من پسند سیاسی جماعتوں کی غلامی …. احمد نوید

احمد نوید
اسلام کہتا ہے کہ خدا نے انسان کو جو وقار عطا کیا ہے ۔ اس کا احترام لازم ہے خواہ کوئی انسان کسی بھی عقیدے ، نسل ، جنس یا سماجی حیثیت سے تعلق رکھتا ہو۔ اتنے واضح احکامات اور ہدایت کے باوجود آج ہماری سیاست میں گالم گلوچ ، دھمکی ، طعن و تشنیع ، دوسروں کے عزت نفس کی پامالی ، دھونس ، دوسروں کو حقارت اور خود کو برتر سمجھنے کی روش عروج پر ہے۔ پاکستان میں سیاست کبھی اتنی گندی ، شائستگی اور رواداری سے خالی نہیں تھی ۔ پاکستان میں ہمارے سیاستدان تو ایک ہی مذہب اسلام سے تعلق رکھتے ہیں او راسلام تو مختلف مذاہب اور مسلک سے تعلق رکھنے والے تمام انسانوں کے ساتھ بھی عزت ، احترام اور شفقت سے پیش آنے کی تلقین اور تاکید کرتا ہے ۔
پاکستانی سیاست میں موجود عدم برداشت پر معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی بھی تشویش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ سیاسی اختلافات میں جس بری طرح اسلامی احکام و اقدار پامال ہو رہی ہیں ۔ اُن کا تصور کر کے بھی ڈر لگتا ہے ۔ ایک سورة میں حکم دیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاﺅ ، غیبت، بدگمانی نہ کرو اور نہ ہی کسی کا نام بگاڑ کر پکارو۔آج پاکستان کی سیاست ایک عجیب موڑ پر کھڑی ہے ۔ حکومت تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے ہاتھ پاﺅں ماررہی ہے بلکہ حکومتی وزرا ءاور خود وزیراعظم پاکستان کے لب ولہجے میں چاشنی دکھائی نہیں دے رہی ۔ 28مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ، اُس سے ایک روز قبل پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ ، جس کے جواب میں مولانا فضل الرحمن 23مارچ کو ہی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر چکے تھے۔
اس صورت حال میں جب حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد ڈی چوک میں اکٹھے ہوں گے، تو تصادم کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب کا بھی کہنا ہے کہ عوام کو آمنے سامنے کرنے اور سیاست کو تلخیوں کا زہر گھولنے اور باہم دست و گریبان ہونے سے آئین اور جمہوریت دونوں کو خطرہ ہے ۔ ماضی میں بھی اس طرح کے حالات کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا ہے ۔
تحریک عدم اعتماد ایک آئینی معاملہ ہے ۔ اِسے حکومت کا طاقت کے ساتھ روکنا مناسب نہیں ۔ وفاقی وزراءکا یہ کہنا کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے قومی اسمبلی کے ارکان کو دس لاکھ لوگوں کے مجمع میں سے گزرکر جانا اور واپس آنا ہوگا۔ یہ ایک طرح سے دھمکی اور قومی اسمبلی اراکین کے لیے ڈراوا اور دبکا ہے ۔ حالانکہ ماضی میں بھی یہ جمہوری عمل اختیار کیا گیا ہے۔ لہٰذا اب ایسا کرنے میں حرج کیا ہے ۔
28مارچ تک آنے والا ہر نیا دن خیالات ، نظریات اور حالات بدل رہا ہے ۔ چودھری پرویزالٰہی کے انٹر ویومیں بہت کچھ تھا سمجھنے والوں کے لیے ۔ دوسری جانب وزیراعظم کی تقاریر بھی معنی خیز ہیں ۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب اپنی کامیابی کے دعوے ، دلائل گرج چمک کر سامنے آرہے ہیں ۔ ان حالات میں جب کشیدگی آسمان کو چھو رہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر دونوں اطراف سے ٹرولنگ کا نہ رکنے والا طوفان ہمیں کہاں لے جا کر کھڑا کرے گا۔ تندو تیز تلخ جملے ، منفی اور کسی حد تک گھٹیا لفظوں کا استعمال ، آج ہماری سیاست نے رولز آف دی گیم ہی بدل دئیے ہیں ۔
ماضی میں ایسی خطرناک اور برائی کو بڑھاوا دینے کی مثالیں کم ملتی ہیں ۔ ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ سیاستدان وہ لوگ ہیں ۔ جنہیں ووٹر اپنا محبوب قائد اور آئیڈیل سمجھتا ہے گذشتہ دنوں کسی سکول کے نویں جماعت کے طالب علم کو جب پرنسپل نے موبائل استعمال کرنے سے منع کیا اور طالب علم سے موبائل لے کر اُسے کہا کہ چھٹی کے وقت مجھ سے لیتے جانا۔اس گفتگو پر طالب علم نے طیش میں آتے ہوئے کہا کہ مجھے میرا موبائل ابھی دو ورنہ میں تمہارے گھر میں گھس کر بھی موبائل لے لوں گا۔
درحقیقت یہی وہ خطرناک رویہ ہے ۔ جس پر مفتی تقی عثمانی کو خدشہ ہے کہ یہ نفرت ، دھونس اور عدم برداشت ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے سرائیت کر رہا ہے ۔ گھر کا سربراہ گھر والوں کے لیے مثال ہوتا ہے ۔ اگر وہ بری مثال ہے، گھر والے ، بچے سب اُسے فالو کریں گے۔ اگر وہ سربراہ اخلاقیات کی اچھی مثال قائم کرے گا، تب بھی گھر والوں نے اُسے فالو کرنا ہے ۔ آج ہماری سیاست الزام تراشیاں ، کردار کشی ، لفظی گولہ باری کے گرد آکھڑی ہے ۔ ناپسندیدہ سیاسی پارٹی اور اُس کے قائدین مخالف پارٹی کے ورکروں اور کارکنوں کی نفرت کی زد میں ہیں ۔
یہ لمحہ فکریہ ہے ۔ سینے اگر رحم دلی سے خالی ہو جائیں ، اخلاق اور کردار تباہ ہو جائے، عدم برداشت عروج پر ہو ، تحمل نام کو دکھائی نہ دیں تو مفتی تقی عثمانی ہی نہیں بلکہ بہت سے دوسرے اہل علم کے لیے بھی تکلیف دہ ہے ۔ میرا سیاستدانوں سمیت تمام سیاسی ورکروں اور کارکنوں سے سوال ہے کہ منفی ، غلیظ اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرتے ہوئے انہیں اپنے ضمیر کی آواز سنائی کیوں نہیں دیتی ۔ صلہ رحمی سے خالی دل ، اپنے مخالفین کو شکوک بھری نگاہوں سے دیکھنا ، مخالفین کے سیاسی نظریے کو تسلیم نہ کرنا، مخالفین کو غدار وطن اور سازشی قرار دینا ، خدارا اس روش کو بدلنے کی فوری ضرورت ہے ۔ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم انسان ہیں روبوٹ نہیں ۔ انسان کے اندر دل ہوتا ہے ، احساس ہوتا ہے ، اُس کی سوچ ہوتی ہے، اُس کا ضمیر ہوتا ہے ۔ ہاں روبوٹ ایک مشین ہے اوراِن تمام خصوصیات سے خالی۔ ایک معاشرے میں ، ایک ملک میں رہتے ہوئے ، ہمیں کچھ تو احساس کرنا ہوگا ۔ ہم سیاست سیاست کھیل کر اخلاقیات کی تباہی کی بہت بڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ سیاست کے میدان میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ آج ایک کل دوسری ۔ بس ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کےا ہمارے عدم برداشت اور نفرت پر مشتمل روئیے ہمیں من پسند سیاسی جماعتوں کی غلامی کی طرف لے جارہے ہیں ۔