Column
یہ حیرت کا مقام نہیں ؟ ….. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
ایک قومی اخبار نے نہایت دلچسپ لیڈ لگائی جو پاکستان میں اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کے مکروہ دھندے کے خلاف ایک مو ¿ثر ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔ خبر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے منحرف یا خریدے گئے اراکین اسمبلی کے11 حلقوں کے ہزاروں ووٹرز اپنے اپنے منتخب رکن اسمبلی کی بد دیانتی کے خلاف سپریم کورٹ میں جا رہے ہیں۔اس مقصد کے لیے ہر اس حلقے کے ہزاروں ووٹرز آئینی پٹیشنز تیار کر رہے ہیں جس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی جائے گی کہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد میں بددیانتی کی ٹھانی ہے اور وہ مالی یا کسی بھی قسم کے لالچ میں اپنی سیاسی جماعت سے بددیانتی اور بے وفائی کے مرتکب ہونے جا رہے ہیں اس لیے انہیں پابند کیا جائے کہ وہ جس جماعت کے ٹکٹ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں اس کے خلاف غیر آئینی طور پر ووٹ نہ ڈالیں۔
عدم اعتماد کی تحریک کا معاملہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچدہ ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہوتا جا رہا ہے۔ ایک جانب صدر مملکت کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ روکنے والے آرٹیکلز کی تشریح کے لیے ریفرنس سپریم کورٹ میں پیش ہو چکا ہے تو دوسری جانب منحرف یا بکنے والے اراکین کے خلاف حکومتی جماعت کے ورکرز اور ووٹرز متحرک ہیں۔ یہ صورتحال اگر ایک جانب تشویشناک ہے تو دوسری جانب حوصلہ افزا بھی ہے۔ تشویشناک اس لیے کہ اگر اس میں تشدد کا عنصر شامل ہو گیا تو یہ ملکی موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔ حوصلہ افزا اس لیے کہ عوامی ووٹ کے حامل اراکین اسمبلی کو یہ تو احساس ہو گا کہ عوام سے ووٹ لے کر اپنے مفادات کے لیے ان سے بے وفائی کرنا نہ صرف غیر آئینی اور غیر قانونی بلکہ انتہا درجے کا غیر اخلاقی بھی ہے ۔ یہ حرکت سراسر سنگین بد دیانتی میں شامل ہوتی ہے اور اگر اب عوام نے اپنے ووٹ کے تقدس کو ان گنتی کے اراکین سے بحال کروا لیا تو مستقبل میں عوام سے ووٹ حاصل کر کے رکن اسمبلی بننے والے کسی بھی سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی کو جرا ¿ت نہیں ہوگی کہ وہ اپنی سیاست جماعت، عوام اوررہنما سے بے وفائی کر کے دوسری سیاسی جماعت یا دھڑے سے کسی بھی قسم کے مفادات حاصل کر سکے، لیکن عوام کو اپنے ووٹ کا تقدس محفوظ رکھنے(جو دراصل ان کے حقوق کا معاملہ ہے)کی اس جدوجہد میں کسی بھی قسم کی ناشائستگی اور تشدد کا استعمال ناقابل معافی ہو گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکستان بار کونسل اور لاہور ہائی کورٹ بار کے صدور کی جانب سے اپوزیشن کے حق میں پٹیشنز دائر کرنا بھی افسوسناک ہے کہ وکلاءکی بار ہی اگر حکومت یا اپوزیشن کے حمایتی بن جائیں تو پھر قانون کی حکمرانی کیسے ہو سکے گی۔ چند ماہ قبل سپریم کورٹ بار کے صدر نے نواز شریف کو پانامہ کیس میں دی گئی سزا پر بھی نظرثانی پٹیشن دائر کی جسے سپریم کورٹ نے رد کر دیا تھا۔ کل ہی سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار آفتاب باجوہ کا فون آیا وہ سپریم کورٹ بار اور لاہور ہائی کورٹ بار کی سیاسی جماعتوں کی حمایت میں اس حد تک آگے جانے پر سیخ پا تھے۔یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور اسمبلی کی کاروائی و عدم اعتماد کی تحریک میں اگر معزز سپریم کورٹ آف پاکستان دخل نہیں دینا چاہ رہے تو پھر وکلاءکے بارز اور وکلاءکو اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ جہاں پاکستان میں تمام ادارے سیاسی ہو چکے ہیں ۔ وکلاءتو قانون و آئین کی پاسداری کے محافظ کہلاتے ہیں۔
ملک میں پھیلی سیاسی بے چینی کی آڑ میں دشمن کو بھی موقع مل چکا ہے ۔ بھارتی اور مغربی میڈیا کی مدد سے سوشل میڈیا پر سینکڑوں فیک اکاونٹس بنا کر افواج پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا ہے جس میں ڈان لیکس کا خالق میڈیا سیل بھی ملوث بتایا جا رہا ہے۔ماضی میں افواج پاکستان کے خلاف زیر اگلنے والے دو عدد نام نہاد اینکرز کی ٹی وی سکرینوں پر واپسی کے بعد یہ سلسلہ زیادہ تیزی سے شروع ہو چکا جو نہایت تشویش ناک ہے۔ یہ ٹرینڈ دراصل افواج پاکستان اور حکومت کو لڑانے اور بدگمان کرنے کی ایک ایسی قبیح کوشش ہے کہ جس کی فوری آہنی ہاتھوں سے بیخ کنی بہت ضروری ہے۔ایسی تمام کوششیں دراصل ففتھ جنریشن وار کا تسلسل ہیں۔موجودہ دور جدت کا دور ہے اور اس میں ایسی ملک دشمن کارروائیوں کو پکڑنا ناممکن نہیں ہے۔اس لیے ایسے تمام کرداروں کو نشان عبرت بنا کر عوام کے سامنے لانا ملکی سالمیت کے تناظر میں اشد ضرورت ہے۔لندن میں براڈشیٹ نامی نجی کمپنی کے مالک کاوے موسوی سے نواز شریف کے حق میں اور نیب اور عمران خان کے خلاف بیان دلوانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ کاوے موسوی اور اس کے بیانات سے کیا نواز شریف کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے ملی سزائیں اور نیب کی اہمیت کم ہو سکتی ہے؟ کاوے موسوی کے اس مضحکہ خیز بیان کو سامنے لانے میں ایک میڈیا گروپ پیش پیش ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے چھپے سب کردار آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں اور یورپ اور امریکہ کو من مانی سے انکار سے لیکر وزیر اعظم کے روس کے دورہ پر اعتراض اور اب نواز شریف کو کرپشن پر سپریم کورٹ سے ملی سزاﺅں کے خلاف موسوی کے بیانات عوام کو بہت کچھ سمجھا رہے ہیں۔براڈشیٹ جیسی نجی کمپنی کے مالک سے بیانات دلوا کر پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں اور نیب جیسے ادارے کو بدنام کر کے جو سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی وہ پانی کا بلبلہ ثابت ہو چکی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کی شدت میں کمی آ رہی ہے اور حالات لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہے ہیں لیکن اپوزیشن کی بوکھلاہٹ میں انتہا درجے کا اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان میں او آئی سی کے وزراءخارجہ کے 48 ویں اجلاس میں عمران خان کی تقریر میں اسلامی بلاک بنانے کی تجویز کے بعد ان کے اور ان کی خلاف کے خلاف مہم زیادہ تیز ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ آخری کوشش ہو۔ ماضی میں ذولفقار علی بھٹو کے خلاف سامراج اور امریکہ کی مدد سے چلنے والی تحریک اور موجودہ ملکی حالات میں حد درجہ مماثلت نظر آ رہی ہے۔
مجھے جنرل مشرف کا صدارت سے استعفیٰ کے بعد اپنی آخری تقریر میں کہا گیا جملہ”اب پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے“ یاد آ رہا ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی(جس کے امکانات اب کم لگ رہے ہیں)کے بعد اقتدار نیب زدہ شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری کے حوالے کیا جائے گا تو دنیا بھر میں کیا پیغام جائے گا اور جو کرپشن کے مقدمات اوپر لکھے تمام افراد پرچل رہے ہیں ان کا کیا بنے گا؟کیا پاکستانی عوام کا ملکی دولت لوٹنے والوں کو نشان عبرت بنے دیکھنا خواب ہی رہے گا اور خلق خدا کبھی بھی راج نہیں کرے گی؟افسوسناک حقیقت تو یہ ہے کہ غالباًدنیا میں یہ پہلی تحریک عدم اعتماد ہو گی کہ جس کو پیش کرنے والے تمام سیاسی رہنما ملکی عدالتوں اوراداروں کو کرپشن کے کیسوں میں مطلوب ہیں اور جس کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے اس پر کرپشن کا کوئی کیس یا الزام نہیں ہے۔۔یہ حیرت کا مقام نہیں؟