Column
ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے ….. ناصر نقوی

ناصر نقوی
سیاست میں کوئی چیز آخری نہیں ہوتی اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے ،تو بے جا نہ ہر گزنہیںہوگا، اپوزیشن نے متحدہوکر حکومت کو نہ صرف للکارابلکہ اسے دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کر دیا ہے لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ صاحب ِ اقتدار کے پاس کچھ دو اور کچھ لو کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے، جب تک طاقت اقتدار ہوتی ہے، صاحب ِاقتدارکو کسی دوسرے کی آواز سنائی نہیں دیتی لیکن جونہی اقتدار جاتا دکھائی دے یا صورت حال ڈگمگاتی محسوس ہو تو تمام آپشنز سامنے آجاتے ہیں ، اپوزیشن ہمیشہ حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دیتی ہے پھر بھی اس کے پاس صرف مستقبل کی امید ہوتی ہیں، دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا جبکہ صاحب ِاقتدار دینے اور لینے کے حوالے سے امیر ترین ہوتا ہے تاہم موجودہ حالات میں خان اعظم کا واویلا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اتحادیوںکی حمایت حاصل کرنے کے لیے منتخب ارکان کی بولی لگا رہی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ لوٹ مار کر کے دولت کی بوریوں کے منہ کھول دئےے گئے ہیں اور ابتدائی طور پر دس کروڑ سے شروع ہونے والی اب بولی بیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے، تاہم انہیں یقین ہے کہ منتخب ارکان بکاﺅ مال نہیں لہٰذا وہ اپوزیشن کے ہتھے نہیں چڑھیں گے اور حکومت اس تحریک عدم اعتماد میں بھی اپنے اتحادیوں کی بدولت اپوزیشن کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کہتے ہیں کہ اپوزیشن نے تحریک عد م اعتماد کا شوشہ چھوڑ کر سیاست میں تلخیاں پیدا کر دی ہیں جبکہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کہہ رہے ہیں کہ پانچ سیٹوں والے حکومت کو وزیر اعلیٰ بننے کے لیے بلیک میل کر رہے ہیں حالانکہ وہ ایک اہم سیاستدان ہونے کے حوالے سے یہ بات جانتے ہیں کہ منظوروٹو اورعارف نکئی کتنی کتنی سیٹوں سے وزیر اعلیٰ بنے تھے، موجودہ حالات اس قدر سنجیدہ ہیں کہ ایک مرتبہ پھر ماضی کی طرح حکمت عملی بنے اور اپوزیشن کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے کسی چھوٹی پارٹی کا سہارا لے لیاجائے ، وفاق بچانے کے لیے پنجاب کا مورچہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے لیکن حالات یہاں بھی ہاتھ سے نکلتے محسوس ہو رہے ہیں۔ عبد العلیم خان نیب ٹرائل اور سردارعثمان بزدار کے بطور وزیراعلیٰ پنجاب انتخاب پر پارٹی اور قیادت سے کافی حد تک ناراض ہیں ، قیادت نے انہیں سینئر وزیر بنا کر راضی کر لیا تھا پھر نیب نے جیل میں ڈال کر دوبارہ ناراض کر دیا، نیب سے سرخرو ہونے کے بعد عبدالعلیم خان نے وزارت سے دستبرداری سے یہ پیغام دے دیا تھا کہ انہیںجھوٹے دلاسوں کی ضرورت نہیں لیکن ان کی پرواہ نہیں کی گئی، موجودہ صورت حال میں عبدالعلیم خان نے جہانگیر ترین سے ہاتھ ملا کر مضبوط ہونے کی کوشش کی لیکن بات نہیں بنی لہٰذ ادونوں کی راہیں جدا ہو گئیں اس خبر کے پس منظر میں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے جہانگیر ترین گروپ کے ارکان سے ملاقات کرکے وفاق سے داد وصول کرنے کی کوشش کی ، اور تو اور وزیراعلیٰ اپنے مخالف ترین گروپ ”چھینہ“کے ممبران سے بھی ملے (جو متفق ہیں کہ پنجاب کو عثمان بزدار سے نجات دلائی جائے) پھربھی ایک میز پر بیٹھے دیکھے گئے کیونکہ سیاست میں ذاتی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ تلخی اتنی نہ ہو کہ گفتگو مشکل ہو جائے، پھر بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے ایسی زبان استعمال کی جا رہی ہے جو نہ سیاسی ہے نہ ہی اخلاقی اور روایتی ، جس سے خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ بات تو بہت دورتک جائے گی ۔
سیاسی مبصرین اور ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے اتحادی حکومت کے لیے سب سے مشکل مرحلہ اتحاد کو قائم رکھنا ہوتا ہے، کیونکہ اقتدار کے ساتھی بھی برے وقت میں دشمن بنتے دیر نہیں لگاتے۔ اتحادی قاف لیگ نے مونس الٰہی کووفاقی وزیر بنانے کے لیے وفاق کے تمام نخرے برداشت کئے لیکن اب معاملات یکسر بدل گئے اور مونس الٰہی کھل کر بول رہے ہیں، وزیر داخلہ شیخ رشید (ن) اور(ق) ہی نہیں بلکہ ہر دور میں اقتدار میں رہے، ان کا تجربہ اپنی جگہ لیکن مونس الٰہی نے ان سے بھی دو دو ہاتھ کر لیے ان کا کہنا ہے کہ شیخ رشید بھول گئے کہ وہ کس جماعت کے بزرگوں سے پیسے لیا کرتے تھے، مسلم لیگ قاف اہم اتحادی، چود ھری شجاعت حسین کی قیادت میں متحد اور کسی کشمکش کا شکار نہیں، حکومتی وزراءکو بولنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ وہ کیا بول رہے ہیں اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں ۔مونس الٰہی نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ قاف کی قیادت باہمی مشاورت سے اجتماعی مفادات کے لیے بہترین فیصلہ کرتی ہے، کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی صاحب ِبصیرت سیاستدان ہیں، انہوں نے کبھی سطحی فیصلے نہیںکئے ، میں سمجھتا ہوں کہ شیخ رشید بھی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ی کا دم بھر رہے ہیں، انہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے جام کمال سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بھی کھری کھری سنا دی ہے کہ ”باپ “ اپنے فیصلے خود کرے گا شیخ رشید کی اسے ضرورت نہیں لہٰذا مشوروں سے پرہیز کریں وہ اپنے دعوے کریں لیکن ”باپ“ نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مزید مشاورت کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کی خواہش ہے کہ جو فیصلہ بھی کیا جائے وہ عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے، اس قدر تنقید کے باوجود شیخ رشید مسلسل دعووں میں مصروف ہیں ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عد م اعتماد ناکا م ہو گی اور اسی تنخواہ پر شور شرابہ کرتی رہے گی، اس کے مقدر میں یہی کچھ ہے اس لیے کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔ میں چٹان کی طرح عمران خان کے ساتھ ہوں اور ڈٹ کر کھڑا رہوں گا، وہ پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرے گا ، اپوزیشن خواہ کچھ بھی کر لے ۔
وزیر اعظم عمران خا ن کو خوش فہمی تھی کہ اپوزیشن کبھی ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائے گی البتہ بزدار حکومت کو تبدیل کرکے اتحادیوںسے راضی نامہ کرلیں گے لیکن صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی ، ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کا مسودہ بھی تیار کر لیا گیا ہے اور اس پر بھی سو سے زائد اراکین نے دستخط کر دئےے ہیں، الزام دونوں پر یہی لگایا گیا ہے کہ و ہ ایوان کے ذمہ دارہونے کے باوجود غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوان کو پارٹی ہدایات کے مطابق چلا رہے ہیں جسے کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا، بات یہاں ختم نہیں ہو رہی بلکہ اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کرنے کی خواہشمند ہے جبکہ اس کی حکمت عملی میں صدر عارف علوی کے خلاف بھی مواخذے کی تحریک چلانے کا پروگرام ہے، اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے انکشاف کر دیا کہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کے پس پردہ عالمی قوتیں ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ہیں لہٰذا ان کی تمنا کچھ نیا کرنے کی ہے، اپوزیشن اورحکومت کے درمیا ن ایک جمہوری مقابلہ کا آغاز ہو چکاہے ، دونوں اپنے اپنے انداز میں صف بندی کررہے ہیں کس کی جیت ہو گی اور کون ہارے گا، اس معاملے پر ابھی حتمی رائے دینا ممکن نہیں پھر بھی دونوں صورتوں میں فتح جمہوریت کی ہوگی اور اس سے جمہوری اقدار مستحکم ہونگے ۔ وزیر قانون فروغ نسیم کہتے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں، خالد مقبول اور رابطہ کمیٹی کا استحقاق ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر فیصلہ کریں ، لیکن ہمیں یقین ہے کہ فیصلہ مشترکہ ہوگا۔ تحریک عدم اعتماد میں وزیر اعظم کے خلاف جن ارکان اسمبلی کی بغاوت کے امکانات اورخدشات موجود ہیں، ان باغی لوگوں میں زیادہ تعدادجنوبی پنجاب کی ہے تاہم دس ارکان سنٹرل پنجاب کے بھی ہیں ، تین کراچی اور دو قبائلی علاقے سے ہیں تاہم کے پی کے میں بھی ایک باغی موجود ہے ۔ دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے لاہور میں چودھری برادران سے ملنے کے باوجود بھی ووٹ اور ساتھ دینے کی بات کی لیکن وقت کے تیور دیکھتے ہوئے انہوں نے مونس الٰہی سے طویل ٹیلی فونک گفتگو کی اور اب سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی سے بھی ملاقات کر لی پھر بھی کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے ،ابھی تک حکومت یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ تصادم کی طرف جانا ہے کہ مفاہمت سے وقت گزارنا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خا ن کو خوش فہمی تھی کہ اپوزیشن کبھی ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائے گی البتہ بزدار حکومت کو تبدیل کرکے اتحادیوںسے راضی نامہ کرلیں گے لیکن صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی ، ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کا مسودہ بھی تیار کر لیا گیا ہے اور اس پر بھی سو سے زائد اراکین نے دستخط کر دئےے ہیں، الزام دونوں پر یہی لگایا گیا ہے کہ و ہ ایوان کے ذمہ دارہونے کے باوجود غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوان کو پارٹی ہدایات کے مطابق چلا رہے ہیں جسے کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا، بات یہاں ختم نہیں ہو رہی بلکہ اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کرنے کی خواہشمند ہے جبکہ اس کی حکمت عملی میں صدر عارف علوی کے خلاف بھی مواخذے کی تحریک چلانے کا پروگرام ہے، اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے انکشاف کر دیا کہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کے پس پردہ عالمی قوتیں ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ہیں لہٰذا ان کی تمنا کچھ نیا کرنے کی ہے، اپوزیشن اورحکومت کے درمیا ن ایک جمہوری مقابلہ کا آغاز ہو چکاہے ، دونوں اپنے اپنے انداز میں صف بندی کررہے ہیں کس کی جیت ہو گی اور کون ہارے گا، اس معاملے پر ابھی حتمی رائے دینا ممکن نہیں پھر بھی دونوں صورتوں میں فتح جمہوریت کی ہوگی اور اس سے جمہوری اقدار مستحکم ہونگے ۔ وزیر قانون فروغ نسیم کہتے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں، خالد مقبول اور رابطہ کمیٹی کا استحقاق ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر فیصلہ کریں ، لیکن ہمیں یقین ہے کہ فیصلہ مشترکہ ہوگا۔ تحریک عدم اعتماد میں وزیر اعظم کے خلاف جن ارکان اسمبلی کی بغاوت کے امکانات اورخدشات موجود ہیں، ان باغی لوگوں میں زیادہ تعدادجنوبی پنجاب کی ہے تاہم دس ارکان سنٹرل پنجاب کے بھی ہیں ، تین کراچی اور دو قبائلی علاقے سے ہیں تاہم کے پی کے میں بھی ایک باغی موجود ہے ۔ دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے لاہور میں چودھری برادران سے ملنے کے باوجود بھی ووٹ اور ساتھ دینے کی بات کی لیکن وقت کے تیور دیکھتے ہوئے انہوں نے مونس الٰہی سے طویل ٹیلی فونک گفتگو کی اور اب سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی سے بھی ملاقات کر لی پھر بھی کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے ،ابھی تک حکومت یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ تصادم کی طرف جانا ہے کہ مفاہمت سے وقت گزارنا ہے ۔