سینئر کو اہمیت نہ دینا قومی المیہ

سینئر کو اہمیت نہ دینا قومی المیہ
تحریر : شکیل سلاوٹ
کے پی کے میں سینئر رہنمائوں کو سینیٹ انتخابات میں نظرانداز کرنا ایک سیاسی المیہ خیبر پختونخوا کی سیاست میں حالیہ برسوں کے دوران کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان میں ایک سنگین اور مسلسل رجحان سینئر سیاستدانوں کو نظرانداز کرنے کا ہے، خاص طور پر سینیٹ انتخابات جیسے اہم مواقع پر۔ ایسے میں جب تجربہ اور سیاسی فہم کی اشد ضرورت ہوتی ہے، فیصلہ سازی میں ایسے افراد کو شامل نہ کرنا باعثِ تشویش ہے۔
سینیٹ ایک ایسا ایوان ہے جو وفاق کی نمائندگی کرتا ہے اور جہاں ہر صوبے کی برابر کی آواز ہونی چاہیے۔ کے پی کے جیسے صوبے سے منتخب سینیٹرز کا کردار نہ صرف صوبائی مسائل کو اجاگر کرنا ہوتا ہے بلکہ قومی سطح پر پالیسی سازی میں بھی ان کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، سینیٹ انتخابات میں اکثر ایسے افراد کو ترجیح دی جاتی ہے جن کا سیاسی تجربہ محدود ہوتا ہے یا جنہیں صرف وفاداری یا مالی حیثیت کی بنیاد پر چنا جاتا ہے۔
یہ رویہ کئی سینئر کارکنوں کے لیے دل شکستگی کا باعث بنتا ہے، جو برسوں تک پارٹی کے لیے میدانِ عمل میں سرگرم رہے، مشکلات برداشت کیں، جیلیں کاٹیں یا مسلسل عوامی خدمت کی۔ ان کے بجائے نسبتاً نئے اور غیر تجربہ کار افراد کو صرف اس بنیاد پر آگے لانا کہ وہ وسائل رکھتے ہیں یا پارٹی قیادت سے قربت رکھتے ہیں، ایک غیر منصفانہ طرزِ عمل ہے۔
یہ صرف افراد کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ پورے جمہوری عمل کے ساتھ ناانصافی ہے۔ تجربہ، فہم، تاریخ اور سیاسی شعور ایسے اثاثے ہیں جو کسی بھی قانون ساز ادارے کے لیے لازمی ہوتے ہیں۔ سینیٹ جیسے معتبر ادارے میں محض نمائشی چہروں یا کاروباری شخصیات کو منتخب کرنا ادارے کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے۔
اس سلسلے میں پارٹی قیادتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف نوجوان خون یا سرمایہ دار طبقہ ہی سیاست کو نہیں سنبھال سکتا، بلکہ پرانے، آزمودہ اور وفادار کارکنان ہی اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر سینئر سیاستدانوں کی قدر نہ کی گئی تو پارٹی کی بنیادیں کمزور ہوں گی اور کارکنوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
عوامی نمائندگی کے اصولوں کے تحت، کسی بھی انتخاب میں میرٹ، تجربہ اور عوامی خدمت کو فوقیت دینا ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر نہ صرف سیاسی جماعتیں اپنا وقار کھو بیٹھیں گی بلکہ جمہوری ادارے بھی بے معنی ہو جائیں گیں۔
ملک کے سیاسی اور سماجی منظرنامے میں کئی بار ایسے افراد اور جماعتیں ابھرتی ہیں جو خلوص نیت سے خدمت خلق یا قومی اصلاح کا عزم لے کر میدان میں آتی ہیں، مگر بدقسمتی سے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ ایسا رویہ صرف ان افراد یا تنظیموں کے لیے مایوس کن نہیں، بلکہ معاشرے اور جمہوری عمل کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
آج ہمارے اردگرد کئی صاحبِ حیثیت سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو سرمایہ، وسائل اور میڈیا کی طاقت کے بل بوتے پر عوامی رائے کو متثر کرتی ہیں۔ ان کے جلسے، اشتہارات، اور بیانیے ہر چینل، ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ہر گلی کوچے میں گونجتے ہیں۔ یہ جماعتیں نہ صرف اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہیں بلکہ اپنے مخالفین کو کمتر اور غیر موثر ظاہر کرنے میں بھی مہارت رکھتی ہیں۔
اس کے برعکس، وہ سیاسی کارکن یا چھوٹی جماعتیں جو مالی طور پر مستحکم نہیں، یا جن کے پاس وسائل محدود ہیں، وہ اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔ نہ ان کے بیانیے کو میڈیا کوریج ملتی ہے، نہ ان کے عوامی اجتماعات کو اہمیت دی جاتی ہے، اور نہ ہی انہیں پالیسی سازی کے عمل میں جگہ دی جاتی ہے۔ گویا اگر آپ کے پاس دولت، شہرت اور سیاسی پشت پناہی نہ ہو تو آپ کی نیت، قابلیت اور کردار سب غیر متعلق سمجھے جاتے ہیں۔
یہ رویہ خاص طور پر ان نوجوانوں، اساتذہ، اور محنت کشوں کے لیے انتہائی دلسوز ہے جو معاشرتی بہتری کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر عوام کی خدمت کے جذبے سے کام کرتے ہیں، لیکن سسٹم کی بے حسی اور سرمایہ دارانہ سیاسی ڈھانچے کی وجہ سے وہ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اگر ایک مخلص کارکن یا جماعت کو صرف اس لیے نظر انداز کر دیا جائے کہ ان کے پاس اشتہارات کی طاقت نہیں، یا وہ برادری ازم، فرقہ واریت یا خاندانی سیاست کا سہارا نہیں لیتے، تو سوال یہ اٹھتا ہے: کیا ہم واقعی ایک جمہوری، انصاف پسند اور ترقی یافتہ معاشرے کی جانب بڑھ رہے ہیں؟۔
ایسے میں ان افراد اور جماعتوں کو مایوس ہونے کے بجائے اپنی جدوجہد کو مزید مربوط، اور سلیقے سے آگے بڑھانا ہو گا۔ انہیں چاہیے کہ اپنا موقف واضح اور دلیل کے ساتھ پیش کریں۔
عوام سے براہِ راست رابطہ قائم کریں اور ان کے مسائل پر عملی کام کریں۔
اتحاد اور اشتراکِ عمل کے اصول اپنائیں تاکہ ان کی آواز مضبوط ہو۔
یہ بھی ضروری ہے کہ معاشرہ خود بھی ایسے افراد اور تنظیموں کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرے جو مالی طور پر کمزور مگر نیت کے لحاظ سے مخلص ہوں۔ کیوں کہ ترقی صرف سرمایہ کاری سے نہیں، سوچ کی تبدیلی سے آتی ہے۔
جمہوریت صرف طاقتوروں کا کھیل نہیں، بلکہ ہر شہری کی آواز کا احترام اس کا بنیادی اصول ہے۔ جب تک ہم اخلاص، خدمت، اور اصول پرستی کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے، ہماری سیاست بھی کھوکھلی رہے گی اور سماجی تبدیلی بھی خواب ہی بنی رہے گی۔