Column

عدم اعتماد اور عالمی سازش ….. روشن لعل

روشن لعل

اپوزیشن نے آخر کار عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر ہی دی۔ عمران خان کے فواد چودھری جیسے وزیر اور شہباز گل جیسے مشیر عرصہ تک اپوزیشن جماعتوں کے گٹھ جوڑ کو منتشر، بے ترتیب، تار تار، درہم برہم اور تتر بتر وغیرہ جیسے ناموں سے پکارتے ہوئے دعوے کرتے رہے کہ اس طرح کی حزب اختلاف کبھی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے قابل نہیں ہو سکے گی۔ اب مذکورہ مشیروں اور وزیروں کو اپوزیشن اتحاد کی عدم اعتماد تحریک کو ان کا کمال تسلیم کر لینا چاہیے کیونکہ وہ اپنے لیے بیان کیے گئے جملہ اوصاف رکھنے کے باوجود بھی یہ کام کرنے میں کامیاب رہا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس طرح سے تحریک عدم اعتماد پیش کی جیسے کوئی کھلے عام تیاریاں کرنے کے باوجود اپنی کارروائیاں خفیہ رکھنے میں کامیاب ہوجائے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کے متعلق یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایسا ہونا اس لیے ممکن ہوا کیونکہ اب عمران خان کے لیے حالات حسب سابق سازگار نہیں رہے۔ جو لوگ حالات کی سنگینی پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ یہاں کے حالات تو کبھی بھی ایسے نہیں رہے کہ انہیں کسی کے لیے غیر مشروط طور پر سازگار تصور کر لیا جائے۔ ہاں مگر ایسا ضرور ہوتا ہے کہ ناسازگار حالات میںبھی کسی کو کچھ ایسی سہولتیں میسر آ جاتی ہیں جس سے اسے سفر آسان ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ سفر کی آسانی کا یہ گمان مسافر کو اس حد تک گمراہ کر دیتا ہے کہ وہ راستے کی کٹھنائیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اونچی نیچی زمین پر ایسے قدم رکھنا شروع کر دیتا ہے جو ہموار ترین زمین پر اٹھانا بھی ممکن نہیں ہوتے۔اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایسے مسافروں کے ساتھ آخر کار کیا ہوتا ہے ۔ ایسے مسافروں کے ساتھ جو ہوتا ہے اس کا کچھ حصہ تو نظر آچکا ہے اور جو کچھ ابھی تک پوشیدہ ہے وہ بھی آنے والے دنوں میں بتدریج نظر آکے رہے گا۔ اس کا قیاس ابھی سے لوگوں نے کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس میں عمران خان ، ان کے وزیروں اور مشیروں کے لیے پہلے جیسی کوئی سہولت، آسانی اور عنایت نظر نہیں آرہی۔اگر عمران خان کے لیے پہلے جیسی سہولتوں ، آسانیوں اور عنایتوں کا پھیرا ممکن ہوتا توشاید اب تک وہ کچھ نہ ہوا ہوتا جو ہوچکا ہے۔ اگر کوئی مشکل راہوں پر دوسروں کے ساتھ پنگے بازی کا شوق لے کر رواں دواں ہو تو ہر قدم پر یہ پنگے الٹے پڑنے کا امکان موجود ہوتا ہے۔اس وقت جو کچھ یہاں ہو رہا ہے وہ پہلے سے موجود امکانات کے عین مطابق ہے مگر حیران کن طور پر لوگوں کو یہ باور کرانا شروع کر دیا گیا ہے کہ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ ایک عالمی سازش کا شاخسانہ ہے۔

تحریک عدم اعتماد کو عالمی سازش قرار دینے کے لیے جو موقف پیش کیا جارہا ہے اس کا خلاصہ کرنے کی ہمت تمام تر کوششوں کے باوجود بھی پیدا نہیں ہو سکی۔ ایسی کوششوں کے دوران یک نام بار بار ذہن میں ابھرنے لگتا ہے۔ جس شخص کا نام ذہن میں ابھر رہا ہے اس کا پاکستان کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن اس وقت جو کچھ یہاں کہا جارہا ہے شاید اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق جوڑا جاسکتا ہے۔شاید اس تعلق کی وجہ سے ہی اس شخص کا نام ذہن میں ابھر کر اکسا رہا ہے کہ کچھ اور کہنے کی بجائے اس کی کہانی یہان بیان کر دی جائے۔ شاید اس کہانی سے کسی کو یہ بات سمجھ آجائے کہ جن باتوں کو عالمی سازش قرار دیاجاتا ہے ان میں سے اکثر یت کی اصل حقیقت کیا ہوتی ہے۔جس شخص کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے وہ سوڈان کا فوجی آمر جعفر النمیری تھا۔ فوجی کرنل کے عہدے پر فائز جعفر النمیری نے 1969 میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے نام پر اس وقت سول سوڈانی حکومت کا تختہ الٹا جب اس سے عہدے میں سینئر 14 ملٹری افسر ملک سے باہر تھے۔ کرنل جعفر نمیری ان سینئر افسروں سمیت 22 فوجی افسروں کو ان کے عہدے سے سبکدوش کر کے خود براہ راست میجر جنرل کے عہدے پر فائز ہوگیا۔ سرد جنگ کے دور میں جعفر النمیری نے یہ انقلاب سوویت یونین کے ایما پر کمیونسٹوں کو ساتھ ملا کر کیا۔ جن کمیونسٹوں کو ساتھ ملا کر جعفر نمیری نے حکومت قائم کی جب وہ کمیونسٹ اس سے مطمئن نہ ہوئے تو انہوں نے اس کا تختہ الٹنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ سوویت یونین نواز کمیونسٹوں کی سرکوبی کرنے کے بعد جعفر نمیری نے ماﺅسٹ سوشل ازم کی طرف مائل ہونے کا تاثر دینا شروع کردیا ۔ اس دوران اس نے چین کے دوروں کے دوران ماﺅزے تنگ سے ملاقاتیں کیں اور اس کے نظریے سے متاثر سمجھا جانے لگا۔ ماﺅ زے تنگ کے بعد جب چین میں ڈینگ ژیاﺅ پنگ کی برپا کردہ 180 ڈگری کی تبدیلیاں رونما ہوئیں تو سوشلسٹ جعفر النمیری امریکی کیمپ میں شمار کیا جانے لگا۔ امریکی کیمپ میں شامل ہونے کے بعد نمیری نے اپنے ان تمام کاموں کے برعکس اقدامات شروع کردیئے جو اس نے سوشلسٹ اصلاحات کے نام پر کیے تھے۔ روسی سوشلسٹ سے چینی سوشلسٹ اور اس کے بعد امریکی لبرل بننے والا جعفر النمیری آخر کار اسلامی بن گیا اور اس نے ملک میں شریعت کے نام پر بنائے گئے قوانین نافذ کر دیئے۔ جعفر نمیری جب جب تبدیل ہوا اس کی وجہ اس میں رونما ہونے والی نظریے کی تبدیلی نہیں بلکہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش تھی۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش کے تحت اس نے اپنے عوام کے سیاسی، سماجی اور معاشی سمیت ہر انسانی حق کی پامالی کی۔ 1969 سے 1985 تک قائم رہنے والی اس کی آمرانہ حکومت کے دوران اس کے مختلف مخالف گروہوں نے اس کا تختہ الٹنے کی کئی کوششیں کیں۔ ان گروہوں میں سے جن کو یہ نہ دبا سکا ان کو چور ڈاکو قرار دینے کے باوجود ان کے ساتھ شراکت اقتدار کے معاہدے کرتا رہا مگر اس کا کیا ہوا کوئی بھی معاہدہ پائیدار ثابت نہ ہو سکا۔ جعفر نمیری کی آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے سوڈان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا اور اسی نے ملک کی تقسیم اور جنوبی سوڈان کے علیحدہ ملک بننے کی بنیاد رکھی۔ جعفر نمیری کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے سوڈان کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑا اور اس کی سفارشات کے مطابق مہنگائی کرنا پڑی ۔ جعفر نمیری کے دور میں مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام نے اس وقت سڑکو ںپر آکر اس کا تختہ الٹ دیا جب یہ امریکہ کے دورے پر تھا۔ اپنی حکومت کا تختہ الٹے جانے اور قبل ازیں تختہ الٹنے کی جتنی بھی کوششیں ہو چکی تھیں جعفر نمیر ی انہیں ہمیشہ بیرونی سازشیں قرار دیتا رہا۔ اپنی16سالہ آمرانہ حکومت کے خاتمہ کو بیرونی سازش قرار دینے والا جعفر نمیری ازاں بعد بھی عوام کے مقبول ترین لیڈر ہونے کے زعم میں مبتلا رہا۔ اسی زعم کی وجہ سے اس نے سال 2000 کے سوڈان میں منعقدہ صدارتی الیکشن میں حصہ لیا جس میں اسے بدترین شکست ہوئی تھی۔

جواب دیں

Back to top button