پٹرول بم اور KPKمیں کھربوں کے گھپلے

پٹرول بم اور KPKمیں کھربوں کے گھپلے
تحریر : راجہ شاہد رشید
بانی نے 1996ء میں جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو سب نے کہا کہ ایک تانگہ پارٹی کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ سال گزرتے گئے اور کھلاڑی وہیں پہ ہی کھڑے رہے جیسے تھے ۔ پھر آہستہ آہستہ ان کے ستارے چمکنے لگے اور مقدر سنورنے لگے۔ 2011ء میں پاکستان تحریک انصاف کو ’’ پر‘‘ لگ گئے پھر یہ PTIبن گئی، بالکل ایسے ہی جیسے ماضی میں اس مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلم لیگیں رنگ بدلتی رہی ہیں یعنی بنتی اور ٹوٹتی رہی ہیں ۔ مینارِ پاکستان لاہور کے مقام پر ایک بہت بڑے جلسے کا اعلان کرایا گیا ۔ پھر ’’ جمہوری طاقتوں کی مدد سے‘‘ وہاں صرف جلسہ نہیں ایک سیاسی میلہ لگایا گیا جو رفتہ رفتہ منڈی بنتا گیا۔ بھرے جہازوں کے ساتھ کئی ارب پتی سوداگر کود پڑے جنہیں پانے اور پھنسانے کے لیے یار لوگ کب سے کوشاں تھے بلکہ سرگرداں تھے ۔ یہی سب سوچ سوچ کر اور مینار پاکستان پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھ کر بانی کی ’’ عمرانیات‘‘ ساتویں آسمان پر پہنچ گئی۔ بانی کرکٹ ٹیم کے بعد ایک بڑی سیاسی ٹیم کے کپتان بن کر عقلِ کُل بن بیٹھے۔ ان پہ ایک ایسا نشہ سا یا خمار چڑھ گیا جو آج بھی اُترنے کا نام نہیں لے رہا۔ موصوف خود کو دودھ کا دُھلا اور دوسروں کو گندگی کا ڈھیر سمجھنے لگے، جلسوں میں طعنے، گالیاں، بولیاں اور تم تم کی تکرار کرنے لگے۔ پچاس لاکھ گھر، اربوں کھربوں درخت، IMFسے کبھی قرض نہیں لیں گے، دیگر ممالک کے لوگ بسلسلہ روزگار پاکستان آئیں گے، بڑے بڑے سرمایہ کار پیسہ لے کر پاکستان کا رخ کریں گے اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کے دعوے اور وعدے بھی کر ڈالے مگر جب اقتدار ملا تو ان کپتان صاحب نے بھی وہی کچھ کیا جو پہلے حکمران کرتے رہے ہیں۔ تو پھر نتیجتاً اقتصادیات ICUمیں پہنچ گئی، کمر توڑ مہنگائی کا بھوت بے لگام ہو گیا، رشوت، حرام خوری، ذخیرہ اندوزی، بے کاری اور بے روزگاری ننگی ناچنے لگی، غربت دیس کی دہلیز پہ بال کھول کر بیٹھ گئی جس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں آپ نے تحفے میں ملی گھڑی کیوں بیچی، آپ تو کہا کرتے تھے کہ فلاں فلاں نے توشہ خانہ سے یہ یہ چیزیں سستے داموں اینٹھ لی ہیں۔ لوگ ہم سے 9مئی اور آپ کے القادر ٹرسٹ ایسے کیسز کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں، انہیں ’’ فرشتوں کے کالے کرتوت‘‘ گردانتے اور گنواتے ہیں۔ ہمیں کہتے ہیں راجہ صاحب! آپ نے ہی بصورت شعر یہ فرمایا تھا کہ۔
اندھیرے جتنا زور لگائیں سورج چڑھ کر رہتا ہے
میری آس اُمید عمران خان ہر پاکستانی کہتا ہے
خبر چھپی ہے کہ ’’ خیبر پختونخوا میں 40کھرب 29ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں، گھپلوں قوانین کی خلاف ورزیوں اور کرپشن کے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ریکارڈ قائم ہو گئے۔ پرنٹ میڈیا KPKحکومت کے میگا سکینڈل سامنے لے آیا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے مطابق KPکے سرکاری ملازمین سے متعلق 18کھرب 85ارب روپے کے، سرکاری فنڈز کے خرچ میں 4کھرب 74ارب روپے کے، سرکاری محکموں میں مشینری اور آلات کی خریداری میں 2کھرب 83ارب روپے کے گھپلے سامنے آگئے۔ رواں مالی سال علی امین گنڈاپور کی حکومت نے شفافیت کے برعکس 1کھرب 74ارب سے زائد کے ٹھیکے دئیے دیگر صوبائی محکموں نے رواں مالی سال میں 2کھرب 98ارب سے زائد روپے خلاف قانون خرچ کیے۔ سرکاری افسران نے 63ارب 38کروڑ روپے کے سرکاری فنڈز کو کمرشل بینکوں میں رکھا۔ انصاف فوڈ کارڈ کے لیے جاری شدہ 50کروڑ روپے سے زائد رقم خرچ ہی نہ کی جا سکی۔ CMعلی امین گنڈاپور نے 2022۔4۔29کو منصوبہ منظور کیا، 13ستمبر 2022ء کو صوبائی کابینہ نے بھی اپنے 80ویں اجلاس میں منظوری دی اور محکمہ خوراک کو خیبر بینک سے رجوع کرنے کی ہدایت کی لیکن 50کروڑ روپے کے اجراء اور خیبر بینک منتقلی کے باوجود بھی انصاف فوڈ کارڈ کا منصوبہ شروع ہی نہ ہو سکا۔ سرکاری ہیلی کاپٹر کا غلط استعمال کر کے خزانے کو شدید نقصان پہنچایا گیا، KPKحکومت کے دو ہیلی کاپٹرز کے ایندھن کی مد میں ایک کروڑ 71لاکھ سے زائد رقم کا خرچ ظاہر کیا گیا، ایک سال میں 171گھنٹے پرواز کا دورانیہ دکھایا گیا لیکن انتظامیہ وزیراعلیٰ کی جانب سے بھی ہیلی کاپٹرز کے خلاف قانون استعمال کا مقصد بتانے میں ناکام رہی‘‘۔ الغرض ان گنت ایسے انکشافات و تفصیلات ہیں جو میں لکھنے بیٹھ جائوں تو یہ کالم طویل ہو جائے گا بلکہ ایک نہیں کئی ایک کالم بن جائیں گی۔
یہ ہیں ہمارے حکمرانوں کے کارنامے اور حکومتوں کی کارکردگیاں و اعمال نامے ، صد افسوس کہ ہمارے کرتا دھرتائوں نے کبھی بھی ملک و قوم کا نہیں سوچا، یہ اپنے اپنے مفادات دیکھتے آئے ہیں اور ہمیشہ غریب عوام سے جھوٹ فریب ہی کرتے رہے ہیں۔ آج بھی بجلی، گیس، چینی، گھی، حتیٰ کہ اشیائے ضروریات تک کی قیمتیں ایک عام پاکستانی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ہم مدتوں سے غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے کہ اوپر سے اس حکومت نے پٹرول بم گرا دیا ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا بنے گا اس ملک و قوم کا۔؟
بقول شعیب بن عزیز:
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا