تحریکِ عدم اعتماد… حقائق اور تاریخ ….. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان
جب سے اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی ریکوزیشن جمع کروائی ہے تب سے مختلف مفروضے اور حقائق سامنے آرہے ہیں۔ چونکہ آئین کے تقاضوں کے مطابق اس پر عملدرآمد اور ضروری کارروائیاں وقت کے ساتھ ساتھ مرحلہ وار کی جانا ضروری ہو ہیں اس لیے اس طریقہ کار کو سمجھنا اور خاص طور پر عوام الناس کے لیے بھی اس کے متعلق صحیح آئینی حقائق سے آگاہی ضروری ہے تاکہ خوامخواہ کے مفروضے یا ڈس انفارمیشن کا احتمال نہ رہے۔ شروع میں کہا جاتا رہا کہ حکومت اگر قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلائے تو تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی اس ضمن میں آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کا نوٹس موصول ہونے کی صورت میں قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بھی بلایا جائے تو بھی ایسا تصور ہو گا جیسے عدم اعتماد پر عمل ہو گیا ہے۔ پاکستان کے قانونی اور آئینی ماہرین کے مطابق ایک مرتبہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نوٹس موصول ہو جانے کی صورت میں سپیکر کے پاس سات روز کے اندر اندر اس سارے عمل کو کسی بھی منطقی انجام تک پہنچانے کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں رہ جاتا۔ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کی صورت میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں ممکنہ تاخیر سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل میں تاخیر ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ سپیکر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نوٹس موصول ہونے کی صورت میں مخصوص مدت کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس نہ طلب کریں، یہ ان کی صوابدید ہی نہیں ہے۔ آئین کا آرٹیکل 95 بالکل واضح طور پر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں کارروائی سات دن کے اندر اندر مکمل کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ عدم اعتماد کے نوٹس پر وصولی کے پہلے تین دن میں ووٹنگ نہیں ہوسکتی، تاہم یہ سارا قضیہ بہرصورت نوٹس ملنے کے بعد سات دن میں مکمل ہونا ضروری ہے، ایسا آئین اور اسمبلی رولز میں لکھا ہے۔
اپوزیشن کے علاوہ حکومتی جماعت میں بھی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام یا ’غیر موثر‘ بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اس سلسلے میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں تاخیر کو سب سے کار آمد حربہ تصور کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ کوئی مؤثر آئینی حربہ نہیں ہے۔بعض آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین پاکستان کی منشا یہی ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا عمل زیادہ سے زیادہ چودہ روز میں مکمل ہو، جس میں قومی اسمبلی کے اجلاس کا بلایا جانا، تحریک کا پیش ہونا، ووٹنگ اور دوسرے تمام متعلقہ کام شامل ہیں۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو صرف آرٹیکل 95 اور اس کے تحت بننے والے قومی اسمبلی کے طریقہ کار کے قوانین کو (رولز آف پروسیجر) کے سیکشن 37 کے تحت ہی دیکھا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں آئین کا آرٹیکل 254 کہتا ہے کہ جب آئین کے مطابق کوئی عمل یا کام کسی خاص مدت کے اندر کرنا ضروری ہے اور اسے اس مدت کے اندر نہیں کیا جاتا ہے تو اس عمل یا چیز کا کرنا صرف اس وجہ سے باطل یا غیر موثر نہیں ہوگا کہ یہ کام اس مدت کے اندر نہیں کیا گیا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 95(1)کے تحت وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم 20 فیصد کے برابر اراکین تحریری نوٹس اسمبلی سیکرٹیریٹ میں جمع کراسکتے ہیں۔ آرٹیکل 95(2) میں لکھا ہے: ’شق (1) میں جس قرارداد کا ذکر ہے، اس پر قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد سے تین دن سے پہلے یا سات دن بعد ووٹنگ نہیں ہو سکے گی۔ جب کہ اسی آرٹیکل کی شق 4 کے مطابق مذکورہ قرار داد کے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہیں گے۔ قومی اسمبلی کے طریقہ کار کے قوانین کی شق 37 میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے طریقہ کار کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نوٹس کی وصولی کے بعد سیکریٹری اسمبلی جلد از جلد اسے اراکین کو ارسال کریں گے، جب کہ اگلے ورکنگ ڈے میں اسے آرڈر آف دی ڈے میں متعلقہ اراکین کے نام درج کیا جائے گا۔ اس میں مزید درج ہے کہ قرارداد کے پیش ہونے کے بعد سپیکر ایوان کے بزنس کو ذہن میں رکھتے ہوئے تحریک پر بحث کے لیے ایک دن مقرر کر سکتے ہیں۔ طریقہ کار کے قوانین میں بھی تحریک عدم اعتماد کو سیکریٹریٹ میں جمع ہونے کے تین دن بعد اور سات دن کے اندر نمٹانے کا ذکر موجود ہے۔ اسی طرح رولز آف پروسیجر کے سیکنڈ شیڈول میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ایوان میں اوپن بیلٹنگ کے ذریعے ووٹنگ کا طریقہ کار بھی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
تحریک کی کامیابی کی صورت میں کیا ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وہ اپنے عہدے سے فارغ تصور ہوں گے۔ تاہم صدر مملکت موجودہ وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ان کے جانشین کے انتخاب تک ذمہ داریاں انجام دینے کا کہہ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ عبوری وزیراعظم اور عبوری حکومت صرف قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد تعینات ہوتے ہیں جبکہ عدم اعتماد کی صورت میں وہی چیف ایگزیکٹو عارضی طور پر کام جاری رکھتے ہیں۔پاکستان میں اب تک دو منتخب وزرائے اعظم کے خلاف تحاریک عدم اعتماد پیش کی جا چکی ہیں تاہم دونوں چیف ایگزیکٹوز اپنے مخالفین کو شکست دینے میں کامیاب رہے ۔ پہلی تحریک عدم اعتماد سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف نومبر 1989 میں پیش کی گئی تھی جو قومی اسمبلی میں صرف 12 ووٹوں سے رد کر دی گئی۔ اسی طرح سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کو اقتدار سے ہٹانے کی خاطر حزب اختلاف نے 2006 میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی، لیکن اپوزیشن کو کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔
اسی طرح صوبہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کے خلاف بھی 2018 میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، تاہم انہوں نے ووٹنگ سے پہلے ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے موجودہ دور حکومت میں سینیٹ کے چیئرمین محمد صادق سنجرانی کے خلاف 2019 میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ تاہم سال 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے پہلے سپیکر سید فخر امام کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کامیاب رہی ۔یہ تو تھے تحریک عدم اعتماد سے متعلق چند آئینی حقائق اور تحاریک عدم اعتماد کی ملکی تاریخ جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں اکثر ایسی تحریکیں ناکام ہی ہوئی ہیں۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف یہ تحریک کامیاب ہوتی ہے یا ناکام؟۔ اس ضمن میں ایک عرضداشت اہل اقتدار اور اپوزیشن دونوں کے گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ پچھلے ایک ماہ سے عوام الناس کی حالت زار پر نہ تو حکومت غور کررہی ہے اور نہ ہی اپوزیشن ۔ ان کو صرف اپنے اقتدار کے معاملات ہی مقدم نظر آرہے ہیں۔ عوام بھوک سے مرجائیں یا مہنگائی سے ان کی بلا سے۔