پی ٹی آئی کی تحریک

پی ٹی آئی کی تحریک
تحریر ، امتیاز عاصی
جوں جوں وقت قریب آرہا ہے پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا غلغلہ مانند پڑتا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی رہنمائوں اور ورکرز میں پہلے والا جوش و جذبہ نہیں رہا ہے شائد اس کی وجہ سانحہ ڈی چوک یا پھر پی ٹی آئی کی اندرونی گروہ بندی کا نتیجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کی تیاریاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک رکن اسمبلی شیر افضل مروت کا کہنا ہے پی ٹی آئی منقسم ہو چکی ہے کیونکہ بانی پی ٹی آئی تک پارٹی رہنمائوں کو رسائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے احتجاجی تحریک کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ درحقیقت بانی پی ٹی آئی کی بہنیں بھرپور طریقہ سے تحریک چلانے کی خواہاں ہیں مگر پارٹی میں گروہ بندی اور خاص طور پر سانحہ ڈی چوک سے پی ٹی آئی کارکنوں میں پہلے والا جوش و جذبہ نہیں رہا ہے۔ ہم اگر پی ٹی آئی کے ماضی میں ہونے والے احتجاج پر غور کریں تو کے پی کے سے پارٹی ورکرز کی بہت بڑی تعداد احتجاج میں شریک ہوتی رہی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں دیگر صوبوں کے نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ اس حقیقت میں دو آراء نہیں پی ٹی آئی عمران خان کی وجہ سے ملک کی مقبول ترین جماعت ہے۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں اگر بانی پی ٹی آئی جیل سے باہر ہوں تو عوام کا ایک سمندر ان کی تحریک میں شریک ہو، لیکن حکومت نے پی ٹی آئی کا زور توڑنے کے لئے جو حکمت عملی اپنائی ہے اس میں وہ کافی حد تک کامیاب دکھائی دے رہی ہے عمران خان کو جیل میں رکھنے کا مقصد پی ٹی آئی کے حصے بخرے کرنا مقصود ہے۔ عمران خان کے خلاف مقدمات اتنی تعداد میں ہیں جن سے نبردآزما ہونے کے لئے بہت وقت درکار ہوگا۔ پی ٹی آئی کی تحریک کے کامیابی کا امکان اس لحاظ سے بھی کم ہے پارٹی قیادت جیلوں میں ہے جو رہنما جیل سے باہر ہیں ان میں سڑکوں پر آنے کا دم خم نہیں ہے نہ ہی وہ ورکرز کو احتجاجی تحریک کے لئے متحرک رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمران خان سے ہفتہ میں ایک روز صرف منگل کے دن چند وکلاء یا ان کی بہنیں ملاقات کر سکتی ہیں جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا پارٹی رہنمائوں کو عمران خان تک رسائی نہ دینا حکومت کی کامیاب حکمت عملی کا مظہر ہے۔ جہاں تک عمران خان کے خلاف مقدمات کی بات ہے وہ آئندہ دو سالوں میں ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے البتہ یہ مسلمہ حقیقت ہے انتخابات منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوئے تو عوام کی بہت بڑی تعداد عمران خان اور اس کے امیدواروں کو ووٹ دے گی۔ حکومتی اقدامات سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا آئندہ کئی برس تک حکومت کے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے نہ ہی حکومت کے خلاف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانے کا دم خم رکھتی ہے۔ سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کافی حد تک متحرک ہے جہاں تک پنجاب کی بات کوئی خاطر خواہ سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی ہی جس سے یہ کہا جا سکے پنجاب سے بھی لوگ پی ٹی آئی کی تحریک میں جوش و خروش سے شریک ہوں گے۔ پنجاب میں تو لگتا ہے جیسے یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے پی ٹی آئی خواہ پرامن احتجاج کیوں نہ کرے کسی صورت میں احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ درحقیقت تحریکیں اسی صورت کامیابی سے ہمکنار ہو تی ہیں جب ان کی قیادت کرنے والے رہنما موجود ہوں جب اس وقت پی ٹی آئی کی زیادہ تر قیادت جیلوں میں ہے یا پی ٹی آئی کو خیر آباد کہہ چکی ہے۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی عمران خان کا دوسرا نام ہے عمران خان اور پی ٹی آئی لازم و ملزم ہیں۔ مثال کے طور پر عمران خان پی ٹی آئی کی قیادت چھوڑ دیں تو پی ٹی آئی کا نام و نشان مٹ جائے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے سیاسی تحریکیں طاقتور حلقوں کی مرہون منت ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو بھی اسے طاقتور حلقوں کی آشیرباد حاصل تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے خلاف تحریک چلائی گئی تو بھی انہی حلقوں کی سیاسی جماعتوں کو حمایت حاصل رہی۔ عوام بے چارے کیا کر سکتے ہیں، ملک میں انتخابات منصفانہ نہ ہوں تو عوام کیا کر سکتے ہیں، پاکستان کے عوام میں انقلاب لانے کا دم خم نہیں ہے، پھر جو قومیں مراعات میں گم ہوں وہ کبھی انقلاب نہیں لا سکتیں۔ عمران خان نے بھی عوام پر کچھ زیادہ اعتماد کر لیا تھا اگر وہ جیل گیا تو عوام پتہ نہیں انقلاب لے آئیں گے۔ عمران خان کو جیل میں گئے دو سال ہونے والے ہیں عوام نے ان کی رہائی کے لئے کون سے آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں۔ موجودہ حکومت کے بارے میں عوام کو زیادہ پر امید نہیں ہونا چاہیے یہی وہ لوگ ہیں جو مفادات کی سیاست کرتے ہیں اور طاقت ور حلقوں کی ناراضگی مول نہیں لیتے بلکہ ان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت ایک نشان کے طورپر ہے بلکہ عملی طور پر تو مارشل لاء ہے نہ عدالتیں آزادانہ فیصلے کر سکتی ہیں نہ پریس آزاد ہے بلکہ ہر شے پر جمود طاری ہے۔ نجی ٹی وی چینلز پر کوئی بات تو کرے اگلے روز اسے آف ایئر کر دیا جاتا ہے۔ کتنے ہی اینکر پرسن ایسے ہیں جو ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ چینل مالکان کو بزنس چاہیے حکومت کی طرف سے انہیں اشتہارات مل رہے ہیں انہیں کیا پڑی ہے کسی اینکر کے لئے سرکار کو ناراض کریں۔ سوشل میڈیا کی بھرمار سے پرنٹ میڈیا آخری سانس لے رہا ہے، آئے روز بڑے بڑے اخبارات سے ملازمین کو برطرف کیا جا رہا ہے نہ انہیں بقایاجات مل رہے ہیں نہ ملازمت پر بحال کیا جا رہا ہے۔ اخباری کارکنوں کے حق سرکاری ٹریبونل کے فیصلوں کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ جس ملک میں ایسی صورت حال ہو وہاں نہ جمہوریت پل سکتی ہے نہ ہی صحافت آزاد رہ سکتی ہے۔ پی ٹی آئی نے پانچ اگست احتجاج کے لئے مقرر کیا ہے دیکھتے ہیں پی ٹی آئی کے کتنے لوگ سڑکوں پر آتے ہیں یا ان کے رہنما کتنی تعداد میں عوام کو گھروں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں انتظار کیجئے ۔