Column

جنے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا نہیں

جنے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا نہیں
تحریر : روہیل اکبر

جنے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا نہیں! پوری دنیا میں صرف لاہور ہی ایک ایسا شہر ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے۔ لاہور کا تاریخی مال روڈ جو سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ثقافت کا مرکز بھی رہا، دنیا بھر کے سیاح زندہ دلوں کے اس شہر کو دیکھنے آتے، اس شہر کی یہ بھی خاصیت ہے کہ سیاسی طور پر کسی بھی حکومت کے خلاف جب بھی کوئی تحریک لاہور سے شروع ہوئی تو پھر اسے منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیا، نہ جانے اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی کہ سیاح آنا چھوڑ گئے، شہر کی خوبصورتی ماند پڑگئی، پھر کامران لاشاری کو پرانا شہر بحال کرنے کی ذمہ داری دی گئی، جنہوں نے نہ صرف اندرون لاہور کا حسن بحال کیا بلکہ تاریخی مقامات کو بھی اصلی حالت میں واپس لانا شروع کر دیا، آہستہ آہستہ پرانا لاہور بحال ہونا شروع ہوگیا۔ اسی دوران راجہ منصور کو ڈی جی پی ایچ اے بھی لگا دیا گیا، جنہوں نے لاہور کے باغوں، پارکوں اور سڑکوں کو پھولوں سے سجا دیا اور اب لاہور ایک بار پھر نہ صرف ملکی سیاحت کا مرکز بن گیا بلکہ دنیا بھر کے سیاح بھی اس طرف متوجہ ہو گئے ہیں۔
لاہور پنجاب کا دارالحکومت اور پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے، اس وسیع و عریض شہر کی تاریخی اہمیت ایک ہزار سال پرانی ہے۔ یہ کئی خاندانوں کی حکمرانی میں پروان چڑھا، خاص طور پر مغل جنہوں نے اپنے پیچھے تعمیراتی عجائبات کی میراث چھوڑی، لاہور کا قلعہ، بادشاہی مسجد اور شالامار باغ نہ صرف مغل فن تعمیر کی عظمت کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ سیاحوں کو پاکستان کے سنہری ماضی سے دوبارہ جوڑ دیتے ہیں۔ لاہور شہر کی تاریخی تنگ گلیاں، ہجوم سے بھرے بازار اور حویلیاں شہر کے قدرتی حسن کی نمائندگی کرتی ہیں، جبکہ برطانوی دور کی عمارتیں جن میں لاہور میوزیم، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، ہائی کورٹ، ریلوے سٹیشن اور پنجاب اسمبلی ابھی بھی پوری شان و شوکت سے کھڑی ہیں۔ جدید پرکشش مقامات بھی شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے، ان میں لاہور چڑیا گھر، جوائی لینڈ، ایمپوریم مال، پیکجز مال، گریٹر اقبال پارک اور اب ڈول مین مال شامل ہیں۔ حال ہی میں تجدید شدہ لاہور سفاری پارک اورنج لائن میٹرو ٹرین نے شہر کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ والڈ سٹی اتھارٹی کے کے مطابق پچھلے سال 2024ء میں پاکستان بھر سے 10ملین سے زائد سیاحوں اور ہزاروں غیر ملکیوں نے لاہور میں تاریخی مقامات کا دورہ کیا، جن میں سے تقریبا 5.32ملین نے قلعہ لاہور کو بھی دیکھا شالیمار گارڈنز میں 1.18 ملین سیاح آئے لاہور کا پاک ثقافتی ورثہ اس کے مضبوط ترین سیاحتی مقناطیسوں میں سے ایک ہے۔ گوالمنڈی اور فورٹ روڈ میں سٹریٹ فوڈ سے لے کر گلبرگ اور ڈی ایچ اے میں عمدہ کھانوں کے لازوال ذائقے اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں سے واپس جانے والے سیاح جب لاہور کے بارے میں سوچتے ہونگے تو انہیں اس کے بے مثال ذائقے اور یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی ضرور یاد آتی ہوگی۔
ہمارے حکمران اگر لاہور پر توجہ دیں تو یہ شہر جنوبی ایشیا کا اعلیٰ ثقافتی سیاحتی مقام بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہاں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کے مقامات، متحرک فوڈ کلچر، تہوار، موسیقی اور بھرپور تاریخ کے ساتھ یہ شہر سالانہ لاکھوں ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔ لاہور پاکستان کا فوڈ کیپیٹل بھی ہے چیئرمین پاکستان ریسٹورنٹس یونین عامر رفیق قریشی کا کہنا ہے کہ حکومت ثقافتی مقامات کے قریب انفرا سٹرکچر تیار کرکے اور مہمان نوازی کے آغاز کے لیے مراعات اور سبسڈی فراہم کرکے سیاحت کو فروغ دے سکتی ہے، کیونکہ لاہور میں مقامی ڈھابوں سے لے کر بین الاقوامی فوڈ چینز تک 6000سے زیادہ کھانے پینی کی جگہیں ہیں اور 1200سے زیادہ ہوٹل اور مہمانوں کی رہائشیں ہیں، ان کھانے پینے کی جگہوں پر فراہم کیے جانے والے روایتی اور مغربی کھانے زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو لاہور کی طرف راغب کر سکتے ہیں اگر حکومت مہمان نوازی کے شعبے کو سہولت فراہم کرے ۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور کو سیاحت کے مرکز کے طور پر اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے انفرا سٹرکچر، ڈیجیٹل ٹورازم پلیٹ فارمز اور ماحولیاتی طور پر پائیدار طریقوں میں مسلسل سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہے تاکہ لاہور کو سیاحوں کے لیے مزید پرکشش بنایا جا سکے اور وہی پرانا دور واپس لوٹ آئے جب لاہور کا نام سنتے ہی ذہن میں خوشبو بکھیرتی گلیاں، قہقہے لگاتی رونقیں اور تاریخ کی دھیمی دھیمی سرگوشیاں گونجنے لگتی تھیں۔
یہ شہر صرف اینٹوں، سڑکوں اور عمارتوں کا مجموعہ نہیں بلکہ تہذیب، تمدن، محبت اور شاندار ماضی کا ایک زندہ استعارہ ہے، جسے پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے اور اگر سیاحت کی روح کو کہیں سکون میسر آتا تھا تو وہ لاہور ہی تھا، جہاں مغل بادشاہوں کی یادگاریں ہیں، سکھ سلطنت کی نشانیاں ہیں اور برصغیر کی تہذیبی گواہیاں بھی بادشاہی مسجد کا جلال، قلعہ لاہور کی شان اور شالامار باغ کی لطافت آج بھی سیاحوں کو وہی منظر دکھاتی ہیں جو کبھی مغل شہزادوں نے دیکھا تھا۔ بھاٹی دروازے کے سامنے حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے، جو روحانی سکون کی تلاش میں آتے ہیں۔ جس کی فضائوں میں صرف خوشبو ہی نہیں بلکہ دعائوں کی قبولیت کی امید بھی بسی ہوئی ہے۔ مال روڈ پر الحمرا آرٹ کونسل بھی ہے، جہاں کبھی فنکاروں کی تخلیق ہوتی تھی، لیکن ناسمجھ اور کم عقل لوگوں کی وجہ سے آج صرف لوٹ مار ہی لوٹ مار ہے۔ ثقافتی تہذیب سے ناواقف لوگوں نے اس ادارے کو ثقافتی سرگرمیوں سے محروم کر دیا اور تو اور یہ پاکستان کا واحد ایسا ادارہ ہے جہاں ایک معمولی ملازم چند سال میں گریڈ 5سے گریڈ 16سے 18تک پہنچ جاتا ہے۔ یہی وہ ادارہ ہے جسے لاہور کی روح کہا جاتا تھا، جہاں سے فن جنم لیتا رہا اور پھر پوری دنیا میں یہاں کے فنکاروں نے بتایا کہ پاکستان کہاں ہے لیکن بدقسمتی سے اس ادارے کو جان بوجھ کر تباہ اور برباد کیا گیا۔ الحمرا کی بربادی پر تفصیلات پھر کبھی، اس وقت لاہور کی تاریخی حیثیت پر بات کر رہا ہوں تو یہاں کا عجائب گھر بھی اپنی مثال آپ ہے، جہاں تاریخ، فنونِ لطیفہ اور ورثے کی مکمل کہانیاں کانوں میں سرگوشیاں کرتی ہیں۔ انار کلی بازار اور لیبرٹی مارکیٹ لاہور کی جان ہیں، جہاں ایک طرف خریداروں کا رش ہوتا ہے تو وہیں دوسری طرف سیاح لاہوری کھانوں کے ذائقے چکھتے ہوئے ’’ مزہ آگیا‘‘ کہے بغیر نہیں رہتے۔ نہاری، پائے، حلیم، چرغہ اور گول گپے یہاں کی پہچان ہیں۔ لاہور کے باغات شہر کی فضا کو خوشگوار بنانے میں مصروف ہیں، جن میں باغِ جناح، گلشنِ اقبال پارک، جیلانی پارک ( ریس کورس) اور رائے ونڈ کے مضافاتی علاقوں میں قدرتی خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اسی شہر کی پرانی تنگ گلیاں ماضی کی جھلک دکھاتی ہیں تو وہیں گلبرگ، ڈیفنس اور بحریہ ٹائون جدید طرز زندگی کا آئینہ دار ہیں، ان علاقوں میں موجود بین الاقوامی ہوٹلز، کیفے، شاپنگ مالز اور تفریحی مراکز غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی کشش کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔
لاہور ایک ایسا شہر ہے جو ہر آنے والے کو اپنی آغوش میں لے کر مہمان نوازی کا حق ادا کرتا ہے، چاہے آپ تاریخ کے شوقین ہوں یا ذائقے کے دیوانے، چاہے آپ فنونِ لطیفہ کے رسیا ہوں یا جدید تفریح کے متلاشی، لاہور آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گا۔ یہ شہر نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کی سیاحت کا دل ہے، اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جنہیں لاہور نہیں ویکھیا اور جمیا نہیں۔

جواب دیں

Back to top button