکل میں خرچ کرنا پڑی لیکن یہ منصوبہ جوں کا توں پڑا تھا۔ منصوبے کے فائدے اور نقصانات بارے ہم اپنی رائے کا اظہار بعد میں کریں گے البتہ موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے جس کے دور میں ریکوڈک پر دوبارہ کام شروع ہو جائے گا۔ اس منصوبے پر کام جاری رہتا تو وفاق اور صوبے کو مالی طور پر بہت فائدہ ہو سکتا تھا جس سے ہمارا ملک محروم رہا۔
ریکوڈک پر سی ٹی سی نے 1992 میں کام کا آغاز کیا اس دوران کمپنی مانئنگ پر چار سو ملین ڈالر خرچ کر چکی تھی۔ملک و قوم کی بدقسمتی تھی کہ اس منصوبے پر کام رک گیا اورملک کو مالی طور پر بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ نئے معاہدے کے تحت بلوچستان کے رہنے والوں کو آٹھ ہزار روزگار کے مواقع میسر ہوں گے۔ معاہدے کے تحت ریکوڈک کی آمدن سے پچاس فیصد رقم وفاق اور پچاس فیصد رقم کمپنی کی ہوگی ۔وفاق کو ملنے والے پچاس فیصد میں سے 25 فیصد حصہ بلوچستان کو ملے گا۔ پہلے معاہدے کے مطابق بلوچستان کو صرف دس فیصد شیئر ملنا تھے۔ اگرچہ ریکوڈک پر کام روکنے کی وجہ عدالتی احکامات تھے ، اس کے ساتھ بلوچستان حکومت کوکمپنی سے معاہدہ کرنے کے باوجود لیز کی رقم میں اضافے پر بضد تھی حالانکہ پرانے معاہدے میں زمین کی لیز کو منجمد رکھا گیا تھا لیکن بعد ازاں بلوچستان حکومت نے کمپنی سے لیز کی رقم میں بتدریج اضافے کا مطالبہ کر دیاحالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ معاہد ہ کرتے وقت صوبے کے فائدے اور نقصانات کو مدنظر رکھا جاتا ۔قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں دیگر منصوبوں پر کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں سے زمین کی لیز کی رقم کو منجمد رکھا گیا ہے ۔اس نئے معاہدے میں ماسوائے بلوچستان کو 25 فیصد شیئر دینے کے علاوہ زمین کی لیز کی رقم میں اضافے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اب کمپنی پرانے معاہدے کے تحت ریکوڈک سے نکالنے والے محلول کو پائپ لائن کے ذریعے گوادر تک لے جائے گی جہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے محلول کو بیرون ملک لے جا کر پراسیس کیا جائے گا۔ سندھک کے منصوبے پر کام اسی طرح ہورہا ہے، چین سندھک سے نکالنے والے محلول کو اپنے ملک لے جا کر پراسیس کرتا ہے ۔اب ہم آتے ہیں ریکوڈک منصوبے میں پائی جانے والی خامیوں کی طرف جس کا نقصان ملک وقوم دونوں کو ہوگا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا غیر ملکی کمپنی ریکوڈک سے نکالے جانے والے محلول کو بلوچستان میں ہی پراسیس کرتی جس کے لیے کمپنی کو بلوچستان میں پلانٹ لگانا چاہیے تھا۔جب محلول کسی دوسرے ملک لے جا کر پراسیس ہو گا تو ہمیں کیسے علم ہوگا محلول سے گولڈ اور کاپر وغیرہ کتنی مقدار میں نکلا ہے۔ جیسا کہ سندھک منصوبے کا محلول چین لے جا کر پراسیس کیا جاتا ہے جس سے بلوچستان کو بہت کم رقم ملتی ہے۔نئے معاہدے میں آٹھ ہزار لوگوں کو روزگار مہیا کیا جائے گا جس میں زیادہ تر چوکیدار اور چپڑاسی بھرتی ہوں گے۔معاہدے میں اس بات کا ذکر ضروری تھا کہ کمپنی بلوچستان کے لوگوں کو کس سطح کے روزگار مہیا کرے گی؟پہلے منصوبے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان تھا کہ ریکوڈک منصوبے پر کام شروع کرنے سے بلوچستان کے پندرہ ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا لیکن اب صرف آٹھ ہزار افراد کو روزگار کی فراہمی کی نوید دی گئی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری کو اس منصوبے پر بلین ڈالر کی پیش کش ہوئی تھی لیکن انہوں نے کئی سال گذرنے کے بعد اس بات کا انکشاف کیا تھا حالانکہ انہیں جب بلین ڈالر کی پیش کش ہوئی تھی انہی دنوں انہیں اس کا انکشاف کرنا چاہیے تھا۔ بلوچستان جیسے قدرتی معدنیات سے مالا مال صوبے میں بہت سی غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے ترقیاتی کاموں کے باوجود صوبے کی پسماندگی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بلوچستان میں سندھک اور ریکوڈک منصوبوں کے علاوہ اور بھی بہت سے منصوبوںپر عرصہ دراز سے کام جاری ہے، اس کے باوجود صوبے میں بے روزگاری اور لوگوں کی معاشی حالت خراب ہونے کی وجوہات جاننے کی کسی حکومت نے کوشش نہیں کی۔ بلوچستان کا این ایف سی ایوار ڈ بارے ایک دیرینہ مطالبہ ہے جس میں این ایف سی ایوارڈ آبادی کی بجائے بلوچستان کے رقبے کے لحاظ سے دینا چاہیے ۔موجودہ حکومت کو تین سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے ، این ایف سی ایوارڈ میں اضافے کے مطالبے پر نظر ثانی نہیں کی گئی ۔ ریکوڈک پر کام کے آغاز سے توقع کی جا سکتی ہے ملک کے ایک پسماندہ صوبے کے رہنے والوں کو روزگار کے ساتھ ان کے معاشی حالات بہتر ہو سکیں گے۔ سی ٹی سی سے پرانے معاہدہ میں ریکوڈک میں سڑکیں اور وہاں کے رہنے والوں کے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے سکول اور کالج بھی کھولنے تھے۔اب نئے معاہدے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس نہ تو سکولوں اور نہ ہی سٹرکوں کی تعمیر کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہمارا ملک اٹیمی قوت تو بن گیا لیکن اس کے باوجود ہم ابھی تک قدرتی معدنیات کی پراسیسنگ کے انتظامات نہیں کر سکے۔اگر ملک میں ریکوڈک سے نکلنے والے محلول کی پراسیسنگ کے انتظامات ہوتے تو ملک کو کتنا فائدہ ہوتا۔ جب محلول کمپنی ملک سے باہر لے جائے گی تو ہم کمپنی کے رحم وکرم پر ہوں گے۔ ملک میں قدرتی معدنیات کی پراسیسنگ کے انتظامات ہوتے تو ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہوتا اور ہمارے ملک کا شمار ترقی پذیر ملکوں کی بجائے ترقی یافتہ ملکوں میں ہونے لگتا۔ سیاست دانوں میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جن کی اقتدار میں آنے کے بعد ملک کو ترقی دینے کی بجائے لوٹ کھوسٹ پر زیادہ توجہ ہوتی ہے جو ملک و قوم کی بڑی بدقسمتی ہے۔