وادی خرمنگ ، کارگل روڈ پر ….. قیصر عباس

قیصر عباس
سکردو سے نکلتے ہوئے ، کسی بھی پہاڑی شہر سے مضافات کی طرف جاتے ہوئے ، اجنبی وادی کی طرف سفر بہت تجسس سے بھر پور ہوتا ہے ، پہاڑوں کے رنگ ، دریاو ¿ں کی روانی ، چشموں اور جھیلوں کی خوبصورتی نئے ذائقے بھرتی جاتی ہے۔ ہم مسلسل کچھ روز سے حسین آباد سکردو کی گزر گاہ کو دیکھ رہے تھے اور کبھی خپلو چلے جاتے تھے ،کبھی شگر اور اسکولے۔ سکردو اپنا ہی شہر تھا اور بہت زیادہ اپنا بن چکا تھا۔ کہیں محمد علی سودے اور کہیں علی سدپارا اس محبت کا سبب تھے۔ ابھی کل رات اسکولے کے دوست ملنے چلے آئے تھے۔ غلام رسول بروکو موٹر سائیکل پر وہاں سے آ یا تھا جہاں جانے کے لیے ہم ایک مدت سے دیکھے گئے خواب کی تعبیر کے لیے پہنچے تھے۔
اس بار دیوسائی اور سدپارا گاو ¿ں ہمارے سفر کا حصہ نہ تھے۔ ہم سکردو سے ایسے اٹھے ” جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے “ سیاہ اور گہرے نیلے رنگ کی دو گاڑیاں خوابوں سے بھری تھیں اور وادی خرمنگ کی طرف دوڑ رہی تھیں۔ حسین آباد کے بعد ٹھنڈے صحرا کی طرف ، یعنی اندھی جھیل کی طرف اور کے ٹو کی طرف نہیں گئے۔ وہ چوک جس پر لگا بورڈ شگر طرف متوجہ کرتا تھا اور سرینا ہوٹل کے دو بورڈ نصب تھے۔ ہم اس طرف نہ مڑے بلکہ شاہرائے خوبانی کی طرف چلتے گئے۔ سڑک شاندار تھی اور دریائے سندھ ہماری بائیں جانب بہتا تھا۔ حد نگاہ تک چٹیل پہاڑ تھے اور وسعت تھی۔
ایسی وسعت تھی کہ ہمارے ساتھ سندھ دریا تھا اور زرد دھوپ تھی۔ پتھروں پر چلتے ہوئے جو اکتاہٹ ہوتی ہے وہ حجاب اور آیت کی لڑائی کی شکل میں ظاہر ہوئی اور پھر بچوں کی لڑائی میں بڑے کود پڑے۔سیٹ پر لیٹنے کے کیس میں جگہ کی تقسیم کا معاملہ شدت اختیار کر گیا اور فوزیہ نے ان کو آئندہ ساتھ نہ لانے کی قسمیں اٹھانا شروع کر دیں۔ مگر پھر ہمیں ایک جگہ رکنا پڑا۔ جہاں سے دریائے سندھ میں لداخ سے آنے والا دریائے شیوق شامل ہوتا تھا۔ خپلو سے آنے والی سڑک سکردو جا رہی تھی اور ایک پختہ اور نو تعمیر شدہ پل ، جس کے ساتھ متروک پل بھی بوڑھے ڈھانچے کے ساتھ پانی پر جھولتا تھا ، ہم وہاں پر رک گئے۔ اسی مقام سے کل ہم خپلو کی طرف مڑ گئے تھے اور اب خرمنگ وادی ہماری منزل تھی۔
ہم منٹھوکھا آبشار اور خپلو جانے والے سنگم پر کھڑے تھے۔ اس پل سے منٹھوکھا 23 کلومیٹر اور خپلو 58 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ اب ہم دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ بائیں جانب مڑ گئے۔ چیک پوسٹ پر اندراج ہوا اور دریا کی دوسری جانب سر سبز و شاداب باغات شروع ہوگئے۔
ہم سٹرک پر تھے۔ دریائے سندھ بائیں جانب تھا اور اس پار مہدی آباد کا وہ گاو ¿ں تھا جو بلتستان کا چہرہ ہے۔ خوبصورت اور طویل ترین پل سے جاتا ہوا راستہ باغات میں داخل ہوتا تھا۔ حیرانی ہی حیرانی تھی اور فطرت زمین پر من و سلویٰ کی طرح بچھی ہوئی تھی۔ پہاڑی علاقے میں دریا کے کنارے گیلی ریت سے بھرے تھے اور ریت چمکتی تھی تو آنکھیں چندھیا جاتی تھیں۔مہدی آبادی ضلع خرمنگ کی ابتدائی وادی ہے اور اسکردو شہر سے 52 کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق کی جانب واقع ہے اس کے پانچ موضعات فطرت کے حسن سے لبریز ہیں ان علاقوں کو سرلینگ ، ڈوقبر ، مہدی آباد خاص ، بیڈونگ اور پنداہ کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔قریباً آبادی 17 ہزار افراد پر مشتمل ہے مہدی آباد کا پرانہ نام پر کوتہ تھا جو بعد میں محسن قوم شیخ حسن نے 1982 میں پرکوتہ سے تبدیل کرکے مہدی آباد رکھ دیا تھا۔زمانہ قدیم میں مہدی آبادکی پوری آبادی کھانگپی ٹوق (پتھر کا ٹیلہ ) پر رہتی تھی اور پانچ سو چولہوں کے لیے آمد و رفت کا ایک دروازہ تھا جسے غبگی ستاغو کہتے تھے یہ دروازہ بہت مضبوط اور وزنی تھا جسے بہت سے لوگ ملکر کھولتے اور بند کرتے تھے لیکن چند سال قبل خرافات کی زد میں آکر اس تاریخی دروازے کو اکھاڑ دیا گیا۔
اس دروازہ کے ساتھ ایک مصنوعی تالاب “ نیما سل “ تھا یہ تالاب ہنگامی حالات اور آ ٓتشزدگی کی صورت میں حفاظتی تدبیر کے لیے بنایا گیا تھا۔“ ھلچنگرا “اس دروازے کے سامنے دو قد آور چنار کے درخت (شنگل ) ایستادہ ہیں۔اس چنار کے نیچے ریش سفیدنہ اور زعما قوم اپنے انتظامی ، دفاعی ، سیاسی ، معاشی اور اجتماعی مسائل کے متعلق گفت و شنید اور فیصلے کیا کرتے تھے یہ جگہ گویا اسمبلی کی حیثیت رکھتی تھی۔” کھڑا تنگمی فونکس “ کھانگپی ٹوق کے بالمقابل پہاڑی پر ایک بڑا پتھر ہے پرانے زمانے میں اس پتھر سے شکاری باز چھوڑتے تھے جو دریائے سند ھ سے آبی پرند ے اور دریا پار سے چکور و غیرہ شکار کرتا تھا اسی لیے یہ پتھر کھڑاتنگمی فونگس کے نام سے معروف ہے۔
” تینگ کھونگ ڑھر و پنمہ ڑھر “۔ ڈوگرہ زمانے میں ان مقامات پر فوجیوں کو تیر اندازی کی مشق کرائی جاتی تھی۔”تینگ کھونگ ڑھر” (کمان باغ ) سے تیر پنمہ ڑھر ( نشان باغ ) کی طرف تعین شدہ نشانات کو ہدف بناتے تھے۔” پولوگراونڈ “۔ موضع سرلینگ میں ایک بڑا پولو گراونڈ تھا جہاں پر راجاو ¿ں اور وزیروں کا پولو میچ ہوتا تھا لیکن اب اس گراونڈ پر معرفی فاونڈیشن نے لوگوں کے علاج و معالجہ کے لیے ایک بہترین ہسپتال تعمیر کر کے علاقہ کے مریضوں کا مفت علاج شروع کر رکھا ہے۔دیگر تاریخی مقامات میں رکیالسی باہو ، گراہمو باہو ، بوت برانگس اور خیالب کی کہانیاں تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں۔
یہ کارگل روڈ تھا۔۔
وہی کارگل جو مشرف کے دور اقتدار میں عام آدمی سے متعارف ہوا تھا اور کوئی جنگ وغیرہ وجہ تنازع بنی تھی ہمارے اہلیان طاقت کے مابین۔۔۔کبھی سکردو سے لداخ تک یہ شاہرائے عام تھی مگر قیام پاکستان کے بعد 1948 میں لائن آف کنٹرول کی وجہ سے اسے بند کر دیا گیا۔راستہ شادابی سے بھرتا گیا اور ہماری رگوں میں زندگی دوڑنے لگی۔ خوبانیاں اپنی زرد رنگت اور میٹھے رس سمیت گاڑی کے ٹائروں کے نیچے کچلی جا رہی تھیں۔ اس پورے سفر میں کوئی منظر ، کوئی دریا اور کوئی بلندی خطرناک نہ تھی مگر ایک بستی سے دل دھڑکنے لگا ، وہ بستی وسیع میدان میں تھی اور وہاں زرخیز زمین بھی ہموار تھی۔ یہ ”غواڑی “ کی بستی تھی اور بلتستان میں مذہبی شدت پسندی اس کے مکینوں کا تعارف تھا۔ شگر ، سکردو اور خپلو تک کبھی کبھی دنگا فساد اسی گاو ¿ں کے مکینوں کی شرارتی طبیعت اور تربیت کے سبب ہوتا تھا۔ یہ لوگ خود کش مزاج لوگ تھے ، مگر ہم گزر گئے اور غواڑی بہت پیچھے رہ گیا۔دریائے سندھ اب دور ہٹتا چلا گیا۔ بھارتی ضلع لداخ سے شروع ہونے والا دریا سرو پاکستان پہنچ کر نورلا کے مقام پر سندھ سائیں کا روپ دھارتا ہے۔ تحصیل کارگل کا علاقہ بھی اسی دریائے سرو کے کنارے آباد ہے۔
زرخیز بستی میں پکی ہوئی گندم کی فصل کاٹی جا رہی تھی۔ چھوٹے چھوٹے دانوں والے معصوم خوشے تھریشر میں کچلے جا رہے تھے۔ چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں اور لوگوں کے چہروں پر مسرت تھی۔ پھر سڑک گول دائرے میں گھومنے لگی اور پھر ایک پل آیا۔ اس پل سے ایک زیر تعمیر سڑک منٹھوکھا کے قصبے کی طرف جا رہی تھی مگر ہم کارگل روڈ کے پتھروں پر سفر کرتے کرتے دائیں جانب مڑ گئے۔ دودھیا پانی آبشار کی طرف سے آ رہے تھے اور زعفرانی گھاس پر خیمہ بستی سجی تھی۔ درختوں کے جھنڈ خنکی میں اضافے کا سبب بن رہے تھے۔ گاڑیوں کی پارکنگ کا بھی محفوظ انتظام تھا۔یہ منٹھوکھا آبشار تھی۔ 180 فٹ کی بلندی سے پانی آتے اور پتھر کا جگر چیر دیتے ۔ ایک انتباہی بورڈ بھی نصب تھا۔ ”آبشار کے پانی میں نہانا منع ہے۔ پانی کے ساتھ آنے والے پتھر حادثے کا سبب بن سکتے ہیں “اس آبشار میں عون عباس ، عبداللہ ، حجاب نے جی بھر کر نہایا اور پھر نیلے ہوچکے چہروں کے ساتھ دھوپ کی حدت تلاش کرتے رہے۔ یہاں پر جتنے بھی سیاح تھے ، بلا تمیز مرد و عورت ، ان کے لباس بھیگ چکے تھے ، صرف لباس ہی نہیں ان کے جسم بھی باہر آنے کو تھے۔علی نے کہا تھا کہ ”پورے سفر کا حاصل یہ آبشار کا منظر ہے “ سچ کہا تھا کیونکہ آپ کسی بھی جگہ پر وہی کچھ دیکھتے ہو جو منظر آپ کے اندر ہوتا ہے۔منٹھوکھا آبشار کے کیفے ٹیریا پر کسی شہری آبادی والے ریسٹورنٹ جیسا ہجوم تھا۔ آبشار کے پانی کی آواز ، سب آوازوں پر بھاری تھی۔