Column

شرم ہم کو مگر نہیں آتی

شرم ہم کو مگر نہیں آتی
تحریر: احمد نبیل نیل
کبھی کبھی اس ملک کا شہری ہونے پر شرم سے زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ انسانوں کا نہیں، درندوں کا سماج ہے۔ آج سوشل میڈیا پر دو کہانیاں گردش کر رہی ہیں، دونوں نے دل دہلا دیا، روح لرزا دی اور غیرت کے اس جھوٹے بت کے سامنے انسانیت کو برہنہ کر دیا۔
پہلی کہانی بلوچستان سے ہے۔ جہاں پسند کی شادی کرنے والے ایک نوجوان جوڑے کو سرِعام گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔
دوسری کہانی جھنگ کی ایک یونیورسٹی طالبہ کی ہے جسے پیپر ختم ہونے کے بعد اس کے اپنے ہی رشتے دار نے شادی سے انکار کے ’’ جرم‘‘ میں قتل کر دیا اور اس کی لاش سڑک پر پھینک کر فرار ہو گیا۔
میں اکثر سوچتا ہوں، یہ ’’ غیرت‘‘ آخر ہے کیا؟ کہاں سے آتی ہے؟ لگتا ہے جیسے یہ کسی ظالم، مغرور اور مرد پرست قبیلے کی خاندانی وراثت ہے، جو روزانہ بے شمار جانیں نگل جاتی ہے، مگر اس کی پیاس پھر بھی نہیں بجھتی۔
دل میں ایک اور سوال اٹھتا ہے: یہ غیرت بس عورتوں کے لیے ہی کیوں جاگتی ہے؟ مردوں کو کیوں نہیں مارتی؟ کتنی متعصب، کتنی بے انصاف چیز ہے یہ "غیرت” کہ جس کا نشانہ ہمیشہ عورت ہی بنتی ہے۔
ہم ایک ایسے مذہب کے ماننے والے ہیں جو ہر انسان کو اپنی پسند سے زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے، جس نے نکاح کو ایک باہمی رضا مندی کا بندھن قرار دیا۔ مگر ہم کون ہوتے ہیں جو کسی لڑکی یا لڑکے کو اس حق سے محروم کر دیں؟ ہم کون ہوتے ہیں کسی کی زندگی چھیننے والے؟ کیا ہمیں اس ربِ کائنات کا خوف نہیں جس نے زندگی عطا کی؟ وہ رب جس کا صرف ایک ’’ کن‘‘ پوری کائنات کو نیست و نابود کر سکتا ہے؟ اور ہم اسی کے بنائے لوگوں کو بے جھجک قتل کر دیتے ہیں۔
بلوچستان کی اس لڑکی نے ڈیڑھ سال پہلے پسند کی شادی کی۔ اسے چالاکی سے بہلا پھسلا کر واپس قبیلے بلایا گیا۔ وہاں جرگہ لگا اور موت کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ پہاڑوں میں لے جا کر اُس بہادر لڑکی پر گولیاں برسائی گئیں۔ پہلی گولی کھا کر بھی وہ کھڑی رہی، دوسری گولی پر بھی نہ ڈگمگائی، تیسری گولی پر بھی جم کر کھڑی رہی، مگر چوتھی گولی نے اسے گرا دیا۔ گرنے کے بعد بھی درندوں نے اسے بخشا نہیں۔ اُس کے جسم میں مزید کئی گولیاں اتار دی گئیں اور اس کے شوہر کو بھی اسی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ ایک سوچا سمجھا اجتماعی قتل تھا۔ ایک قبیلے کے ہاتھوں، ایک زہریلی سوچ کے ہاتھوں، ایک جھوٹی غیرت کے ہاتھوں۔
دوسری لڑکی کی کہانی بھی کچھ کم دل خراش نہیں۔ ایک طالبہ، جو اپنے خوابوں کو سچ کرنے نکلی تھی، اپنے خاندان کا سہارا بننے نکلی تھی۔ پیپرز مکمل کیے، سامان باندھا اور خوشی خوشی گھر کی جانب روانہ ہوئی، مگر راستے میں اسے اس کے اپنے ہی رشتے دار نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ صرف اس لیے کہ اس نے اُس سے شادی سے انکار کر دیا تھا۔
یہ کیسا معاشرہ ہے؟ کیا اسے معاشرہ کہنا بھی جائز ہے؟ جہاں انسان کی جان کی قیمت نہیں، جہاں زندگی کوڑیوں کے بھائو بکتی ہے، جہاں لوگ زندہ لاشیں بن کر جی رہے ہیں، جہاں کسی کی انا، کسی کی مردانگی کو ٹھیس لگے تو وہ اسے ’’ غیرت‘‘ کا نام دے کر قتل کر دیتا ہے۔ یہ درندوں کی نگری ہے… یہاں انسانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
ہم اپنے بچوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ دنیا کو کیا منہ دکھا رہے ہیں؟ جب دنیا ہمیں درندہ، جاہل، ظالم اور غیر مہذب کہتی ہے تو ہمیں برا کیوں لگتا ہے؟ کیا ہم نے دنیا کو کوئی اور تاثر دیا ہے؟
یہ وقت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اپنا محاسبہ کریں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں۔ انسانیت کے ساتھ یا حیوانیت کے ساتھ؟۔
دورِ جہالت میں بھی یہی ہوتا تھا، لوگوں کو سرِ عام سنگسار کیا جاتا تھا۔ آج صدیوں بعد بھی اگر ہم وہی کچھ کر رہے ہیں تو ہم نے تہذیب، تعلیم اور قانون کی کیسی ترقی کی؟ ایک طرف ہم ترقی کے دعوے کرتے ہیں، شعور اور ٹیکنالوجی کی باتیں کرتے ہیں، دوسری طرف پاکستان کے کئی قبائلی علاقوں میں آج بھی صدیوں پرانی دقیانوسی روایات رائج ہیں۔ ایسی روایات جہاں فیصلہ آئین و قانون کے مطابق نہیں بلکہ نام نہاد سرداروں کی ذاتی پسند و ناپسند پر کیا جاتا ہے۔
یہ صرف ایک معاشرتی مسئلہ نہیں، یہ ریاستی ناکامی بھی ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت، عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر سنجیدگی سے غور کریں۔ اس حیوانی سوچ، ان بے رحم نظام اور ان خود ساختہ جرگوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہی، تاکہ انسانوں کا یہ ملک واقعی انسانوں کے رہنے کے قابل بن سکے۔

جواب دیں

Back to top button