Column

تھرڈ امپائر

تھرڈ امپائر
بھارت کی آبی برتری کا خواب چکنا چور
تحریر: محمد ناصر شریف
لو بھئی بھارتیو، کرلو اب پانی بند، چین نے تبت میں دریائے برہم پترا پر 167.8ارب امریکی ڈالر مالیت کے ڈیم کی تعمیر کا باضابطہ آغاز کر دیا۔ اس ڈیم کی تعمیر کا کام بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کی سرحد کے قریب ہو رہا ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق چینی وزیر اعظم لی کیانگ نے دریائے برہم پترا کے زیریں علاقے جسے مقامی طور پر یارلنگ زانگبو کہا جاتا ہے، کے شہر نِنگچی میں ایک سنگ بنیاد کی تقریب کے دوران اس منصوبے کے آغاز کا اعلان کیا۔ یہ تقریب تبت خود مختار علاقے کے شہر نِنگچی کے مینلنگ ہائیڈرو پاور اسٹیشن کے مقام پر منعقد ہوئی۔ اس ہائیڈرو پاور منصوبے کو دنیا کا سب سے بڑا بنیادی ڈھانچے کا منصوبہ کہا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ پانچ سلسلہ وار ہائیڈرو پاور اسٹیشنز پر مشتمل ہوگا، جس پر مجموعی سرمایہ کاری تقریباً 1.2ٹریلین یوآن (تقریباً 167.8 ارب امریکی ڈالر) بتائی جا رہی ہے۔ اس ہائیڈرو پاور اسٹیشن سے ہر سال 300ارب کلو واٹ گھنٹے سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی توقع کی جارہی ہے، جو 30کروڑ سے زائد افراد کی سالانہ ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہے۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر چین کے بیرونی علاقوں کو بجلی فراہم کرے گا جبکہ تبت میں مقامی طلب کو بھی پورا کرے گا، جسے چین سرکاری طور پر شیزانگ کہتا ہے۔
چین نے 5سالہ منصوبے کے تحت 2020ء میں اس ڈیم کو بنانے کا اعلان کیا تھا تاہم اس کی منظوری دسمبر 2024ء میں دی گئی تھی۔ منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے پیدا بجلی چین کے تھری گورجیس ڈیم سے حاصل پیداوار سے بھی 3گنا زیادہ ہوگی۔ دریائے یرلنگ سنپور پر قائم کی جانیوالی یہ دنیا کی سب سے بڑی ہائیڈرو الیکٹرک تنصیب ہوگی اور اس سے چین نہ صرف صارفین کی عام ضروریات بلکہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور کرپٹو مائننگ کیلئے بھی بے پناہ اور سستی بجلی استعمال کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
منصوبے کی جغرافیائی اور اسٹریٹجک اہمیت یہ بھی ہے کہ ڈائون اسٹریم میں تبت سے پانی دریائے برہم پترا میں تبدیل ہوکر بھارت کے زیر اثر دو ریاستوں اروناچل پردیش اور آسام کی جانب بڑھتا ہے اور بالآخر بنگلادیش میں داخل ہوتا ہے۔ اب یہ نیا ڈیم بننے سے نہ صرف بھارت کے زیر اثر دو ریاستوں بلکہ بنگلادیش کے متعلقہ علاقوں میں آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا اور وہ ممکنہ طور پر نقل مکانی پر مجبور ہوگی۔ ساتھ ہی پانی کا بہاؤ چین کے ہاتھ میں ہونے کے سبب بھارت کی کسی بھی جارحیت کی صورت میں چین اس ڈیم کے پانی کو بطور انتہائی موثر ہتھیار استعمال کر سکے گا۔ اس پانی کی قوت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ تبت میں بلند ترین مقام سے پانی دو ہزار میٹر کی اونچائی اور پچاس کلومیٹر چوڑائی کے علاقے سے نیچے گرتا ہے یعنی نیچے آبادی پر یہ پانی گرے تو اسے پانی کا ایٹم بم بھی کہا جاسکتا ہے۔
چین کی حکومت نے اس ڈیم پر ہائیڈرو پروجیکٹ کی تعمیر کیلئے یاجیانگ کمپنی قائم کی ہے اور تبت سے ہانک کانگ کیلئے بھی پاور ٹرانسمیشن لائن قائم کی جائے گی۔ چین کے نزدیک اروناچل پردیش جنوبی تبت کا جزو لاینفک ہے اور وہ یہاں تعمیر منصوبوں پر اعتراضات اٹھاتا رہا ہے، اسی لئے اس منصوبے کو بھی جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
بھارت اور چین، دونوں ایک دوسرے کی ہمسایہ اور حریف طاقتیں ہیں، جن کے درمیان ہزاروں کلومیٹر طویل سرحدی تنازعات موجود ہیں اور دونوں طرف ہزاروں فوجی تعینات ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پانی کی ممکنہ قلت اور ماحولیاتی اثرات کے خدشات ہونے کے سبب بھارت اور بنگلہ دیش میں اس منصوبے سے ہلچل مچ گئی ہے۔
بھارت کے رویے کو دیکھتے ہوئے چین جب چاہے سیلابی ریلے چھوڑ سکے گا یا پانی کی قلت پیدا کرکے فصلیں اجاڑنے کی پوزیشن حاصل کر لے گا۔ اس طرح بھارت کی آبادی کا مستقبل اپنی حکومتوں کے کرتوتوں کے ساتھ نتھی ہوجائے گا۔
بھارت کی وزارت خارجہ نے چین پر زور دیا ہے کہ دریائے برہم پترا کے بالائی علاقوں میں ہونیوالی سرگرمیوں سے دریا کے نچلے حصے کی ریاستوں کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔
دسمبر میں چین کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ اس منصوبے کا نیچے کے علاقوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا اور چین دریا کے نچلے حصے میں واقع ممالک سے رابطہ بھی برقرار رکھے گا۔ نیچے کے علاقوں کیلئے خدشات کے علاوہ ماہرینِ ماحولیات نے بھی خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے بڑے منصوبوں سے ماحولیاتی لحاظ سے حساس تبت کے پہاڑی علاقے پر ناقابل تلافی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
دنیا کے اس عظیم منصوبے پر بھارت کا اعتراض بنتا بھی نہیں، اروناچل پردیش کی حیثیت پر ویسے بھی سوالیہ نشانات ہیں، بھارت اس پر اپنے حق کا دعوے دار تو ہے اور وہ دریائے برہم پترا پر ہائیڈرو پاور ڈیم کی تیزی سے تعمیر کرکے آبی وسائل پر اپنا حق جمانے کی کوششوں میں ہے ۔
کام کے با ضابطہ آغاز سے پہلے ہی بھارت کی ریاست اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو نے اسے ایک ٹکنگ بم سے تعبیر کیا جو انڈیا کیلئے کبھی بھی تباہی لا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ چین پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔ چین کی طرف سے فوجی خطرے سے قطع نظر مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی بھی چیز سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے قبائل اور ہماری معیشت کیلئے خطرے کا باعث بنے گا۔ یہ کافی سنگین ہے کیونکہ چین اسے واٹر بم کے طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے۔
دہلی یونیورسٹی میں چینی امور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر راجیو رنجن نے کہا کہ پانی حیات بخش ہے اور دریا کو تہذیبوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ دریا اپنا رخ بدل لے تو بہت سی تہذیبیں معدوم ہو سکتی ہیں۔ اور اسی لئے بہت سے ممالک دریائی پانی پر بالادستی کیلئے برسوں یا صدیوں سے جدو جہد کر رہے ہیں۔ یعنی دریا اپنے حریف کو قابو کرنے کا ایک ہتھیار بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ڈیم کی تعمیر کے پیچھے چین کے بہت سے ارادے ہیں۔ ابھی پاکستان سے دریائے سندھ کے پانی کا تنازع ختم بھی نہیں ہوا کہ برہم پترا پر ڈیم کی تعمیر ایک نیا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ چین اپنے اسٹریٹجک اتحادی پاکستان کو سندھ کے پانی کے بحران سے بچانے کے لئے برہم پتر کے پانی کو اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر استعمال بھی کر سکتا ہے۔
ادھر بھارت میں سوشل میڈیا پر بھی صارفین اس حوالے سے بات کر رہے ہیں کہ کیا چین بھارت کو اسی کی زبان میں جواب تو نہیں دے رہا؟ جیسے بھارت ’’ سندھ طاس معاہدے ’’ کے معاملے میں پاکستان کے ساتھ کر رہا ہے۔
اس وقت بھارت کے لوگوں کے ذہنوں میں سوالات تو بے پناہ موجود ہیں، مگر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے ساتھ چین کے تعلقات کی نوعیت بھارت کے ’’ اعلیٰ دماغوں ‘‘ کی سوچ سے بڑھ کر نکلی ہے، پاکستان کیخلاف پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں دینے والے مودی اور بی جے پی کے حکمران طبقے نے ایک ارب 35کروڑ بھارتیوں کو اسی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں وہ 25کروڑ پاکستانیوں کو دیکھنا چاہتے تھے، گویا بھارت نے مسلسل پانی روکنے، ذخیرہ کرنے کے بیانات دیکر چین کیلئے کام آسان کر دیا، یوں آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔

جواب دیں

Back to top button