فراڈیوں کے ساتھ فراڈ

فراڈیوں کے ساتھ فراڈ
تحریر: رفیع صحرائی
ایپس کے ذریعے قرض دینے والوں کے خلاف سوشل میڈیا پر کافی شور مچا ہوا ہے۔ یہ ایک خطرناک مافیا ہے جو شریف شہریوں کو اپنے جال میں پھانس کر ان کے گرد ایسا شکنجہ کستا ہے کہ اس شکنجے سے رہائی ممکن نہیں رہتی۔ بہت سے لوگوں کے گھر کا سامان، زیورات اور مکان تک بک گئے مگر چند ہزار روپے لیا ہوا قرض نہیں اتر سکا۔ سود در سود کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں نے پچاس ہزار روپے قرض کے بدلے بیس بیس لاکھ روپے تک ادا کر دئیے مگر وہ لوگ مقروض ہی رہے۔ کئی لوگ ان کی دھمکیوں اور غلیظ زبان سے تنگ آ کر خودکشی بھی کر چکے ہیں۔ بے شمار شکایات کے باوجود حکومت کی طرف سے اس مافیا کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔
یہ حقیقت ہے کہ آن لائن قرض دینے والے دھونس اور بدمعاشی سے مقروض کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ مرض کا بڑھ جانا ہی اس کی دوا بن جاتا ہے۔ اب کچھ چالاک لوگوں نے اس مافیا کو بھی چکمہ دینا شروع کر دیا ہے۔
دن کے قریب دس بجے کا وقت تھا کہ مجھے لاہور کے ایک پی ٹی سی ایل نمبر سے کال موصول ہوئی۔ دوسری طرف سے کوئی نوجوان بول رہا تھا۔ مجھ سے پوچھا گیا
سر ! آپ صبا علی کو جانتے ہیں؟ ( میں نے مصلحتاً نام تبدیل کر دیا ہے)۔
جی ہاں ! جانتا ہوں، میں نے جواب دیا۔
سر! وہ کہیں جاب وغیرہ کرتی ہیں؟، دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
جی ہاں! وہ جاب کرتی ہیں۔
شکریہ سر، یہ کہہ کر کال کاٹ دی گئی۔
میں نے کال کرنے والے سے معلومات لینے کا مقصد پوچھا نہ ہی اس نے کچھ بتایا۔ میرا خیال تھا کہ اس لڑکی کی ایک بنک میں نئی نئی جاب لگی ہے۔ ممکن ہے اس کے ہیڈ آفس سے تصدیق کی جا رہی ہو۔ تاہم دوسرے دن میں نے صبا کو فون کر کے کال کے بارے میں بتا دیا۔ اس نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے میری بات کی تائید کی کہ ممکن ہے بنک کے ہیڈ آفس سے ہی کال آئی ہو۔
قریباً دس دن بعد دوبارہ اسی نمبر سے ہی کال آ گئی۔ میرے اٹینڈ کرنے پر بولنے والا چھوٹتے ہی کہنے لگا۔
سر! آپ نے اسی دن وہ نمبر ہی بند کروا دیا تھا؟
مجھے بڑا عجیب لگا۔ میں نے اس سے استفسار کیا کہ کون سے نمبر کی آپ بات کر رہے ہیں تو وہ بولا ’’ میں مس صبا علی کے نمبر کی بات کر رہا ہوں۔ آپ نے اس دن ان کے نمبر پر میری کال اٹینڈ کی تھی‘‘۔
میں نے اسے بتایا کہ اسے غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس کی کال کسی اور نے اٹینڈ کی ہو گی۔ وہ میری عزیز یا رشتہ دار نہیں ہے کہ میرے پاس بیٹھی ہو گی۔ قصہ مختصر وہ تلخ ہو کر بات کو بڑھاتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے مجھے گالیاں دینے لگا۔ اب میرے صبر و ضبط کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا۔ وہ شہری منڈا شاید اس بات سے بے خبر تھا کہ ہم دیہاتی لوگ گالیوں میں پی ایچ ڈی ہوتے ہیں۔ بس پھر سانس روکے بغیر میں نے 180کی رفتار سے اسے بے نقط سنانا شروع کر دیں۔ دوسری طرف سے یقیناً اس کے منہ سے کف بہہ رہی ہو گی۔ قریباً پانچ منٹ ہمارے درمیان گالیوں کا تبادلہ جاری رہا پھر اس نے اس دھمکی کے ساتھ کال کاٹ دی کہ آج سارا دن کال کر کر کے میرا جینا حرام کر دے گا۔ تین منٹ بعد اس کی پھر کال آگئی۔ میں نے اٹینڈ کرتے ہی نان سٹاپ گالیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ دو منٹ بعد کال اس نے خود ہی کاٹ دی۔ پانچ منٹ بعد ایک مرتبہ پھر اس کی کال آ گئی۔ میں نے گالیوں کا سلسلہ وہیں سے جوڑ دیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ اب کی بار اس کی آواز میں نرمی تھی۔ وہ مجھ سے بات کرنا چاہ رہا تھا مگر میں اب اسے کوئی موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔ تین چار منٹ تک گالیاں کھانے کے بعد اس نے کال کاٹ دی اور میری اس سے جان چھوٹ گئی۔ اس کے بعد پھر کبھی اس کی کال نہیں آئی۔
میں نے صبا سے رابطہ کیا اور اسے کال کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا تو اس نے بتایا کہ اس نے پچاس ہزار روپے گزشتہ ہفتے ہی ان سے قرض لیا ہے مگر اس کا قرض واپس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ میں نے کہا کہ تمہارا سب ڈیٹا انہوں نے تمہارے فون سے چوری کر لیا ہے۔ کہنے لگی، ’’ کوئی بات نہیں۔ میرے شناختی کارڈ پر ملتان کا ایڈریس لکھا ہوا ہے۔ فون کی سِم میں نے توڑ دی ہے اور وہ فون بند کر کے رکھ دیا ہے۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا‘‘۔
اگلے دن میرا بھتیجا نعمان ملنے آ گیا۔ باتوں باتوں میں میں نے اس وقوعے کا ذکر کیا تو کہنے لگا یہ تو کچھ بھی نہیں۔ میں آپ کو اپنے ایک دوست کا واقعہ سناتا ہوں۔ اس کے بعد اس نے مجھے اپنے دوست نعیم کا واقعہ سنایا۔
نعیم نے ایک پرانا اور خستہ حال ٹچ موبائل پانچ ہزار روپے میں کسی سے خریدا، اس میں ایک سو کے قریب فرضی ٹیلی فون نمبر فرضی ناموں سے فیڈ کر دئیے۔
( آن لائن قرض دینے والے فون کا تمام ڈیٹا چوری کر لیتے ہیں۔ بعد میں وہ فون میں محفوظ کیے گئے نمبروں پر کال کر کے مقروض کو ذلیل کرتے ہیں۔ اس کے فون میں موجود تصاویر کو ایڈٹ کر کے بے لباس کر دیتے ہیں اور مقروض کو سینڈ کر کے بلیک میل کرتے ہیں)۔
اس کے بعد وہ اینٹیں نکالنے والے مزدوروں کے پاس پہنچا اور بتایا کہ جس جس مزدور کے پاس اپنا شناختی کارڈ اور اپنے نام پر ٹیلی فون کی سِم ہے اسے دو ہزار روپے کی رقم مل رہی ہے۔ یہ غریبوں کے لیے خصوصی سکیم جاری ہوئی ہے۔ تین لوگ اسے ایسے مل گئے جن کے پاس شناختی کارڈ موجود تھے اور سِم بھی ان کے نام پر تھی۔ اس نے وہ کارڈ لیے۔ ان کی تصویریں بنائیں۔ باری باری اپنے فون میں ان کی سمیں ڈالیں اور تین مختلف آن لائن قرض دینے والی ایپس سے ایک لاکھ، پچاس ہزار اور پچاس ہزار روپے یعنی کل ملا کر دو لاکھ روپے کا قرض چند ہی منٹ میں حاصل کر لیا۔ جونہی اسے سِم پر آن لائن رقم وصول ہوتی وہ اس رقم کو فوراً ہی اپنے دوست کو ٹرانسفر کر دیتا جس کا جاز اور ایزی پیسہ کا کاروبار تھا۔ تینوں جگہ سے اس نے ان مزدوروں کے نام پر قرض حاصل کیا۔ ان کے شناختی کارڈز اور سِمیں واپس کرتے وقت انہیں فی کس دو ہزار روپے ادا کیے اور رفو چکر ہو گیا۔ یوں گیارہ ہزار روپے خرچ کر کے اس نے دو لاکھ روپے چند منٹ میں ہی کما لیے۔ وہاں سے واپسی پر اس نے وہ موبائل فون بھی توڑ کر زمین میں دبا دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ ان مزدوروں سے جب قرض دینے والی کمپنیوں نے رابطہ کیا تو انہوں نے کسی بھی قسم کے قرض کی وصولی سے انکار کر دیا۔ بالآخر حقیقت کھلی تو ان مزدوروں کو دھمکیاں دی گئیں مگر انہوں نے کچھ لیا ہوتا تو واپس کرتے۔ نعمان نے مجھے بتایا کہ اب تو اکثر لوگوں نے اس کام کو بطور کاروبار اپنا لیا ہے۔ وہ سیدھے سادے لوگوں سے سم اور شناختی کارڈ لے کر ان کے نام پر بھاری قرضہ لیتے ہیں اور دو تین ہزار روپے دے کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔
آن لائن قرض دینے والا مافیا جہاں لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رہا ہے، وہیں پر انہیں سبق سکھانے والے بھی میدان میں آ چکے ہیں۔ البتہ بھولے بھالے شریف شہری اب قرضہ نہ لے کر بھی دو تین ہزار روپے کے لالچ میں اس دلدل میں اترتے جا رہے ہیں۔ عوام میں یہ شعور اجاگر کرنا ہو گا کہ کسی کو چند منٹ کے لیے بھی اپنا اصل شناختی کارڈ اور ٹیلی فون سِم ہرگز نہ دیں۔