Columnمحمد مبشر انوار

سینیٹ انتخاب اور قیادت

سینیٹ انتخاب اور قیادت
تحریر ، محمد مبشرانوار(ریاض )

خواہش تو بہت ہوتی ہے کہ وطن عزیز کے حالات پر لکھا جائے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ گھٹن کا جو ماحول فضائوں میں رچا دیا گیا ہے، ایک جمود جو جبرا اس پر مسلط کر دیا گیا ہے، اس میں ایسا کوئی قابل ذکر موضوع بچتا نہیں کہ اس پر لکھا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ موضوعات نہیں ہیں، موضوعات کی بھرمار ہے، امن و امان سے معیشت، معاشرتی حالات سے اخلاقی انحطاط، بے راہروی سے نقل مکانی کے علاوہ بے شمار موضوعات ہیں، جن پر لکھا بھی ہے اور ہنوز لکھا جارہا ہے لیکن اس کا فائدہ رتی برابر نظر نہیں آتا۔ بسا اوقات تو خود شرمندگی ہوتی ہے کہ جن معاملات پر لکھا ہے، یا لکھا جارہا ہے، کہیں کوئی اثر ہی نہیں اور نہ ہی کہیں کوئی بہتری کے آثار دکھائی دیتے ہیں الٹا عوامی بہبود کے معاملات مزید ابتری کی جانب گامزن دکھائی دیتے ہیں۔’’ حکمرانوں ‘‘ کے نزدیک جو ترجیحات وہ متعین کر چکے ہیں، ان پر نظر ثانی کی بھی گنجائش نہیں اور عوام کو بس انتظار کرنا ہے اور دیکھنا ہے کہ اگر معاملات ان ترجیحات و خواہشات کے مطابق بروئے کار آئے تو ’’ ستے خیراں‘‘ بصورت دیگر بٹھہ تو بیٹھا ہوا ہی ہے، مزید بیٹھ جائے گا کہ حکمرانوں یا اشرافیہ کو اس صورت یہاں کب رہنا ہے؟۔
گزشتہ برس جولائی میں جسٹس سید منصور علی شاہ کی عدالت نے ایک تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے، انتخابات 2024ء کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے حکم دیا تھا کہ چونکہ غالبا جنوری میں وقت میں قاضی القضاہ کی جانب سے ایک سیاسی جماعت کے ساتھ ’’ حب‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اس کا انتخابی نشان چھین لیا تھا بلکہ اس فیصلے کی من مانی تشریح کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس سیاسی جماعت کو جماعت تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ اسی پر کیا موقوف، سیاسی جماعت کے حریف، حریف تو خیر اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان بذات خود بھی بن گیا تھا، اور ذاتی دشمن گرداننے والے طاقتوروں نے صرف اس جماعت کی شناخت ہی نہیں چھینی تھی بلکہ اس کے حمایت یافتہ امیدواروں کو کاغذات نامزدگی تک جمع کرانے کی اجازت نہیں دی تھی، الیکشن کمیشن نے ایسے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی ہی وصول کرنے سے انکار کر دیا، جن کی نامزدگی اس سیاسی جماعت کے حوالے سے تھی، ایسے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کے لئے کہا گیا۔ کئی ایک امیدواروں کے لئے ان کی واضح و بلند بانگ سیاسی شخصیت و سیاسی وابستگی کے باوجود انہیں آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے پر مجبور کیا گیا، دوسری طرف عدالتیں اس درجہ مجبور و بے بس دکھائی دی کہ ایسے معاملات میں جہاں فوری داد رسی کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں ڈنگ ٹپائو کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے، معاملے کو طول دیا گیا تاآنکہ داد رسی کی اہمیت ہی ختم ہو جائے۔ ان معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے، جسٹس منصور علی شاہ کے فل کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا کہ مخصوص نشستیں تحریک انصاف کا حق ہے اور جب تک معاملے کی جڑ تک نہ پہنچا جائے، حقائق کو پرکھا نہ جائے سمجھا نہ جائے، مکمل انصاف نہیں ہوسکتا لہذا یہ عدالت تحریک انصاف کو جنوری میں دئیے گئے فیصلے کے خلاف نہ صرف اسے سیاسی جماعت تسلیم کرتی ہے بلکہ مخصوص نشستوں کا اہل سمجھتی ہے تاہم وہ اراکین جو آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے ہیں، آئین کی شرائط پوری کرتے ہوئے، پندرہ دنوں میں ( اصل مدت میں نرمی برتتے ہوئے) سیاسی جماعت کا حصہ بن جائیں۔ یہاں پھر الیکشن کمیشن بطور ایک فریق سامنے آیا اور ان اراکین کو تقسیم کرتے ہوئے، اتحادی جماعت میں شامل ہونے پر بھی لیت و لعل سے کام لیتا رہا تاآنکہ اسمبلی کی جانب سے بدنیتی پر مبنی قانون نہیں بن گیا، الیکشن کمیشن نے جسٹس منصور علی شاہ کی عدالت کے فیصلہ پر عمل درآمد آج تک نہیں کیا۔
اس دوران اسمبلی نے کیا کیا گل کھلائے، کیسے کیسے قوانین بنائے، کون کون سی شخصیت آستین کا سانپ ثابت ہوئی، کس طرح ایک آئین و قانون پسند مرد قلندر کو قاضی القضاہ کے منصب سے دور رکھا، یہ سب اب تاریخ کا حصہ ہے، تاہم خیبر پختونخوا اسمبلی نے اس دوران، مخصوص نشستوں کے حوالے سے سخت مزاحمت کی لیکن اتوار کی شب، سب کچھ مٹی میں مل گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بہرطور، چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد، عدالتوں کے کئے گئے فیصلے کے مطابق، تحریک انصاف کو سیاسی جماعت تسلیم نہ کرتے ہوئے، مخصوص نشستیں پی ڈی ایم کی جماعتوں میں تقسیم کر دی، جس کا حلف بھی عدالتی حکم پر خیبر پختونخوا کے گورنر نے انتہائی عجلت میں لے لیا ۔ اب تو نہ کوئی مقام حیرت بچا ہے اور نہ انگشت بدنداں ہوتی ہے کہ بقول بیرسٹر اعتزاز احسن پاکستان سرزمین بے آئین ہے، یہاں نہ کوئی قانون ہے اور نہ کوئی آئین بلکہ ایسی موم کی ناک ہے کہ جسے طاقتور جب چاہیں، جیسے چاہیں، اپنی سہولت کے مطابق موڑ لیتے ہیں اور اس سہولت کاری میں کسی سیاسی اداکار کی کوئی تخصیص قطعا نہیں کہ آج تک کی تاریخ میں ہر صاحب اقتدار نے بہرطور طاقتوروں کی خوشنودی کے لئے ہی کام کیا ہے۔ رہی بات ذوالفقار علی بھٹو کی یا اب عمران خان کی تو اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ بہرطور ان دونوں شخصیات نے بھی کسی نہ کسی حوالے سے طاقتوروں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالے رکھا ہے تاوقتیکہ انہیں اقتدار سے الگ نہیں کیا گیا البتہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد دونوں کے حالات میں کسی حد تک مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ معتوب ہونے کے بعد نہ تو بھٹو نے طاقتوروں کے سامنے سر جھکایا اور اب تک عمران خان بھی سر جھکانے سے انکاری ہے، بھٹو کی سیاسی جماعت کے حصے بخرے کئے گئے، اس کے قریبی ترین ساتھیوں کو توڑا گیا، الگ سیاسی دھڑے بنوائے گئے، یا بھٹو کی قریب ترین شخصیات کو دہرے کردار کے لئے تیار کیا گیا، بعینہ یہی صورتحال آج عمران خان کو درپیش ہے کہ ایک طرف اسے جھکانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف اس کی سیاسی جماعت میں بھی نقب لگائی گئی جس کا حال وہی ہوا جو بھٹو کے ساتھیوں کا ہوا کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے، اور سب سے اہم ترین مماثلت بھٹو کے ساتھ بھی عوام اپنے تن من دھن کے ساتھ تھی اور عمران خان کے ساتھ بھی عوام کی یہی قلبی صورتحال ہے۔ بھٹو کے ساتھیوں کو بھی سبز باغ دکھائے گئے تھے اور عمران خان کے ساتھیوں کو بھی ایسے ہی سبز باغ دکھائے گئے ہیں، عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں جہانگیر ترین اور پرویز خٹک، خود کو بہترین تاجر اور متبادل سیاسی قیادت سمجھ بیٹھے اور اپنی سیاسی زندگی برباد کر چکے جبکہ علی امین گنڈا پور جیسے ساتھی اقتدار میں رہتے ہوئے وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں مگر انجام بالآخر مختلف نہیں اور تاریخ کے کوڑے دان میں جا گرتے ہیں۔
حالیہ سینیٹ انتخابات میں بھی علی امین گنڈا پور نے ایسا ہی کھیل کھیلنے کی کوشش کی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی طرز پر سینیٹ میں بلامقابلہ امیدواروں کو منتخب کرانے کا فیصلہ کیا تا کہ ہارس ٹریڈنگ سے بچا جاسکے لیکن وہ بھول گئے کہ اصولوں اور نظریات پر کھڑے ہونے والے ایسی مشکلات کا ڈٹ کر میدان میں مقابلہ کرتے ہیں کہ اس لعنت سے چھٹکارا اسی صورت ممکن ہے وگرنہ یہ لعنت کسی صورت گلا نہیں چھوڑتی۔ ایسی مفاہمت کا مطلب صرف یہی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے نظریات میں کمی کو اور اپنے اراکین کی کمزور وابستگی کا اعتراف کررہی ہے وگرنہ مضبوط نظریات پر قائم سیاسی جماعتیں ایسی کمزوری و لچک نہیں دکھاتی خواہ حالات کچھ بھی ہوں۔ علاوہ ازیں! اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح علی امین گنڈا پور کی ’’ زیر قیادت‘‘ جماعت نے نظریاتی کارکنان کو ہمیشہ کی طرح اہمیت نہیں دی بلکہ دولتمند مگر نظریات سے عاری افراد کو ترجیح دیتے ہوئے ایک مالدار شخصیت کو سینیٹ کا رکن بنوایا ہے جس کا ماضی اس امر کا گواہ ہے کہ وہ صرف پیسے اور تعلقات کے بل بوتے پر ایوان بالا کا رکن بنا ہے۔ اس صورتحال کا ایک دوسرا پہلو زیادہ اہم ہے اور تحریک انصاف کے کارکنان کو اس پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے علی امین گنڈا پور، جو رویہ اپنائے ہوئے ہیں بہرطور اس سے واضح طور پر یہ جھلکتا ہے کہ وہ خود کو آج عمران خان کا متبادل تصور کر رہے ہیں، ان کے ذہن میں بتدریج یہ راسخ کرنے کی کوشش کی جاری ہے کہ وہ بہرطور عمران خان سے زیادہ بہتر سیاستدان ہیں اور مقتدرہ کے لئے قابل قبول بھی ہیں۔ علی امین گنڈا پور کو ممکنہ طور پر یہ باور کروادیا گیا ہے کہ اگر وہ جماعت کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو عمران خان کی رہائی کارکنوں کے لئے ایک ڈرائونا خواب بھی بن سکتی ہے بشرطیکہ ان کی گرفت جماعتی امور پر بھرپور ہو جائے تاہم علی امین گنڈا پور کے لئے اتنا سمجھنا کافی ہے کہ برصغیر میں سیاست نامی کھیل بہرحال آج بھی شخصیات کے گرد ہی گھومتا ہی، تحریک انصاف اور عمران خان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، بالفرض اگر عمران خان نہیں رہتے تو تحریک انصاف نامی سیاسی جماعت کا شیرازہ بکھرتے دیر نہیں لگے گی، نتیجتا علی امین گنڈا پور کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔ واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

Back to top button