Ahmad NaveedColumn

صرف گولی کی اجازت ہے

صرف گولی کی اجازت ہے!
احمد نوید
پاکستان میں عورت ہونا محض صنفی امتیاز کا سامنا کرنا نہیں، بلکہ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے، جس میں زندگی، عزت، رائے، اور خودمختاری سب دائو پر ہوتے ہیں۔ یہ جدوجہد اُس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جب عورت دیہی، پسماندہ، یا قبائلی علاقے میں رہتی ہو، جہاں رسم و رواج، جرگہ سسٹم، اور غیرت کے تصورات انسانی حقوق سے بالاتر سمجھے جاتے ہیں۔
ملک کے بعض علاقے، جیسے بلوچستان، خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ، آج بھی روایتی قبائلی نظام کے زیر اثر ہیں۔ ان علاقوں میں قبیلہ محض ایک سماجی شناخت نہیں بلکہ ایک متوازی سیاسی و عدالتی طاقت ہے۔ یہاں سردار، وڈیرے اور قبائل کے فیصلے ہی قانون تصور کیے جاتے ہیں۔ عورت کو قبیلے کی ’’ عزت‘‘ سمجھا جاتا ہے، اور اگر وہ اپنی مرضی سے زندگی کا کوئی فیصلہ کرے چاہے وہ شادی ہی کیوں نہ ہوتو وہ قبیلے کی توہین گردانی ہوتی ہے۔
دو روز قبل وائرل ہونے والا واقعہ منظرِ عام پر آیا، جس میں ایک جوان جوڑے نے باہمی رضامندی سے شادی کی۔ اس عمل کو قبیلے کی غیرت کے خلاف تصور کیا گیا۔ انہیں ایک دعوت کے بہانے بلایا گیا، مگر یہ دعوت کسی خوشی کی نہیں، بلکہ عبرت کا پیغام دینے کے لیے تھی۔ ایک سنسان میدان میں، اسلحہ بردار افراد کے سامنے، ان دونوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ خاتون، جس کے ہاتھ میں قرآن تھا، اس نے خاموشی سے موت کو قبول کیا، گویا اس کے سکون میں معاشرے کے شور پر ایک واضح سوال چھپا تھا۔ اس نے اتنا کہا۔ صرف گولی کی اجازت ہے!
ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے فیصلے خود کیے۔ ان کی سزا اجتماعی قتل کی صورت میں دی گئی، تاکہ ’’ روایت‘‘ کا وقار محفوظ رہے۔ یہ واقعہ اس معاشرتی اور قبائلی نظام کی انتہائی سفاکی کو بے نقاب کرتا ہے، جو عورت کی خودمختاری کو خطرہ سمجھتا ہے۔ پاکستان میں اگرچہ 2016ء میں ’’ غیرت کے نام پر قتل‘‘ کے خلاف قانون سازی کی گئی، جس کے تحت قاتل کو معاف کرنے کی گنجائش ختم کر دی گئی ہے، لیکن عملی سطح پر اس قانون پر عملدرآمد ایک چیلنج ہی رہا ہے۔ قاتل اکثر قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں، اور معاملہ خاندان کے اندر ہی نمٹا دیا جاتا ہے۔ پولیس اور عدلیہ پر سیاسی و قبائلی دبائو ڈالا جاتا ہے، کئی مواقع پر جرگے یا پنچایت جیسے غیر رسمی عدالتی نظام قاتلوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان جرائم کو اکثر مذہب کی آڑ میں جواز فراہم کیا جاتا ہے، حالانکہ مذہب عورت کو مکمل عزت، تحفظ اور اختیار دیتا ہے۔ لیکن جب مذہبی علامات بھی عورت کو ظلم سے نہیں بچا سکتیں، تو یہ معاشرے کی مجموعی بے حسی اور مذہب کی غلط تعبیر پر ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ یہاں اصل مسئلہ عورت کے کسی عمل کا نہیں، بلکہ اس کے خود فیصلے کرنے کے اختیار کا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف قانون سازی میں نہیں، بلکہ اس پر موثر عملدرآمد، سماجی شعور، تعلیم، اور ریاستی اداروں کی آزادی میں پوشیدہ ہے۔ جب تک جرگے اور قبائلی پنچایتیں متوازی عدالتی نظام کے طور پر موجود رہیں گی، عورت کی حیثیت قبیلے کی ملکیت سے زیادہ کچھ نہیں بن سکے گی۔ عورت کو فیصلوں میں شراکت دار بنانا ہوگا، اسے مکمل انسان تسلیم کرنا ہوگا۔
یہ واقعہ کوئی پہلا نہیں اور بدقسمتی سے شاید آخری بھی نہ ہو۔ لیکن اس کہانی میں ایک پکار ہے کہ آخر کب تک عورت صرف خون، خاموشی، یا غیرت کی قربانی بنی رہے گی؟ سوال یہ نہیں کہ ہم کب بولیں گے، سوال یہ ہے، کیا ہم کبھی بولیں گے؟۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں ہر سال سیکڑوں خواتین کو ’’ غیرت‘‘ کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، لیکن ان کے قاتل شاذ و نادر ہی انصاف کے کٹہرے میں لائے جاتے ہیں۔ خواتین کے خلاف غیرت کے جرائم پر اپنی پہلی تحقیقاتی رپورٹ میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان جکڑ بند سماجی روایات اور اقدار کا پردہ چاک کیا ہے جن میں لاکھوں پاکستانی خواتین پھنسی ہوئی ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد ایک عالمی مسئلہ ہے، جو مختلف معاشروں اور ثقافتوں میں مختلف انداز سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں، غیرت کے جرائم کو روایت کی نام پر جائز قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ روایات خود اتنی بگڑ چکی ہیںکہ خواتین اور لڑکیاں اپنے شوہروں، باپوں اور بھائیوں کے ہاتھوں مار ی جارہی ہیں، جبکہ ریاستی حکام ان کے تحفظ کی ذمہ داری صرف زبانی دعووں تک محدود ہیں۔
پاکستانی خواتین کی زندگی کے ہر پہلو میں تشدد کا خطرہ شامل ہے۔ معمولی سے شک پر قتل ہو سکتا ہے۔ چاہے کوئی عورت سماجی روایات کی کتنی بھی پابندی کرے، وہ حملے کے خوف میں جیتی ہے۔ یہ حملہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے، اور زیادہ تر قریبی مرد رشتہ داروں کی طرف سے ہوتا ہے۔ اسے صرف اس شبہ پر گولی مار دی جاتی ہے، زندہ جلا دیا جاتا ہے یا کلہاڑی سے مار دیا جاتا ہے کہ اس نے خاندان کی ’’ عزت‘‘ پر داغ لگایا ہے۔ وہ صرف اس وجہ سے قتل کی جا سکتی ہے کہ اس کا کسی مرد سے تعلق ہونے کا شبہ ہو، یا وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے، یا کسی ظالم شوہر سے طلاق لے۔ خواتین کو کبھی صفائی کا موقع نہیں دیا جاتا، نہ ہی کسی غلط فہمی کو واضح کرنے کا۔ روایت صرف ایک ہی راستہ بتاتی ہے جس سے مرد کی غیرت بحال کی جا سکتی ہے: عورت کو قتل کر دیا جائے۔
غزالہ کو 6جنوری 1999ء کو جوہر آباد، پنجاب میں مبینہ طور پر اس کے بھائی نے آگ لگا کر زندہ جلا دیا کیونکہ اس کے خاندان کو شک تھا کہ اس کے کسی ہمسائے سے تعلقات ہیں۔ اس کی ننگی اور جلی ہوئی لاش تقریباً دو گھنٹے تک سڑک پر پڑی رہی کیونکہ کسی نے اسے ہاتھ لگانا مناسب نہ سمجھا۔
پاکستانی حکومت، اگرچہ اقوام متحدہ کے ’’ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن‘‘ کی توثیق کر چکی ہے، لیکن وہ غیرت کے نام پر قتل کو روکنے، تفتیش کرنے اور مجرموں کو سزا دینے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔ حکومت نے نہ تو امتیازی قوانین میں ترمیم کی ہے جو انصاف کے راستے میں رکاوٹ ہیں، نہ متضاد قانونی نظاموں کو ختم کیا ہے جو خواتین کے حقوق کو متاثر کرتے ہیں، اور نہ ہی پولیس و عدلیہ میں صنفی آگاہی کو فروغ دیا ہے۔
6 اپریل 1999ء کو 29سالہ سمیعہ سرور کو لاہور میں اپنے وکیل کے دفتر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا، اور اس قتل میں اس کی ماں بھی شریک تھی۔ دس سال تک گھریلو تشدد سہنے کے بعد طلاق کا مطالبہ کرنے پر اس کے والدین کو ایسا لگا جیسے انہوں نے بے عزتی کا سامنا کیا ہو، چنانچہ انہوں نے اس کے قتل کی منصوبہ بندی کی۔ ایک گواہ کے مطابق، سمیعہ کی ماں قتل کے بعد ’’ پوری پرسکون اور مطمئن‘‘ دکھائی دی، جیسے خون میں لت پت سمیعہ کوئی اجنبی ہو۔
پاکستانی عوام حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور خواتین کا تحفظ یقینی بنائے۔ اس کے لیے فوری طور پر عدالتی عمل اور فوجداری قوانین کا جائزہ لیا جائے۔
تمام غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی مکمل تحقیقات اور پیروی کی جائے۔ ملک گیر سطح پر مسلسل آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ عوام کو خواتین کے مساوی حقوق کے بارے میں بتایا جا سکے۔ خاص طور پر، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتی اہلکاروں کی تربیت کی جائے تاکہ وہ غیرت کے نام پر کیے گئے جرائم کے مقدمات کو غیر جانب دارانہ طریقے سے نمٹا سکیں۔
خدارا !غیرت کے نام پر قتل پاکستانی معاشرے کا ناسور ہے۔ اس کا فوری سخت سد باب کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ پھر کوئی مظلوم ، بے بس عورت یہ کہنے پر مجبور ہو کہ صرف گولی کی اجازت ہے!
آئیں، سب مل کر آواز اٹھائیں کہ کسی بھی صورت میں اور کسی بھی حالات میں عورت پر گولی چلانے کی اجازت نہیں!

جواب دیں

Back to top button