Column

جموں و کشمیر کا الحاق:: ایک تاریخی جائزہ اور پاکستان سے تعلق کی حقیقت

جموں و کشمیر کا الحاق:: ایک تاریخی جائزہ اور پاکستان سے تعلق کی حقیقت
تحریر : قاسم فاروق

1947 ء میں برطانوی ہند کی تقسیم نے برصغیر کے نقشے پر دو نئی آزاد ریاستوں، پاکستان اور بھارت، کو جنم دیا۔ اس تاریخی تقسیم کا بنیادی اصول یہ تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کا حصہ بنیں گے، جبکہ ہندو اکثریتی علاقے بھارت کا حصہ بنیں گے۔ برطانوی راج کے خاتمے کے ساتھ ہی 562ریاستوں پر برطانوی بالادستی ختم ہو گئی ۔ ان ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ یا تو بھارت یا پاکستان سے الحاق کریں، یا آزاد رہیں ۔ تاہم، انہیں یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ جغرافیائی اور ثقافتی قربت کے ساتھ ساتھ اپنی عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمسایہ ڈومینین سے الحاق کریں ۔
جموں و کشمیر برصغیر کی سب سے بڑی دیسی ریاست تھی جس کا رقبہ 84471مربع میل تھا ۔ 1941ء کی مردم شماری کے مطابق، جموں و کشمیر کی آبادی میں 77.11فیصد مسلمان اور 22.89فیصد ہندو اور دیگر کمیونٹیز ( بدھ مت اور سکھ) شامل تھیں ۔ خاص طور پر، کشمیر وادی میں مسلمانوں کا تناسب 93.6فیصد تھا ۔ جغرافیائی طور پر، کشمیر کی سرحدیں پاکستان، بھارت اور چین اور سے ملتی ہیں ۔ پاکستان کے لیے اس کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا جیسے اہم آبی وسائل کشمیر سے گزرتے ہیں، جو پاکستان کی زراعت، معیشت اور بقا کے لیے ’’ شہ رگ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
تقسیم ہند کے بنیادی اصول کے مطابق، مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان کا حصہ بننا تھا ۔ جموں و کشمیر کی آبادی کی واضح اکثریت مسلمان تھی، اور اس کے پاکستان سے گہرے مذہبی، ثقافتی، جغرافیائی اور اقتصادی روابط تھے، جن میں زبان، خوراک اور دریائوں کا بہائو شامل ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں، کشمیر کا قدرتی طور پر پاکستان سے الحاق ہونا چاہیے تھا، جیسا کہ تقسیم کے اصولوں کے تحت دیگر مسلم اکثریتی ریاستوں کے ساتھ ہوا ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کا بھارت سے الحاق تقسیم کے بنیادی اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی تھا اور ’’ دو قومی نظریہ‘‘ کی نفی تھی، جس نے اس دیرینہ تنازعے کی بنیاد رکھی اور اسے ’’ نامکمل تقسیم‘‘ کا حصہ بنا دیا ۔ یہ تنازعہ صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے، جس نے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ دشمنی اور عدم اعتماد کو جنم دیا ہے۔
19 جولائی1947ء کو سری نگر میں سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا ۔ یہ اجلاس برطانوی ہند کی تقسیم اور ریاستوں کے مستقبل کے فیصلے سے تقریباً ایک ماہ قبل ہوا تھا ۔ اجلاس کی صدارت چودھری حمید اللہ خان نے کی، کیونکہ چودھری غلام عباس کو مہاراجہ ہری سنگھ نے عوام کی مرضی کے خلاف آواز اٹھانی پر قید کر رکھا تھا ۔ اس تاریخی اجلاس میں 59جرات مند اور متحرک رہنمائوں کی موجودگی میں ریاست کے پاکستان سے الحاق کی قرارداد پیش کی گئی اور اسے ’’ اللہ اکبر‘‘ اور’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں کی گونج میں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ۔
اس قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا کہ جغرافیائی حالات، 80فیصد مسلم آبادی ، پنجاب کے اہم دریاں کا ریاست سے گزرنا ، زبان، ثقافتی، نسلی اور اقتصادی روابط، اور پاکستان سے قربت کی وجہ سے جموں و کشمیر کا پاکستان سے الحاق ناگزیر ہے ۔ یہ فیصلہ کشمیریوں کی جانب سے پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی متحرک قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار تھا ۔ یہ قرارداد نہ صرف کشمیری عوام کی پاکستان سے الحاق کی واضح اور متفقہ خواہش کا اظہار تھی بلکہ یہ تقسیم ہند کے اصولوں، یعنی مسلم اکثریتی علاقوں کا پاکستان سے الحاق، کے عین مطابق بھی تھی ۔ اس قرارداد نے مہاراجہ کے آزاد رہنے یا بھارت سے الحاق کرنے کے دعوے کی بنیاد کو ختم کر دیا، کیونکہ یہ عوام کی اکثریت کی مرضی کے خلاف تھا۔ یہ قرارداد آج بھی کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کی بنیاد ہے اور ان کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کو تقویت دیتی ہے ۔
کشمیری عوام نے اس قرارداد کے ذریعے اپنا مستقبل پاکستان سے جوڑنے کا عزم کیا۔ وہ اپنے سیاسی، مذہبی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی حقوق کے تحفظ کے لیے پاکستان کا حصہ بننا چاہتے تھے، کیونکہ انہیں ہندوئوں کے تحت اپنے مستقبل کے بارے میں گہری تشویش تھی اور وہ مسلمانوں کے لیے قائم ہونے والی ریاست سے زیادہ ہم آہنگی محسوس کرتے تھے ۔ سید علی گیلانی جیسے رہنمائوں نے ’’ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ کا نعرہ بلند کیا، جو کشمیریوں کے پاکستان سے گہرے جذباتی اور نظریاتی تعلق کو ظاہر کرتا ہے ۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو یہ معلوم ہے کہ ایک بھی کشمیری نئی دہلی کے حق میں ووٹ نہیں دے گا ۔ یہ ایک واضح تضاد تھا کہ عوام کی اکثریت پاکستان سے الحاق چاہتی تھی جبکہ حکمران آزاد رہنا یا بھارت سے الحاق کرنا چاہتا تھا ۔ یہ تضاد ایک جمہوری اصول کے خلاف تھا کہ ریاست کا فیصلہ عوام کی مرضی سے ہونا چاہیے، اور اس نے عوامی ناراضی کو جنم دیا۔ حکمران کی خواہش کو عوامی مرضی پر ترجیح دینے نے تنازع کو مزید پیچیدہ بنا دیا اور کشمیر میں عوامی مزاحمت کی بنیاد رکھی، جس کا نتیجہ بعد میں مسلح جدوجہد اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی صورت میں نکلا ۔ یہ صورتحال ’’ جبری الحاق‘‘ کے نظریے کو تقویت دیتی ہے، جہاں عوام کی مرضی کو نظر انداز کیا گیا۔
مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرا حکومت نے مسلم اکثریتی آبادی پر مظالم ڈھائے اور انہیں غریب، ناخواندہ اور ریاستی خدمات میں ناکافی نمائندگی دی ۔ جون 1947ء میں، پونچھ کے علاقے میں مہاراجہ کی انتظامیہ کے خلاف ’’ ٹیکس نہ دو‘‘ مہم شروع ہوئی ۔ جولائی1947ء میں، مہاراجہ نے پونچھ اور میرپور میں غیر فوجی مسلم فوجیوں کو غیر مسلح کرنے کا حکم دیا، جبکہ مسلمانوں نے شکایت کی کہ پولیس کے پاس جمع کرائے گئے ہتھیار ہندوئوں اور سکھوں میں تقسیم کیے جا رہے تھے ۔ ہندوئوں اور سکھوں کے لیے ہتھیاروں کی تربیت کے کیمپ بھی قائم کیے گئے، جو مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی تیاری کا اشارہ تھا ۔
ان ظالمانہ اقدامات کے نتیجے میں پونچھ میں بغاوت پھوٹ پڑی، جسے ’’ پونچھ بغاوت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ بغاوت مقامی مسلم آبادی کی مہاراجہ کی حکومت کے خلاف شدید مزاحمت تھی، جسے بعد میں پاکستان سے قبائلی جنگجوئوں کی حمایت حاصل ہوئی ۔
اگست سے نومبر 1947ء کے دوران جموں صوبے کے مشرقی اضلاع ( جموں، ادھم پور، ریاسی، کٹھوعہ) میں مسلمانوں کے خلاف منظم قتل عام ہوا ۔ مختلف اندازوں کے مطابق، 20000سے 500000تک مسلمان ہلاک یا لاپتہ ہوئے۔ ایان سٹیفنس نے یہ تعداد 500000بتائی ہے، جن میں سے 200000 لاپتہ ہو گئے ۔ جسٹس یوسف سرف نے 20000 سے200000مسلمانوں کے ہلاک ہونے کا تخمینہ لگایا ۔ اس قتل عام میں ریاستی مشینری کی ملی بھگت شامل تھی۔ مہاراجہ کی فوج، ہندو اور سکھ انتہا پسند گروہوں کی مدد سے اس میں ملوث تھی ۔ یہ واقعات قبائلی حملے اور مہاراجہ کے بھارت سے الحاق سے پہلے پیش آئے ۔ یہ ایک واضح ’’ نسلی صفائی‘‘ کی کوشش تھی جس کا مقصد علاقے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنا تھا ۔
مہاراجہ کے ظالمانہ اور امتیازی اقدامات نے عوامی ناراضی اور مزاحمت کو جنم دیا، جس نے پونچھ بغاوت کی شکل اختیار کی ۔ جموں میں مسلمانوں کے وسیع پیمانے پر قتل عام نے مہاراجہ کے اقتدار کی قانونی حیثیت کو مزید کمزور کر دیا اور یہ ظاہر کیا کہ الحاق کا فیصلہ عوامی مرضی کے خلاف تھا ۔ان عوامل کو جواز بنا کر بھارت نی کشمیر میں فوجی مداخلت کی اور اسے ’’ امن و امان بحال کرنے‘‘ کا نام دیا، جبکہ حقیقت میں یہ مہاراجہ کے خلاف عوامی بغاوت کو دبانے اور ریاست پر قبضہ کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ یہ کشمیریوں کے لیے ’’ آزادی کی جدوجہد‘‘ کا آغاز تھا، اور اس نے تنازعے کو ایک داخلی بغاوت سے بین الاقوامی مسئلہ میں تبدیل کر دیا۔
تقسیم ہند کے وقت، مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت یا پاکستان میں سے کسی سے بھی الحاق نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بجائے پاکستان کے ساتھ ’’ سٹینڈ سٹل معاہدہ‘‘ پر دستخط کیے ۔ اس معاہدے کا مقصد ریاست کی حیثیت کو تبدیل نہ کرنا تھا اور پاکستان کے ساتھ تجارت، سفر، مواصلات اور دیگر خدمات کی تسلسل کو یقینی بنانا تھا ۔ بھارت نے اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں کیا ۔
پاکستان کا موقف ہے کہ مہاراجہ نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی جب اس نے بھارت سے الحاق کا اعلان کیا ۔ پاکستان نے یہ دلیل دی کہ مہاراجہ کے پاس الحاق کا اختیار باقی نہیں رہا تھا کیونکہ اس کی عوام بغاوت کر چکی تھی اور وہ دارالحکومت سے فرار ہو چکا تھا ۔ سٹینڈ سٹل معاہدے کی موجودگی میں مہاراجہ کا بھارت سے الحاق غیر قانونی تھا، کیونکہ اس معاہدے نے ریاست کی حیثیت کو منجمد کر دیا تھا اور مہاراجہ کو یکطرفہ طور پر کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے روکا تھا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب اس کی اپنی حکمرانی شدید دبا میں تھی ۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی نے بھارت کے الحاق کے دعوے کی قانونی بنیادوں کو کمزور کر دیا اور پاکستان کے لیے اس تنازعہ میں ایک اہم قانونی دلیل فراہم کی، جس نے اسے بین الاقوامی فورمز پر اٹھانے کا جواز دیا ۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ الحاق ایک آزادانہ اور رضاکارانہ عمل نہیں تھا، بلکہ حالات کے دبا اور معاہدے کی خلاف ورزی کا نتیجہ تھا۔
ایلسٹر لیمب اپنی کتاب Birth of a Tragedy – Kashmir 1947میں اس بھارتی دعوے کو چیلنج کرتے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 26اکتوبر 1947ء کو الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ لیمب کے مطابق، اس وقت کے شواہد کی بنیاد پر یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ مہاراجہ ( کشمیر کے) نے کبھی الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔۔۔ الحاق کا معاہدہ شاید کبھی وجود میں ہی نہیں آیا۔ لیمب کی تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی فوجیں الحاق کے معاہدے پر دستخط سے پہلے ہی کشمیر میں داخل ہو چکی تھیں۔ یہ ایک اہم زمانی ترتیب ہے جو الحاق کی رضاکارانہ نوعیت پر سوال اٹھاتی ہے۔ ان کی تحقیق، جو آرکائیول مواد اور غیر مطبوعہ دستاویزات پر مبنی ہے، بھارت کے قانونی دعوے کو کمزور کرتی ہے ۔ اگر الحاق کا معاہدہ مشکوک ہے یا اس پر مہاراجہ کے دستخط بھارتی فوجوں کی آمد کے بعد ہوئے، تو اس کی قانونی حیثیت مزید کمزور ہو جاتی ہے۔ یہ ایک’’ جبری الحاق‘‘ کی صورتحال کو جنم دیتا ہے نہ کہ رضاکارانہ الحاق کی، اور یہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ لیمب کی تحقیق بھارت کے اس بنیادی دعوے کو منہدم کرتی ہے کہ کشمیر کا الحاق قانونی تھا، اور اس طرح مسئلہ کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ کے طور پر عالمی سطح پر تسلیم کرنے کی دلیل کو تقویت ملتی ہے، جس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے ہونا چاہیے ۔ یہ مسئلہ کشمیر کو دو ممالک کے درمیان ایک علاقائی تنازعہ سے بڑھ کر ایک بین الاقوامی قانونی اور انسانی حقوق کا مسئلہ بناتا ہے۔
بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیر کی مستقبل کا فیصلہ عوام کی مرضی کے مطابق رائے شماری کے ذریعے کرنے کے بار بار وعدے کیے۔ 27اکتوبر 1947ء کو پاکستان کے وزیر اعظم کو ٹیلی گرام میں نہرو نے کہا: ’’ ہماری رائے، جسے ہم بار بار عوام کے سامنے پیش کر چکے ہیں، یہ ہے کہ کسی بھی متنازعہ علاقے یا ریاست میں الحاق کا سوال عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیا جانا چاہیے اور ہم اس رائے پر قائم ہیں‘‘۔
2نومبر 1947ء کو آل انڈیا ریڈیو پر قوم سے خطاب میں نہرو نے کہا: ’’ ہم اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کشمیر کا مستقبل بالآخر عوام کے ذریعے طے کیا جائے گا۔ یہ وعدہ ہم نے نہ صرف کشمیر کے عوام سے بلکہ دنیا سے بھی کیا ہے، ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہٹ سکتے ہیں ‘‘۔
21 نومبر 1947ء کو پاکستان کے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں نہرو نے کہا: ’’ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ جیسے ہی امن و امان قائم ہو جائے گا، کشمیر کو بین الاقوامی سرپرستی میں رائے شماری یا ریفرنڈم کے ذریعے الحاق کا فیصلہ کرنا چاہیے، جیسے کہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں‘‘۔
5مارچ 1948ء کو بھارتی آئین ساز اسمبلی میں نہرو نے کہا: ’’ الحاق کے وقت بھی، ہم نے یکطرفہ اعلان کیا تھا کہ ہم رائے شماری یا ریفرنڈم میں کشمیری عوام کی مرضی کا احترام کریں گے۔۔۔ ہم نے اس موقف پر ہر وقت قائم رہے ہیں اور ہم شفاف رائے شماری کے مکمل تحفظ کے ساتھ رائے شماری کرانے اور کشمیری عوام کے فیصلے کا احترام کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 21اپریل 1948ء کو قرارداد 47منظور کی، جس میں پاکستان سے قبائلیوں کے انخلا، بھارت سے فوجوں کی کمی، اور پھر اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا مطالبہ کیا گیا ۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ کی جانب سے تنازعے کے حل کا ایک واضح روڈ میپ تھی۔ تاہم، بھارت نے رائے شماری کے وعدوں سے انحراف کیا ۔ نہرو نے خود ایک خط میں شیخ عبداللہ کو لکھا تھا کہ ’’ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ رائے شماری کا یہ معاملہ ابھی بہت دور ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ رائے شماری نہ ہو‘‘ ۔ یہ ان کے عوامی وعدوں کے برعکس ان کے نجی ارادوں کو ظاہر کرتا ہے۔ بھارت نے پاکستان کو ’’ جارح‘‘ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ پاکستان پہلے اپنی فوجیں واپس بلائے، جبکہ پاکستان نے ضمانت مانگی کہ بھارت بھی اپنی فوجیں واپس بلائے گا۔ اس طرح فوجی انخلا پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا، جس کی وجہ سے رائے شماری کا عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔
نہرو کے عوامی وعدے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت محض ایک ’’ فریب‘‘ تھی تاکہ عالمی برادری اور کشمیری عوام کو مطمئن کیا جا سکے، جبکہ بھارت کا اصل ارادہ کشمیر کو مکمل طور پر ضم کرنا تھا۔ یہ بھارت کی سفارتی چالاکی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس فریب نے کشمیری عوام میں گہری ناراضگی پیدا کی اور ان کی جدوجہد کو مزید تقویت دی ۔ یہ بھارت کے لیے عالمی سطح پر ایک اخلاقی اور قانونی کمزوری بن گیا، کیونکہ اس نے اپنے ہی وعدوں اور بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی کی۔ یہ عالمی برادری کی بے بسی کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی، جس سے کشمیر تنازع ایک حل طلب مسئلہ بنا رہا۔
بھارت نے کشمیر کو مسلم اکثریتی ہونے کے باوجود ضم کر لیا، جبکہ حیدرآباد اور جوناگڑھ جیسی ہندو اکثریتی ریاستوں میں مسلم حکمرانوں کے پاکستان سے الحاق کے فیصلوں کو مسترد کر دیا اور انہیں جبراً ضم کیا ۔ یہ بھارت کے دوہرے معیار اور توسیع پسندانہ پالیسی کو ظاہر کرتا ہے ۔ اقوام متحدہ نے کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ، لیکن فوجی انخلا کے معاملے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے رائے شماری کبھی نہیں ہو سکی ۔ 1972ء کے بعد، سلامتی کونسل نے کشمیر کے معاملے پر کوئی نئی قرارداد منظور نہیں کی ۔ تاہم، پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور او آئی سی جیسے فورمز پر اس مسئلے کو اٹھاتا رہتا ہے ۔
جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں ایک انتہائی افسوسناک امر ہے جس میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت، جبری گمشدگیاں، تشدد، عصمت دری اور جنسی زیادتی، آزادی اظہار پر پابندی، اور مذہبی اجتماعات پر پابندی شامل ہیں ۔ 1990ء کے بعد سے کشمیر میں کئی قتل عام ہوئے ہیں۔ آرمڈ فورسز ( اسپیشل پاورز) ایکٹ (AFSPA)سیکیورٹی فورسز کو مبینہ خلاف ورزیوں سے استثنیٰ دیتا ہے، جس کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید مذمت کی ہے ۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC)نے امریکی حکام کو بتایا کہ بھارتی حکومت ’’ تشدد‘‘ کو معاف کرتی ہے، جس میں ’’ جنسی مداخلت‘‘ بھی شامل ہے۔ 9اپریل 2017ء کو کشمیری انسانی ڈھال کے واقعے میں، ایک 26سالہ شخص کو پتھر پھینکنے والوں کو روکنے کے لیے بھارتی فوج کی جیپ کے سامنے باندھا گیا ۔ 2019ء کے لاک ڈائون کے دوران تشدد کی اطلاعات سامنے آئیں، 3000باشندے حراست میں لیے گئے، اور 13000لڑکوں کو حراست میں لیا گیا، جن پر دوران قید تشدد کا الزام ہے۔ 2020ء کے ایک سروے میں 91فیصد کالج طلباء نے بھارتی فوجیوں کے مکمل انخلا کا مطالبہ کیا، اور اگست 2019ء میں زیادہ تر کشمیری آزادی یا پاکستان سے الحاق چاہتے تھے ۔
بھارت نے مقبوضہ علاقے میں غیر قانونی آبادیاتی تبدیلیاں شروع کی ہیں، جن میں ڈومیسائل قوانین کا نفاذ اور 40لاکھ سے زیادہ جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کرنا شامل ہے، تاکہ مسلم اکثریت کو ہندو اکثریت میں تبدیل کیا جا سکے۔ بھارتی حکمرانی محض ایک سیاسی تنازعہ نہیں بلکہ ایک مکمل انسانی بحران ہے، جہاں ریاستی جبر منظم طریقے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث بن رہا ہے، جس کا مقصد کشمیری عوام کی مزاحمت کو کچلنا ہے۔ آبادیاتی تبدیلیاں بھی اس جبر کا حصہ ہیں۔ یہ صورتحال کشمیری عوام کی آزادی اور حق خود ارادیت کی خواہش کو مزید تقویت دیتی ہے اور عالمی برادری پر دبا ڈالتی ہے کہ وہ ان پامالیوں کا نوٹس لے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرائے ۔ یہ مسئلہ کشمیر کو محض ایک علاقائی تنازع کے بجائے ایک عالمی انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر پیش کرتا ہے۔
پاکستان کشمیری عوام کو ان کے حق خود ارادیت کے حصول تک سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت فراہم کرنے کا اعادہ کرتا ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بیان کیا گیا ہے ۔ پاکستان نے یورپی یونین ، او آئی سی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جیسے بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ یہ بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی "شہ رگ” قرار دیا تھا، جو اس کی بقا کے لیے اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے ۔ یہ ایک قومی نعرہ بن چکا ہے جو کشمیر کے مقصد کے لیے حمایت کو متحرک کرتا ہے ۔ پاکستان کا ’’ شہ رگ‘‘ کا نظریہ صرف ایک جذباتی نعرہ نہیں بلکہ اس کی قومی سلامتی اور اقتصادی مفادات سے بھی گہرا جڑا ہوا ہے، جو اس کی کشمیر پالیسی کی بنیاد ہے۔ یہ نظریہ پاکستان کی بین الاقوامی سفارتکاری کو تحریک دیتا ہے۔ یہ نظریہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو ایک انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے مسئلے کے طور پر پیش کرنے کی ترغیب دیتا ہے، تاکہ عالمی دبائو کے ذریعے بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مرکزی ستون ہے اور اس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مستقل طور پر متاثر کیا ہے۔
جموں و کشمیر کا تنازع تقسیم ہند کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے، جو 1947ء سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات پر حاوی ہے اور خطے میں عدم استحکام کا باعث بنا ہوا ہے ۔ یہ تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگوں اور مسلح جھڑپوں کا سبب بنا ہے ۔ اس تنازع کا حل کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ یہ اقوام متحدہ کا کشمیری عوام سے کیا گیا وعدہ ہے ۔ بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی مسلسل پامالیاں، فوجی موجودگی، اور آبادیاتی تبدیلیوں کی کوششیں خطے میں مزید کشیدگی کا باعث بن رہی ہیں اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔

قاسم فاروق

جواب دیں

Back to top button