Column

آرٹیکل 63اے اور تحریک عدم اعتماد ….. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

پاکستان کی سیاست میں یہ وقت بھی آنا تھا کہ شہباز شریف، حمزہ شہباز شریف اور مریم اورنگزیب جیسے خارجہ پالیسی پر نہ صرف تنقید کر رہے ہیں بلکہ وہ یورپی یونین کے ممالک کے ناراض ہونے کا ذکر بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے واحد وزیر اعظم تھے جنہوں نے پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی اور اسی وجہ سے انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 60کی دہائی میں ہمیں اس وقت کے عالمی اور پاکستان کے بگڑتے حالات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔پاکستان میں آمر ایوب خان کی حکومت تھی اور وہ چند مخصوص خاندانوں کو نواز کر اسے ملکی صنعتی ترقی کا نام دے رہا تھا۔اسی زمانے میں 22 پاکستانی خاندان سامنے آئے اور ملکی انڈسٹری و وسائل کے ساتھ ساتھ تمام حکومتی مالی سہولیات بھی انہی خاندانوں کو عنایت کی جا رہی تھیں۔ گویا پاکستان میں امریکہ اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی ترویج اور فروغ جاری تھا۔ان اقدامات کی وجہ سے ایوب خان نے مشرقی پاکستان کو بھی بوجہ بری طرح نظر انداز کیا اور ملک کے بڑے حصے میں احساس محرومی بری طرح پھیلا۔خیر اسی زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو بطور وزیر خارجہ دنیا کی سیاست میں ابھرے اور پھر ان کا نام کا طوطی بطور قابل ترین وزیر خارجہ دنیا میں بولنے لگا۔ بھٹو صاحب کی خارجہ امور پر بصیرت ہی تھی کہ ایوب خان نے شاستری کے ساتھ روس کے شہر تاشقند میں ایک ایسا معاہدہ کر لیا کہ جس کی رو سے ایوب خان بھارت سے جنگ نہ کرنے کا پابند ہو گیا۔تاشقند میں ہی بھٹو نے اس معاہدے کی مخالفت کی اور پھر ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہو گئے ۔تاشقند کا معاہدہ ہونے کی خوشی میں بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی موت تاشقند میں ہی واقع ہو گئی۔اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بطور عالمی لیڈر اور خارجہ امور کے ایکسپرٹ عالمی شہرت کمائی وہ آج بھی سیاسیات اور خارجہ امور کے طالب علموں کے لیے دنیا بھر میں مشعل راہ ہے۔

بھٹو کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کے لائق ترین خارجہ امور کے افسر عزیز احمد تھے جو بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اور پھر وزیر خارجہ بنے ۔عزیز احمد بھی بھٹو کے پرتو تھے اور ان کو امور خارجہ میں طاق کرنے کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کو ہی جاتا تھا لیکن بھٹو کو قتل کرنے کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کو امریکہ کے قدموں میں پھینک دیا گیا اور پہلے آغا شاہی پھر کبھی زین نورانی،کبھی صاحبزادہ یعقوب علی خان،کبھی صدیق کانجو، کبھی گوہر ایوب اور پھر جب جب نواز شریف وزیر اعظم رہے خارجہ امور کی وزارت نواز شریف کے پاس رہی۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں سردار آصف احمد علی کو وزیر خارجہ بنایا لیکن ان کو بھی آزاد خارجہ پالیسی پر کام نہیں کرنے دیا گیا ۔جنرل مشرف نے خورشید محمود قصوری کو پانچ سال تک اپنا وزیر خارجہ رکھا۔2008 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو زرداری نے شاہ محمود قریشی کو وزیر خارجہ مقرر کیا۔ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کے حکم پر جب نواز شریف اور زرداری نے مل کر ملک سے نکالا تو شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ شاہ محمود قریشی سے لاکھ اختلافات کے باوجود ان کا یہ دلیرانہ استعفیٰ سراہا جانا چاہیے کہ یہ ایک خود مختار ریاست کے وزیر خارجہ کا عمل تھا۔ نواز شریف نے 2013 میں اقتدار سنبھالتے ہی ماضی کی طرح وزارت خارجہ اپنے پاس رکھ کربیرونی ایجنڈے کی تکمیل شروع کر دی۔ اندازہ کریں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو کرپشن پر تاعمر نااہل قرار دینے کے بعد ایک سطحی شخص خواجہ آصف کو وزیر خارجہ بنا یا گیا اور پھر خواجہ آصف کی نااہلی کے بعد گجرانوالہ کے خرم دستگیر کو ایک ماہ کے لیے پاکستان کا وزیر خارجہ بنا دیا گیا۔ آج جب نواز لیگ کے حواری خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہیں تو افسوس کے ساتھ ہنسی بھی آتی ہے کہ جس جماعت کے رہنماو ¿ں نے اپنے سیاسی کیریئر میں کبھی آزاد کیا اپنی خارجہ پالیسی ہی نہیں اپنائی وہ آج بدلتی عالمی صورتحال میں پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں لیکن اس تنقید میں جو ملک دشمن بیانیہ سامنے آ رہا ہے، وہ نہایت افسوسناک ہے۔شہباز شریف،مریم صفدر، بلاول زرداری اور مولوی فضل الرحمان وغیرہ کے بیانات کہ”عمران خان نے یورپی یونین کے مطالبے کو رد کر کے ان کو ناراض کر دیا ہے“ میں سے اس ٹھوس حقیقت کا ثبوت برآمد ہو رہا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کے ایماءاور مالی مدد سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے قریباً 75 سال بعد پاکستان، امریکہ تسلط سے آزاد ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ عمران خان اپنے دور حکومت کے تین سال کی تمام تر ناکامیوں کے باوجود عالمی سطح پر پاکستان کو ایک خود مختار اور آزاد ملک ثابت کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے جو ان بیرونی ایجنٹوں کو ہضم نہیں ہو رہا اور پاکستان کی تاریخ کا پہلا حکمران بن چکا کہ جس پر اپنے دور حکومت میں ایک پیسے کی کرپشن کا الزام نہیں لیکن امریکہ، یورپی یونین اور پاکستان کی کرپٹ سیاسی اشرفیہ کو وہ قبول نہیں اور اس کے خلاف بیرونی اشارے پر تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی ہے۔

نواز شریف کو جب 1997میں جعلی دو تہائی مینڈیٹ دلا کر حکومت دی گئی تو اسے اپنے اراکین اسمبلی سے بغاوت کا خطرہ رہتا تھا جس پر 14ویں آئینی ترمیم لائی گئی جس کے تحت کوئی بھی رکن اسمبلی پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتا تھا اور اگر وہ ایسا کرتا تو پارٹی سربراہ کو اختیار حاصل تھا کہ وہ سپیکر قومی اسمبلی کو اس کے بارے میں تحریری طور پر دے کہ وہ رکن پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کر رہاہے اور سپیکر قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کو آئین پاکستان اختیار دیتا تھا کہ وہ ایسے تمام اراکین کو ووٹنگ میں حصہ لینے سے روک دے۔2010 میں جب دونوں روایتی سیاسی جماعتوں (پی پی اورنواز لیگ)نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے نام پر عوامی حقوق پر مفاہمت کی تو اٹھارویں ترمیم لائی گئی لیکن ان ملک و قوم کی دولت لوٹنے والوں کی شومئی قسمت کہ متنازعہ ترین ترمیم میں بھی ارکان اسمبلی کی ڈیفیکشن بارے آرٹیکل شامل رکھے گئے۔ اس سے پہلے نواز لیگ 2008 میں (ق) لیگ کی ٹکٹ پر منتخب اراکین کی بڑی تعداد کو ایک فارورڈ گروپ کی شکل میں اپنے ساتھ شامل کر چکی تھی لیکن اس وقت بھی چودھری برادران نے جانے کیوں آئین پاکستان میں موجود ڈیفیکشن لاز کو کیوں استعمال نہیں کیا ۔ اس سے پہلے (ق) لیگ نے مشرف کے کروائے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنائی لیکن اس وقت پارٹی چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی آئین پاکستان کے آرٹیکل 63Aکو استعمال نہیں کیا تھا۔ مشرف دور میں بھی اسی آرٹیکل کو معمولی تبدیلی کے ساتھ برقرار رکھا گیا اور پھر اٹھارویں ترمیم میں بھی ارکان اسمبلی کی اہلیت بارے آرٹیکل 63اے کو برقرار رکھا گیا۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد عمران خان اب تک صرف اتحادی جماعتوں کو مل رہے ہیں اور ان کا انداز جارحانہ ہو چکا ہے لیکن اپوزیشن جو بظاہر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے شادیانے بجا رہی تھی در حقیقت بند گلی میں پہنچ چکی ہے کہ جب تحریک انصاف کے چیئرمین اور پارلیمانی لیڈر کی جانب سے سپیکر کو اپنے اراکین اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد میں ووٹ ڈالنے سے روک دیا جائے گا تو پھر اپوزیشن کے لیے 172 اراکین قومی اسمبلی پورے کرنا ناممکن ترین عمل ہو جائے گا۔دراصل 172 اراکین اسمبلی لانا متحدہ اپوزیشن کی ذمہ داری ہے اور ڈیفیکشن لاز کی موجودگی میں صرف تحریک انصاف کے 155 اراکین اسمبلی میں سے تو کوئی بھی اپنی سیٹ گنوانا نہیں چاہے گا۔ملکی سیاست نہ صرف دلچسپ بلکہ فیصلہ کن دور میں پہنچ چکی ہے۔مجھے یہ تو لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ کرپٹ ترین اپوزیشن اپنے ہی جال میں پھنس چکی ڈیفیکشن لاز کے بروقت اور درست استعمال سے تحریک عدم اعتماد بری طرح ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کے اس بیان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ہم نے نہیں بلکہ اپوزیشن نے 172اراکین قومی اسمبلی شو کرنے ہیں۔ اس تمام ڈرامے میں اب تک تحریک انصاف کے طفیل کچھ سیٹیں جیتنے والی (ق) لیگ نہ صرف رسوا ہو چکی بلکہ ملک کے آئندہ سیاسی منظر نامے میں بھی اپنے لیے اندھیرے خرید چکی ہے ۔قارئین کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد صرف اور صرف بیرونی آقاو ¿ں کی آشیر واد سے لائی گئی ہے اور اس کی ناکامی میں ہی پاکستان کے عوام، افواج پاکستان اور پاکستان کا مستقبل پنہاں ہے۔

جواب دیں

Back to top button