Column

قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
تحریر : قاضی شعیب خان

حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری کو قرآن حکیم کا عکس کہا جاتا ہے۔ علامہ صاحب قرآن حکیم سے خصوصی شغف رکھتے تھے۔ آپؒ قرآن کریم کو خوب غور و فکر کے ساتھ پڑھتے۔ اس کی تعلیمات پر گھنٹوں غور و فکر کرتے رہتے۔
آپؒ نے بہت سی قرآنی آیات کے مفہوم کو کمال خوبی سے شعر میں ڈھالا۔ آپؒ امت کو قرآن کریم سے جڑجانے اور اس چشمہ صافی سے مستفید ہونے کی بار بار نصیحت کرتے ہیں۔ آپ مرد مومن کو کردار و عمل کے لحاظ سے سراپا قرآن دیکھنا چاہتے ہیں۔
آپؒ کا مرد مومن قرآن کی تعلیمات سے روشنی حاصل کرتا ہے۔۔۔۔ یہاں تک کہ کردار و عمل کے لحاظ سے وہ سراپا قرآن بن جاتا ہے۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
علامہ صاحب قرآن کریم کے مطالب و مفاہیم میں غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ آپؒ اس آفاقی کلام کے معانی و مفاہیم کے سچے موتیوں کی چمک دمک سے اپنی شاعری کو جلا بخشتے۔
اسلام نام ہے علم کا۔ علم و فن مسلمانوں کی پہچان رہے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنی ہوگی۔۔۔ سائنس و ٹیکنالوجی کو دین کی روشنی میں بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے استعمال کرکے ہم دنیا کو امن و ترقی کا تحفہ دے سکتے ہیں
علم و فن اور تحقیق و جستجو کی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے سلسلے میں وہ مسلمانوں کو بار بار بیدار کرتے ہیں۔
دیکھیے قرآن کریم کی سورۃ الرعد کی آیت نمبر 17کا ایک آیت کا حصہ :
واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض۔۔۔ القرآن
ترجمہ: ’’ اور جو خلق خدا کے لیے نفع بخش ہو وہ باقی رہتا ہے‘‘۔۔
اسی مفہوم میں ایک مفسر لکھتے ہیں:
جب بارش برستی ہے اور پانی نشیب میں بہنے لگتا ہے تو اس پر جھاگ آ جاتا ہے یا سونے کو آگ پر تپانے سے اس پر جھاگ آ جاتا ہے۔ جھاگ بے مصرف شے ہے، تھوڑی دیر بعد خشک ہو کر اڑ جاتا ہے، لیکن پانی اور سونا جو نفع بخش ہیں باقی رہتے ہیں۔ گویا جو باقی رہنا چاہتا ہے وہ پانی کی طرح نفع بخش اور سونے کی طرح قیمتی ہو جائے تو اسے کوئی مٹا نہیں سکے گا۔ ( پانی اور سونے کی مثالوں میں تہہ در تہہ معارف و حکم ہیں)
اسی تناظر میں یہ حدیث پاک دیکھیے: خیر الناس من ینفع الناس۔ ( کنز العمال)
ترجمہ: ’’ یعنی بہترین لوگ وہ ہیں جن سے لوگوں کو فائدہ پہنچے‘‘۔
دیکھیے قرآن و سنت کی اسی آفاقی سچائی کو اپنے انداز میں شعر کی صورت میں آپؒ نے کس خوبصورتی سے پیش کیا۔
جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
گویا نام انہی کا زندہ رہتا ہے جو بنی نوع انسان کے لیے کچھ مفید کام کر جاتے ہیں۔ اور کون نہیں جانتا کہ اسلام نام ہے انسانیت کا اور خدمت انسانیت کا۔
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب لکھتے ہیں: ’’ خدمت خلق ایک ایسا کام ہے کہ اس کی ہزارہا صورتیں ہیں اور ہر شخص اپنے شعبے سے وابستہ رہ کر اور اپنے فرائض کو ادا کرتے ہوئے خدمت خلق کی سعادت حاصل کر سکتا ہے مثلاً اہل ثروت کو ہاتھ اور دستر خوان کھلا رکھنا چاہئے، اہل علم کی خدمت خلق تعلیم و تدریس ہے، اہل تجارت کی خلق خدا کو وافر، عمدہ اور مناسب داموں پر ضروریات زندگی کی فراہمی ہے، ارباب سیاست کی عوام کی فلاح کی پالیسیاں بنانا اور انہیں دیانتداری سے مکمل کرنا ہے. سیاست یا اقتدار کا تقاضا یہ نہیں کہ ہنگامی حالت میں کسی ضرورت مند کی مدد کی جائے، ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ کسی کو ضرورت مند نہ ہونے دیا جائے. کسان کا کام زیادہ سے زیادہ غلہ پیدا کرنا ہے اور طلبہ کا حصول تعلیم ہے،۔۔۔۔ الغرض ہر شخص کسی نہ کسی پہلو سے خلق خدا کے لیے نفع بخش ہو کر طویل اور نیک نامی کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے اور دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد بھی اس کے ذکر خیر کی عطر بیزیاں فضا کو معطر کرتی رہیں گی‘‘۔
قرآن مجید کی تعلیمات ایمان کے بعد کردار کی تشکیل اور سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہیں۔
قرآن کریم کی تعلیمات سے اخذ شدہ روشنی میں علامہ اقبالؒ کی شاعری بھی ایمان، اطاعت و عشق رسولؐ کی روشنی میں کردار و عمل پر ابھارتی ہے۔
مسلمان نوجوانوں کو قرآن و سنت کے مطالعہ کے بعد کلام اقبالؒ سے بھی ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ کلام اقبالؒ ہمارا ادبی، تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی ورثہ ہے جس سے ہم نے ناصرف فائدہ اٹھانا ہے بلکہ اسے اگلی نسل تک بھی منتقل کرنا ہے۔ تاکہ مسلمان دنیا میں پھر سے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں۔ روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی ضروری ہے تاکہ ہم نا صرف جدید ترقی سے مستفید ہوسکیں بلکہ کل انسانیت کی خدمت کرکے اپنی دو جہانوں کی کامیابی کو یقینی بنا سکیں ۔ یہی خدا پرستی ہے اور یہی انسان دوستی ہے۔ یہی ہمارے اسلاف کی حقیقی تعلیمات رہی ہیں۔ یہی ’’ فی الدنیا حسنۃ اور یہی فی الآخرۃ حسنۃ‘‘ کا مفہوم اور تقاضا بھی ہے۔
تی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے
کھویا گیا کس طرح ترا جوہرِ ادراک
کس طرح ہوا کند ترا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تُجھ سے ستاروں کے جگر چاک
مہر و مہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک

جواب دیں

Back to top button