وقوعہ کا انتظار کیوں؟ … کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
پچھلے اتوار کو میرے لکھے گئے کالم”آرٹیکل 63 اے اورخارجہ پالیسی پر تنقید“کو بہت پذیرائی ملی اور ارباب اقتدار نے بھی اس کو سنجیدگی سے لیا۔ مجھے خوشی ہے کہ آج حکومت پاکستان اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کے دھندے میں ملوث اراکین کے خلاف آرٹیکل 63اے۔بی کے تحت کارروائی کا سنجیدگی سے سوچ چکی ہے بلکہ پیر کے روز حکومت اس قانون کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے جا رہی ہے۔ایک بات تو یقینی ہے کہ جو بھی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ ڈالے گا ،اس کی تاعمرنااہلی کو تو کوئی نہیں روک سکتا،لیکن میرا استدلال اب بھی یہ ہے کہ جب قریباً ایک درجن سے زائد اراکین اسمبلی مختلف چینلوں پر عوام کے سامنے آ کر تحریک انصاف کے خلاف بیانات بھی دے رہے ہیں تو ان پر ڈیفیکشن لاز لاگو ہو چکے ہیں۔ خیر اس آرٹیکل کی تشریح تو سپریم کورٹ کرے گا، لیکن خوشی ہے کہ اراکین اسمبلی کی اس بدترین خریدوفروخت کے دھندے میں میری لکھی تحریر کو وفاقی وزراءاور وزیر اعظم پاکستان نے اہمیت کا حامل جانا اور آرٹیکل 63اے،بی کے تحت پاکستان میں پہلی مرتبہ اراکین اسمبلی کے خلاف اپنا ضمیر بیچنے اور مالی مفادات کے تناظر میں ووٹ فروخت کرنے پر کارروائی ہونے جا رہی ہے۔اس کالم کے توسط سے میں ان تمام وفاقی وزراءواراکین اسمبلی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے کالم پر مجھے رابطہ کر کے شکریہ بھی ادا کیا اور وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں اس آرٹیکل کے تحت منحرف اراکین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ تمام 14 منحرف اراکین اسمبلی کو پارٹی قیادت کی جانب سے 7 روزہ شوکاز نوٹس بھیج دیئے گئے ہیں جبکہ وزارت قانون کی جانب سے ان اراکین کے خلاف سمری تیار کی جا رہی ہے جو صدر مملکت کی جانب سے ریفرنس کے لیے پیش کی جائے گی۔ پھر لکھ دیتا ہوں کہ1997میں ملے جعلی دو تہائی مینڈیٹ کے بعد یہ قانون نواز شریف نے چودھویں ترمیم کے تحت بنایا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کی زبانوں اور ضمیر پر تالے لگانا تھا۔ مشرف دور میں بھی17ویں ترمیم میں اس کو آئین کا حصہ رکھا گیا اور پھر چارٹر آف ڈیموکریسی(عوام کے حقوق پر سودے بازی)کے تحت 2010 میں متنازعہ اٹھارویں ترمیم میں اسے برقرار رکھا گیالیکن منحرف اراکین کے خلاف کارروائی کا اختیار پارٹی سربراہ سے لیکر حکومت کے سربراہ کو دے دیاگیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فوادچودھری کے اس بیان میں وزن نظر آتا ہے کہ جب سب کچھ آشکار ہو چکا تو کیا حکومت، ادارے اور عدالتیں انتظار کرتی رہیں گی کہ کب یہ اراکین اسمبلی آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے مفادات جو کہ مالی ہیں(ان کے انکار کے باوجود)کے تناظر میں تحریک انصاف کی ٹکٹ کے طفیل ملی رکنیت کو عمران خان کے خلاف غیر آئینی طور پر استعمال کریں؟
موجودہ سیاسی خریدو فروخت کی بدترین صورتحال کو دیکھتے ہوئے مجھے زمانہ طالب علمی میں دوست بننے والے ایک رانا شفیق نامی بزرگ سب انسپکٹر پولیس کاسنایا ہوا قصہ یاد آ گیا۔ سب انسپکٹر پولیس رانا اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ لاہور کے جوہر ٹاو ¿ن میں گشت پر تھے ، انہوں نے کار میں ایک جوڑے کو درختوں کی آڑ میں دیکھا۔ رانا صاحب کے بقول وہ اور ان کے سپاہی بھی وہاں چھپ کر بیٹھ گئے اور قریباًدو گھنٹے وہ وہاں بیٹھے رہے لیکن انہیں کامیابی نہ ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ ”کیسی کامیابی“ توبولے جب تک”وقوعہ“نہ ہوتاوہ اس جوڑے کو کیسے پکڑتے؟ رانا صاحب کے اس جملے کو ہم دوست بہت مزے لے لے کر یاد کیا کرتے تھے کہ”وقوعہ“توہونے دو۔ یہ80 کی دہائی کا واقعہ ہےاور اس وقت پولیس میں پریوینشن آف کرائم)کا کوئی خاص تصور نہیں تھا۔
اسلام آباد کے سندھ ہاو ¿س میں جس طرح اراکین اسمبلی کو چھپا کر رکھا گیا وہ نہایت ہی شرم کا باعث تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سندھ ہاو ¿س میں چھپائے ہوئے اراکین اسمبلی کا سراغ لگانا موجودہ حکومت کی کامیابی ہے اور اسی سراغ کی وجہ سے نام نہاد اپوزیشن کا نہ صرف پلان کافی حد تک ناکام ہو گیا بلکہ عوام کہ سامنے ان تمام خریدوفروخت کرنے والوں کی اصل حقیقت جو بہت مکروہ ہے، وقت سے بہت پہلے آگئی۔ عوام کے سوچنے کی بات ہے کہ جب حکومت نے ان بکے ہوئے اراکین کا سراغ لگالیا تو مریم اورنگزیب اور عطا تارڑ میڈیا والوں کی رہنمائی کے لیے سندھ ہاو ¿س موجود تھے۔ عوام کے لیے اس حقیقت میں بہت کچھ چھپا ہوا ہے کہ آج شریف برادران، زرداری اورمولانا فضل الرحمان ایک ہی کشتی پر سوار ہیں جس کا مقصد صرف اور صرف موجودہ حکومت کا خاتمہ اور اقتدار پر قبضہ کر کے نیب، ایف آئی اے اور دوسرے تحقیقاتی اداروں کا خاتمہ اور قوم کے لوٹے ہوئے کھربوں روپے کے کیسز سے جان چھڑانا ہے۔
ووٹ کو عزت دینے کا ڈرامہ کرنے والے جو فوجی جرنیلوں کانام لے لے کر جلسوں میں مغلظات بولتے چلے آرہے ہیں، کا موجودہ بیان کہ ”میں(شہباز شریف)فوج کو قابلِ قبول ہوں اور میرے تمام آرمی چیفس کے ساتھ تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں“بہت کچھ آشکار کر رہا ہے۔ میری شدید حیرانگی کا باعث نیب زدہ اور اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث شہباز شریف کا یہ بھی بیان ہے کہ”آرمی چیف کی تعیناتی یا توسیع کا فیصلہ حالات دیکھ کر کروں گا….“حکومت کی بروقت بکے ہوئے اراکین اسمبلی کی نشاندہی کے بعد ان منحرف اراکین کے خلاف عوامی ردعمل بھی قدرتی ہے اور یہ ردعمل عوام کے سیاسی شعور کی جانب سفر کی ابتدا کا عندیہ دے رہا ہے۔ عوامی ردعمل کے نتیجے اور تاعمر نا اہل ہونے پر ارکان اسمبلی کا واپسی کا سفر جلد شروع ہونے کے امکانات ہیں، لیکن ایسے کسی بھی ردعمل میں تشدد کی موجودگی ناقابل برداشت ہے اور ایسا کوئی عمل ملکی وحدت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ویسے تو میرے لیے حیرانگی کا باعث وجیہہ اکرم نامی خاتون (جو مخصوص سیٹ پر ایم این اے بنیں اور پھرانہیں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے وفاقی تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ بنایا گیا) کی عمران خان کے خلاف ووٹ دینے کی خواہش ہے۔بتایا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ موصوفہ کو پارلیمانی سیکرٹری بنانے میں شفقت محمود کا بہت کردار تھا اور یہ بھی شنید ہے کہ ایک وفاقی وزیر بھی وجہیہ اکرم کو ملنے سندھ ہاو ¿س آتے رہے ہیں۔اب یہ معلوم کرنا حکومت کا کام ہے کہ وہ وفاقی وزیر شفقت محمود ہیں یا کوئی اور۔ ویسے اس خریدوفروخت کے گرم بازار میں شفقت محمود کی خاموشی مجھے تو کھٹک رہی ہے۔باقی اللہ جانے۔
موجودہ سیاسی صورتحال میں جبکہ اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت بے نقاب ہو چکی تو اس خریدوفروخت کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز میں بھی شدید بے چینی اور انتشار پھیل چکا ہے۔اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت پر مسلم لیگ نواز کے عہدے داروں اور اراکین اسمبلی کا شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے اور اسی وجہ سے مسلم لیگ نے اپنی جماعت کا اجلاس بھی ملتوی کر دیا ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ مسلم لیگ نواز کے اراکین اسمبلی کا ایک بڑا دھڑا بھی بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں اپنی قیادت کی جانب سے اراکین کی خریدوفروخت پر نالاں ہو کر ایک گروپ کی صورت میں تحریک عدم اعتماد کا بائیکاٹ کرتے ہوئے حکومت کو سپورٹ کرنے کو تیار ہے۔خیر آنے والے دنوں میںسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ اور سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 63اے کی تشریح سیاست کے رخ کا تعین کریں گے لیکن تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ اتنا بھی آسان نہیں جتنا سمجھااور بتایا جا رہا ہے۔
موجودہ بدترین سیاسی طوائف الملوکی کی صورتحال نے پاکستان کے میدان سیاست میں ہونے والی ماضی کی بدترین ہارس ٹریڈنگ اوراراکین اسمبلی کی بدترین خریدو فروخت کی بدترین یادوں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔قریباً تیس سال کے بعد بھی اراکین اسمبلی کی جانوروں کی طرح خرید و فروخت نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی سیاست میں ابھی بھی ناسور موجود ہیں اور ان کو نشان عبرت بنائے بغیر اس نظام میں بہتری کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے۔