Column

ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ: علاقائی رابطے کا ایک انقلابی قدم

ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ: علاقائی رابطے کا ایک انقلابی قدم
تحریر : چودھری خادم حسین

ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان ریلوے منصوبہ ایک تاریخی اور انقلابی قدم ہے جو نہ صرف ان تین ممالک کے درمیان اقتصادی، تجارتی اور جغرافیائی تعلقات کو ایک نئی جہت دے گا، بلکہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان ایک مستحکم اور محفوظ پل کا کردار بھی ادا کرے گا۔ یہ منصوبہ ’’ ٹرانس افغان ریلوے‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو ازبکستان کے شہر ترمز سے شروع ہو کر افغانستان کے راستے پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں داخل ہو گا اور آخرکار پاکستان کی بندرگاہوں تک پہنچے گا۔
دنیا بھر میں اقتصادی ترقی کا ایک نمایاں عنصر موثر اور محفوظ نقل و حمل کا نظام ہوتا ہے۔ جب ممالک آپس میں جُڑتے ہیں تو صرف زمینی فاصلہ نہیں بلکہ معاشی فاصلہ بھی کم ہوتا ہے۔ یہ منصوبہ بھی اسی عالمی رجحان کی ایک جھلک ہے، جہاں علاقائی ممالک اپنے وسائل اور انفراسٹرکچر کو مشترکہ ترقی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ایک ایسا ریلوے نظام جو تین ممالک کو جوڑتا ہے، یقیناً ان کے درمیان تجارتی رابطے کو تیز اور موثر بنائے گا۔
ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ ازبکستان کے لیے ایک خواب کی تعبیر کی مانند ہے۔ وسطی ایشیا کا یہ زمینی ملک طویل عرصے سے عالمی منڈیوں تک براہ راست رسائی سے محروم رہا ہے۔ اب اس منصوبے کے ذریعے ازبکستان کو افغانستان کے راستے پاکستان کی بندرگاہوں، بالخصوص گوادر اور کراچی تک براہ راست رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ازبکستان کی برآمدات عالمی منڈیوں تک کم وقت، کم لاگت اور محفوظ راستے سے پہنچ سکیں گی۔افغانستان، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے بدامنی اور اقتصادی زبوں حالی کا شکار رہا ہے، اس منصوبے سے براہ راست فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ریلوے ٹریک کی تعمیر، مرمت، دیکھ بھال اور اسٹیشنوں کی تعمیر سے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ مزید یہ کہ افغانستان ٹرانزٹ فیس کی مد میں قیمتی زرمبادلہ حاصل کر سکے گا۔ ساتھ ہی ساتھ، یہ منصوبہ افغانستان کو خطے کے ایک اہم تجارتی گزرگاہ میں تبدیل کر سکتا ہے، جو ملکی استحکام میں بھی مددگار ہو گا۔پاکستان کے لیے یہ منصوبہ ایک بہترین موقع ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی حیثیت کو معاشی برتری میں تبدیل کرے۔ پاکستان عرصے سے وسطی ایشیا کو اپنی بندرگاہوں سے جوڑنے کے خواب دیکھ رہا تھا، اور یہ منصوبہ ان خوابوں کی تعبیر کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کی بندرگاہیں نہ صرف ازبکستان بلکہ دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے لیے بھی تجارتی راستے بن سکتی ہیں، جس سے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہو گا بلکہ پاکستان کی لاجسٹک انڈسٹری، ریلوے نظام اور ٹرانسپورٹ سروسز کو بھی تقویت ملے گی۔
ریلوے منصوبے سے سامان کی ترسیل میں وقت اور اخراجات دونوں میں نمایاں کمی آئے گی۔ موجودہ زمینی راستے یا ٹرک سروسز مہنگی، غیر محفوظ اور سست ہیں، جب کہ ریلوے کے ذریعے فریٹ سروسز نہ صرف سستی ہوں گی بلکہ ماحول دوست بھی ہوں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ مقامی صارفین کو سستی مصنوعات اور تاجر برادری کو زیادہ منافع حاصل ہو گا۔
یہ منصوبہ صرف ایک تجارتی راہداری نہیں بلکہ تینوں ممالک کے درمیان اقتصادی و سفارتی تعاون کا سنگ میل بن سکتا ہے۔ جب ممالک معاشی طور پر ایک دوسرے سے جُڑتے ہیں تو ان کے درمیان سیاسی تعلقات بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کو علاقائی امن و استحکام کے لیے بھی ایک مثبت قدم سمجھا جا رہا ہے۔
اس منصوبے کی کامیابی کا دائرہ محض تین ممالک تک محدود نہیں رہے گا۔ مستقبل میں ایران، چین اور روس جیسے بڑے علاقائی کھلاڑی بھی اس راہداری میں دلچسپی لے سکتے ہیں۔ چین کے ’’ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘‘ (BRI)کے تحت اس راہداری کو مزید وسعت دی جا سکتی ہے، جب کہ روس بھی وسطی ایشیا کے ذریعے جنوبی ایشیا تک تجارتی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ منصوبہ عالمی جیو اکنامک منظر نامے پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اگرچہ منصوبے کے فوائد بے شمار ہیں، مگر اس راہ میں کچھ چیلنجز بھی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان کی سلامتی کی صورتحال، تعمیراتی لاگت، سرمایہ کاری کے تحفظات، اور انفرا سٹرکچر کی کمی ایسے مسائل ہیں جو اس منصوبے کی رفتار کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام شریک ممالک طویل المدتی پالیسی، اعتماد سازی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شراکت کے ذریعے ان چیلنجز کا حل تلاش کریں۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ تینوں ممالک کے لیے ایک شاندار موقع ہے کہ وہ اپنی اقتصادی تقدیر کو تبدیل کریں۔ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے مکمل ہو جاتا ہے تو یہ نہ صرف ایک ریلوی لائن بلکہ ایک ’’ اقتصادی زندگی کی شاہراہ‘‘ بن جائے گا، جو ان ممالک کے عوام کو خوشحالی، ترقی اور استحکام کی نئی راہیں دکھائے گا۔

جواب دیں

Back to top button