سزائوں اور جفاوں کا موسم

سزائوں اور جفاوں کا موسم
تحریر : سید عنبرین
بھارت میں نریندرا مودی جیسے انتہا پسند کی حکومت ہو اور اسے بھارت کی انتہا پسند سیاسی و سماجی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی کی بے پناہ حمایت و نصرت حاصل ہو اس کے باوجود وہ سب ملکر بے گناہ مسلمانوں کو ناکردہ گناہ کی سزا میں موت کے پھندے تک نہ لے جا سکیں تو یہ بھارتی اعلیٰ عدالتوں کا کارنامہ ہے جس پر بھارتی جج صاحبان تحسین کے مستحق ہیں۔ ہم تصور کر سکتے ہیں ان پر کسی قدر دبائو ہو گا مگر وہ کسی دبائو کو خاطر میں نہ لائے، ممبئی ہائیکورٹ نے اہم فیصلہ کرتے ہوءے 2006ء میں ہونے والے ممبئی ٹرین دھماکوں میں ملوث کئے گئے تمام مسلمانوں کو انیس برس کی طویل عدالتی کارروائی کے بعد بری کر دیا ہے، ان بیتے برسوں میں قدم قدم پر خواہش نظر آئی کہ تمام ملوث افراد کو سزائے موت سنا دی جائے، لیکن عدالت خوب جانتی تھی کہ تمام مسلمان بے گناہ ہیں، انہیں ایک خاص ایجنڈے کے تحت پھنسایا گیا ہے، مقصد انہیں سزا دے کر انتہا پسندوں کو خوش کرنا اور عام انتخابات میں ان کا ووٹ حاصل کرنا تھا، عدالتی کارروائی کے ساتھ ساتھ یہ ہدف بھی حاصل کیا جاتا رہا۔ بھارت میں انتہا پسندوں کی سوچ اس مقدمے میں ناجائز طور پر ملوث کئے گئے بارہ افراد کی زندگی کے انیس برس نگل گئی، جو دنیا کی کوئی طاقت، کوئی قانون انہیں واپس نہیں لوٹا سکتا، عدالت نے قرار دیا ثبوت ناکافی ہیں، واقعات جس طرح بیان کئے گئے ہیں ان کی کڑیاں آپس میں نہیں ملتیں، ایک ملزم حصول انصاف کی کوششوں میں 2021ء میں کرونا کے باعث ناگپور جیل میں زندگی کی بازی ہار گیا، لیکن وہ مرتے مرتے بھارتی حکومت اور بھارتی انتہا پسندوں کو شکست دے گیا۔
آئیے! اپنے گریبان میں جھانکیں،9مئی مقدمات میں چوالیس سیاسی شخصیات کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا نام کابینہ کمیٹی کی رپورٹ میں نہیں تھا، وہ واقعے کے روز کراچی تھے، لیکن انہوں نے بھی یہ مقدمہ دیگر بری ہونیوالے چھ ملزمان کے ساتھ کئی سال تک بھگتا، نو مئی کے حوالے سے شیر پائو برج مقدمہ اور اس کی تفصیلات لمحہ فکریہ ہیں، اندازہ کیا جا سکتا ہے سیاسی مقدمہ بنتا کیسے ہے اور پھر چلتا کیسے ہے اور سزائیں کیسے سنائی جاتی ہیں۔ جرائم کی بیخ کنی کیلئے قوانین تمام دنیا میں موجود ہیں، بنیادی قوانین ہر ملک میں ایک جیسے ہیں، مجرم کی طرف سے اقرار جرم، جرم کے دستاویزی ثبوت اور جرم کے گواہوں کے علاوہ جرم کی تفتیش کرنے والے ادارے کے افسران و اہلکاروں کی رپورٹ اور گواہی اہم ترین ہے، ملک میں سیکڑوں افراد پر ایک ہی مقدمہ ہے، جیسے 9مئی کے حوالے سے لکھا، کہا اور پکارا جاتا ہے، اس مقدمے کی کارروائی نے پوری طاقت سے ہمارے نظام کو، عدالتی و قانونی نظام کو ننگا کر دیا ہے، یہ ایک مقدمہ ہمیں عالمی رینکنگ میں دھکیل کر آخری نمبر پر لے جانے کیلئے کافی ہے۔
مقدمے کے کچھ گواہ آج تمام دنیا میں موضوع گفتگو ہیں، ایک پولیس کانسٹیبل ہے اور دوسرا پولیس انسپکٹر ہے، دونوں نے اپنی گواہی دیتے ہوئے جو کچھ کہا وہ دنیا کی آنکھیں کھول گیا ہے، اس نے دنیا کو بغیر کچھ خرچ کئے قہقہے لگانے کا موقع فراہم کیا ہے، جس پر قوم کو ان دونوں کا مشکور ہونا چاہیے، اس کے علاوہ وہ تمام لوگ بھی شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے اس مقدمے کو تراشا۔ نو مئی کو ہونیوالی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے چشم دید گواہ نے بتایا کہ وہ متعدد سکیورٹی حصاروں کو عبور کرتا اس کمرے میں ایک جگہ چھپنے میں کامیاب ہو گیا جہاں اس تخریب کاری کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی، پھر اس نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا اور اپنے کانوں سے سب کچھ سنا اور رپورٹ لکھ دی کہ اس نے کیا دیکھا، کیا سنا اور کون کون اس منصوبہ بندی میں شامل تھا، مقدمے کی کارروائی کے دوران معلوم ہوا کسی مجاز افسر نے اس کی اس حوالے سے کہیں ڈیوٹی نہ لگائی نہ تھی، سازش کرنیوالے کی کوئی ریکارڈنگ نہ ملی، سازش کی جگہ پہنچنے والے جیمز بانڈ کے وہاں داخلے یا واپسی کی کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ فوٹیج بھی نہ ملی، جیمز بانڈ یہ بھی نہ بتا سکا کہ وہ کس جگہ کھڑا ہو کر یا بیٹھ کر یا چھپ کر دیکھ رہا تھا، سن رہا تھا، وہ یہ بھی نہ بتا سکا کہ جب وہ ایک سیاسی جماعت کی ٹاپ لیڈر شپ کے درمیان موجود تھا تو کسی نے اس کا نوٹس کیوں نہ لیا، کسی نے اس سے نہ پوچھا کہ
بھائی خواہ مخواہ آپ کون ہیں اور آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ مذکورہ جیمز بانڈ وہ سلیمانی ٹوپی بھی پیش نہ کر سکا جسے پہن کر وہ تمام شرکا سازش کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور وہ سب کو دیکھتا رہا، سنتا رہا ، جیمز بانڈ سے پوچھا گیا کہ اس نے جو رپورٹ تیار کی وہ کہاں ہے، اسے کس کس افسر نے دیکھا ہے اور اس پر کیا کیا ریمارکس دیئے ہیں، جیمز بانڈ کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہ تھا، آخر میں وکلا نے تھانے کا روزنامچہ منگوایا تو راز کھلا جس روز یہ صاحب آسمان کے تارے توڑ لانے کے مشن پر تھے اس روز تو وہ بغیر بتائے اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر تھے اور بعد ازاں اگلے روز ان کی ایس ایچ او نے ان کی اس غیر حاضری پر ان کی سرزنش بھی کی تھی، کسی مجاز افسر نے ان کی کوئی ڈیوٹی نہ لگائی تھی، نہ ہی ان کی گواہی کا کوئی قانونی جواز تھا۔ دوسرے گواہ بھی ایک پولیس انسپکٹر تھے، جن کی گواہی کیلئے رابطہ کیا گیا تو وہ بغیر عدالت کو اطلاع دیئے ملک سے باہر جا چکے تھے، وکلا کے پرزور اصرار پر ان سے رابطہ کیا گیا تو وہ حالت احرام میں تھے، فیصلہ ہوا ان سے آن لائن ہی گواہی ریکارڈ کی جائیگی۔ سوال و جواب سے قبل ان سے حلف لیا گیا جو کچھ کہوں گا میں سچ کہوں گا اور جھوٹ بولوں یا غلط بیانی کروں تو مجھ پر خدا کا قہر نازل ہو، گواہ انسپکٹر منیر نے حلف کا متن تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ خدا مجھ سے ناراض ہو۔ اس پر وکلا نے اعتراض کیا اور کہا کہ حلف کے لفظ تبدیل نہیں کئے جا سکتے، آئین میں حلف کے الفاظ ہیں کہ اگر میں جھوٹ بولوں تو مجھ پر خدا کا قہر نازل ہو۔ جج صاحب کے کہنے کے باوجود انسپکٹر منیر نے یہ الفاظ ادا کرنے سے انکار کر دیا، ایک اور گواہ انسپکٹر سرور بھی ہر سوال کے جواب میں کہتا نظر آیا اس کی طبیعت خراب ہو رہی ہے، اس کی شوگر ڈائون ہو رہی ہے ، اسے چائے پلائی جائے، چائے پی کر بھی وہ کسی سوال کا معقول جواب نہ دے سکا اور اصرار کرتا رہا اسے جانے دیا جائے، جس پر عدالت کی کارروائی روک دی گئی۔
حالت احرام میں گواہ کا طرز عمل کیا بتا رہا ہے؟ تمام ابہام ختم ہوچکے ہیں، مزید فیصلوں کا انتظار کیجئے، سرکار کے سارے کام کچے ہیں، سزائوں اور جفاوں کا موسم کئی برس جاری رہیگا۔