Column

تُکّے کی سیاست: خان صاحب کب تک انتظار کریں گے؟

پاکستانی سیاست ایک ایسا ٹاپک ہے جس پر جتنی بات کی جائے اتنی کم اور یہ ایک ایسا ٹاپک ہے جو اپنے پڑھنے والوں کو اپنے اندر الجھا کر رکھتا ہے اس میں بات کرنے کو بے شمار چیزیں ہیں آئے دن کوئی نیا فیصلہ یا کوئی نیا اتحاد سامنے آ جاتا ہے۔ کچھ دن قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے 12جولائی کو ہونے والے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا تھا۔ اس فیصلہ کے بعد بہت سے تجزیہ کاروں نے اپنی سمجھ کے مطابق تجزیئے دیئے۔کسی نے کہا یہ زیادتی ہے ،کسی نے کہا یہ فیصلہ آئین اور قانون کی بالادستی ہے ۔اس فیصلہ کے بعد حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کا ردعمل بھی سامنے آیا ۔حکومت نے اسے آئین کی جیت کرار دیا حکومتی وزراء اس فیصلہ کا دفاع کرتے نظر آئے۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف جو کہ اس وقت وکلاء کے حصار میں ہونے کے باوجود ایک بھی کیس کا فیصلہ اپنے حق میں نہیں کروا پائی یہ کہتی نظر آئی کہ یہ فیصلہ ہمارے خلاف زیادتی ہے۔ بھئی آپ لوگ قانون دان ہیں آپ کیسے آئین کو ری رائٹ کرنے کی بات کر سکتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس فیصلہ کے آفٹر شوکس پر اس فیصلے کے تین دن بعد لاہور جیل میں موجود اسیران (شاہ محمود قریشی، میاں محمود الرشید ، یاسمین راشد، اعجاز چوہدری اور سابق گورنر عمر چیمہ)نے ایک کھلا خط اپنی موجودہ قیادت کے نام لکھا اور اس خط میں مذاکرات پر زور دیا گیا اور اس خط کا مطلب سیاسی مبصرین نے یہ لیا کہ اسیران کی بس ہو گئی ہے، ہو بھی کیوں نہ انکا کو سیاسی والی وارث ہی نہیں ہے جتنا رش اڈیالا کے باہر ہوتا ہے اتنا تو ان لوگوں نے اپنی پوری قید میں نہیں دیکھا۔ موجودہ قیادت میں سے کوئی ان سے ملاقات کے لیے عدالت سے رجوع نہیں کرتا صرف انکے گھر والے ہی ملاقاتیوں کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔ موجودہ قیادت اس عدم تحفظ میں ہے کہ اگر یہ لوگ باہر آ گئے تو پارٹی میں جن عہدوں کی موجیں ہم لے رہے ہیں وہ انکے اصل مالکان کو واپس کرنی پڑیں گی اسی لیے تو صرف پیٹرن انچیف کی رہائی کے لیے زور لگا یا جا رہا ہے۔
اس فیصلہ کے تناظر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی بندر بانٹ اس طرح ہوئی کے وفاق میں حکومتی اتحاد کے پاس 235نشستیں ہو گئیں جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت درکار ہے۔ قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن اتحاد کے پاس 98 سیٹیں ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں بھی حکمران اتحاد کے پاس مخصوص فیصلہ کے بعد 264نشستیں ہو گئیں ہیں انکے مقابلہ میں اپوزیشن اتحاد کے پاس 105 کا مجوعی نمبر موجود ہے۔ سندھ اسمبلی کی واحد حکمران جماعت ہے جسکے پاس 164نشستوں میں سے 118سیٹیں ہیں اور اپوزیشن کے پاس جس میں وفاق میں شراکت دار ایم کیو ایم بھی ہے کہ پاس 46 نشستیں ہیں۔
اس ساری معلومات اور تمہید کے اصل مقصد کی طرف آتے ہیں کے مخصوص فیصلہ کے بعد کے پی کے اسمبلی میں کیا صورتحال ہے اور کیا ہونے جارہا ہے؟ مخصوص فیصلے کے بعد کے پی اسمبلی کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے جس کے پاس 92 ارکان کی حمایت حاصل ہے اور اپوزیش اتحاد کے پاس 53 نشستیں ہیں ۔ اصل بات یہ نہیں ہے بات یہ ہے کہ حکمران جماعت کے 35ارکان صوابائی اسمبلی ایسے ہیں جو آزاد ہیں جنہوں نے کسی جماعت کے حق میں بیان حلفی جمع نہیں کرویا ہوا۔ ان ارکان میں وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور بھی شامل ہیں۔ جب سے یہ فیصلہ آیا ہے تب سے پاکستان تحریک انصاف کی مخالف جماعتیں اس جوڑ توڑ میں ہیں کہ کیسے کے پی حکومت کا تختہ الٹا جائے۔ اب تک حکومتی وزراء یہ کہہ رہے ہیں کہ کے پی کے حکومت ہمارے لیے خطرہ نہیں لیکن سیاست میں کھبی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ میری معلومات کے مطابق کم از کم 24 ارکان صوبائی سمبلی ایسے ہیں جو اس تیاری میں ہیں کہ ہم استعفیٰ دیں اور اپنے ووٹرز کو کہیں کہ جب تک عمران خان رہا نہیں ہو جاتے ہم پی ٹی آئی سے علیحدہ ہیں کیونکہ ہمارے موجودہ قیادت سے اختلافات ہیں اور یہ استعفیٰ صرف کے پی کے صوبائی اسمبلی تک محدود نہیں رہیں گے وفاق سے بھی آئیں گے۔
اس سارے معاملے کے بعد پی ٹی آئی موجودہ قیادت اور لاہور کے اسیران جہاں مفاہمت کی بات کرتے ہیں وہیں پیٹرن انچیف مزاحمت کی بات کرتے ہیں نہ صرف خان صاحب بلکہ کچھ بگھوڑے بھی کہتے ہیں ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان اور بگھوڑوں کی شعلہ بیانی سے خان صاحب اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں ڈٹ کہ کھڑے رہو لیکن اسیران کا خط۔ موجودہ قیادت کا مذاکرات پر زور خان صاحب کے بیانیہ کی نفی کرتے ہیں موجودہ قیادت خان صاحب کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہی ہے کہ وہ مذاکرات کی طرف آئیں اور پاکستان تحریک انصاف کے مستقبل کے بارے میں سوچیں۔ لیکن بظاہر خان صاحب ایک تُکَّہ کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ انکی سیاسی لغت میں لفظ تُکَّہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ تُکَّہ میں کیوں کہہ رہا ہوں اسکے پیچھے ایک بڑی اہم وجہ ہے مثال کے طور پے 1992کا ورلڈ کپ پاکستان نے ابتدائی پانچ میچوں میں صرف ایک میں کامیابی سمیٹی اور ورلڈکپ مقابلہ سے تقریباً باہرہو گیا تھا ۔ لیکن آسٹریلیا جیسی ٹیم کے مقابلہ میں پاکستان میدان میں اترا اورایک تُکَّہ کھیلا گیا جو عمران خان کو اوپر کے نمبر پر بیٹنگ کرنا تھا اور انضمام کو نمبر چھ پر بیٹنگ کروانا تھا اور پاکستان ورلڈکپ جیت گیا اور اسکا سہرا عمران خان کے سر گیا اسی طرح 2018 میں خان صاحب کا وزیراعظم ہاؤس تک پہنچنا یہ بھی ایک تُکَّہ تھا۔ مقتدرہ اور دیگر جماعتوں کے بگڑے تعلقات کا فائدہ عمران خان نے اٹھایا اور انہیں ایک اچھا بچہ بن کر دیکھیا اور اقتدار حاصل کیا ۔ آج بھی خان صاحب اسی طرح کہ ایک تُکَّہ کے انتظار میں ہیں اور انکا یہی بیانیہ ہے، انکے حامی اس بیانیہ پر لبیک کہتے ہیں۔ خان صاحب جدوجہد کے علاوہ سیاسی تُکَّہ پر کافی یقین رکھتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button